• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اے آر چوہدری میرے نہایت گہرے دوست تھے۔ ان کا اصل نام چوہدری اللہ رکھا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ مہاجرین کی بحالی کے محکمے میں ملازم تھے۔ انہوں نے ہندوستان بھر سے آئے ہوئے مہاجرین کی بحالی کے لئے دن رات محنت کی مگر اپنی تمام تر کوشش کے باوجود صرف اپنے معاشی حالات بحال کر سکے۔ انہوں نے کئی فیکٹریاں، مکانات اور دکانیں اپنے اور اپنے جاننے والوں کے نام الاٹ کرائیں اور پھر ایک وقت آیا کہ ان کا شمار شہر کے رؤسا میں ہونے لگا۔ انہوں نے پائپ پینا شروع کر دیا، فرفر انگریزی بولنے لگے، دو کتے السیشن اور لیبریڈور بھی پال لئے، گھر پر مخلوط پارٹیوں کا اہتمام ہونے لگا، انہوں نے اپنے ڈرائنگ روم میں ایک کونے میں بہت خوبصورت بار بھی بنایا جس میں رنگ برنگے مشروب سجے ہوئے تھے۔ ان کی گھریلو پارٹیوں کی شہر بھر میں دھوم تھی۔ اس میں بیورو کریسی کے چیدہ چیدہ افراد بھی شریک ہوتے تھے۔ مرحوم کو ”اعضاء کی شاعری“ سے بھی بہت لگاؤ تھا، چنانچہ ان کی محفلوں میں رقاصائیں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ مرحوم سوتے وقت سوٹ اور ٹائی اتار دیتے تھے اور دھوتی باندھ لیتے تھے، صبح جب آنکھ کھلتی تھی تو انہوں نے اوپر لی ہوتی تھی۔ مرحوم پنجابی میں بات صرف اس وقت کرتے تھے جب انہیں کبھی تیز بخار ہوتا تھا ایک دفعہ ایک بھڑ نے انہیں کاٹا تو بے ساختہ ان کے منہ سے پنجابی کی گالی نکلی۔ جس پر وہ کئی دن شرمندہ رہے دراصل وہ گالی بھی انگریزی زبان میں دیتے تھے ان کا کہنا تھا کہ گالی دینے کا مزا بھی انگریزی زبان میں آتا ہے جب کہ پنجابی کے اہل زبان دوست ان سے اس مسئلے پر شدید اختلاف رکھتے تھے۔ مرحوم کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ ایک بیٹا امریکہ میں دوسرا کینیڈا میں مقیم تھا۔ بیٹی آکسفورڈ میں پڑھتی تھی۔ وہاں اس نے اپنے ایک انگریز بوائے فرینڈ سے شادی کر لی اور پھر وہ بھی وہیں کی ہو رہی۔ مرحوم خود بھی برٹش نیشنل تھے اور اس پر بہت فخر کرتے تھے۔ وہ مجھ سے اکثر کہتے ”میں غلطی سے برصغیر میں پیدا ہو گیا ہوں ورنہ اصلاً میں انگریز ہوں۔“ تاہم اس انگریز کا پتہ نہیں چل سکا۔ مرحوم گرمیاں انگلینڈ ہی میں گزارتے تھے مگر وہاں رہنا پسند نہیں کرتے تھے، کہتے تھے وہاں کام کرنا پڑتا ہے، تاہم بچے انہوں نے اوائل عمری ہی میں باہر بھیج دیئے تھے جو گوروں کے علاقے میں رہتے تھے اور انہیں ہدایت کر رکھی تھی کہ کبھی کسی پاکی سے نہ ملیں اگر کوئی سر راہ بھی ملے تو منہ دوسری طرف پھیر لیں۔ البتہ موصوف لاہور میں اپنی چھ کنال کی کوٹھی میں ایک بیوی اور دو کتوں کے ساتھ رہتے تھے۔ بیو ی اکثر اپنے بیٹوں اور بیٹی کے پاس امریکہ، کینیڈا یا انگلینڈ گئی ہوتی اور یوں ان کا زیادہ وقت کتوں کے ساتھ ہی گزرتا۔ انہیں کتوں کی صحبت بہت پسند تھی، کتے بھی ان کی صحبت پسند کرتے تھے، یہ کتے بہت کتا شناس تھے۔
ایک رات ایک ڈنر کے دوران ان کی طبیعت خراب ہو گئی یہ ڈنر ان کے ایک نیک طینت دوست کی طرف سے تھا۔ اے آر چوہدری اس قماش کے لوگوں سے نہیں ملتے تھے اس دوست سے روابط رکھنا ان کی ضرورت تھی کہ وہ کئی جائز امور میں ان کا مددگار ثابت ہوتا تھا۔ طبیعت خراب ہونے کی غالباً واحد وجہ یہ تھی کہ اس روز ان کے پیٹ میں رزق حلال کے چند لقمے چلے گئے تھے۔ میں نے انہیں منع بھی کیا اور کہا کہ یہ خوراک آپ کو سوٹ نہیں کرتی مگر باز نہ آئے۔ اے آر چوہدری نے گھر واپس پہنچ کر اپنے فیملی ڈاکٹر کو بلایا۔ اس نے انہیں دوا لکھ کر دی اور آرام کرنے کے لئے کہا۔ ان کی بیوی اپنے بیٹے کے پاس کینیڈا گئی ہوئی تھی، گھر میں صرف دو کتے تھے یا ملازمہ تھی جو اپنے کوارٹر میں جا کر سو گئی تھی۔ رات گئے جب طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو ملازم کو جگایا کہ جا کر خالہ جنتے کو بلا لاؤ جو اندرون بھاٹی گیٹ رہتی تھی اور جس کا ٹیلیفون بل کی عدم ادائیگی کی وجہ سے تین ماہ سے کٹا ہوا تھا۔ خالہ جنتے دراصل جنت بی بی تھی اے آر چوہدری کی سگی خالہ تھی اور انہی وقتوں کے لئے رکھی ہوئی تھی۔ شٹل کاک برقع میں ملبوس خالہ جنتے نے گھر میں داخل ہوتے ہی بین ڈالنا شروع کر دیئے جس سے موصوف کی حالت اور خراب ہو گئی صبح 7 بجے کے قریب ان کی آنکھیں بند ہونا شروع ہوئیں۔ انہوں نے حسرت سے درودیوار پر ایک نظر ڈالی اور پھر ”جینرز“ کہہ کر سینے پر ہاتھوں سے کراس کا نشان بنایا جس پر جنتے خالہ نے شفقت سے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا اور کہا ”پتر کلمہ پڑھ“ اے آر چوہدری کی کراس والی حرکت بلا ارادہ تھی۔ ان کے کان میں کلمہ کی آواز پڑی تو ان کے ہونٹ ہلتے نظر آئے، انگریزی میں وہ کلمہ پڑھ رہے تھے۔
"There is no God but Allah and Prophet Muhammad is his messanger"
خالہ جنتے نے سورئہ یٰسین پڑھنا شروع کر دی اور یوں اے آر چوہدری کو یقین ہو گیا کہ ان کا آخری وقت آن پہنچا ہے، سو انہوں نے ایک ہچکی لی اور اللہ کو پیارے ہو گئے۔
یہ دیکھ کر خالہ جنتے کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کسے مدد کے لئے بلائے۔ کتے صرف بھونک سکتے تھے اوروہ بھونک رہے تھے کیونکہ ان کا صاحب صبح اٹھتے ہی ان کے ناشتے کا بندوبست کرتا تھا اور ناشتے میں دیر ہو رہی تھی۔ اتنے میں دروازے پر بیل ہوئی خالہ جنتے دوڑی دوڑی دروازے تک گئی۔ وہاں اے آر چوہدری کے ایک دوست راجہ ہیبت خان ہاتھ میں چھڑی پکڑے کھڑے تھے۔ جو دونوں صبح کی سیر کے ساتھی تھے۔ انہیں حالات کا پتہ چلا تو وہ اندر آئے اور اے آر چوہدری کی ٹیلیفون ڈائری میں سے ان کے دوستوں کے نمبر تلاش کرنے لگے۔ ان میں میرا نام سرفہرست تھا، سو انہوں نے مجھے یہ افسوس ناک خبر سنائی اور فوراً آنے کے لئے کہا۔ میں نے ان کے گھر پہنچتے ہی امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ فون ملانے شروع کئے تاکہ ان کے بچوں اور بیوی کو اس مرگ ناگہانی کی اطلاع دے سکوں۔ میں نے کینیڈا فون ملایا تو ان کے بیٹے کی کینیڈین بیوی فون پر ملی۔ اس نے فون جینی کو تھما دیا جو کینیڈا میں داؤد سے ڈیوڈ بن گیا تھا۔ اس نے خبر سن کر اپنے باپ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور کہا "He was a great man" اور بتایا کہ وہ اپنی پیشگی مصروفیات کی وجہ سے جنازے میں شرکت نہیں کر سکے گا۔ اس نے مجھے کہا ”آپ پاپا کو دفن کر دیں ہمیں آپ پر اعتماد ہے“ بیٹی اپنی ”مام“ کے ساتھ سوئٹزر لینڈ اور بیٹی کا انگریز شوہر ایک میٹنگ میں شرکت کیلئے بلجیم گیا ہوا تھا، چنانچہ ان سے رابطہ نہ ہو سکا۔ البتہ اے آر چوہدری کے دوسرے بیٹے جونی سے امریکہ میں رابطہ ہوا تو یہ اندوہناک خبر سن کر وہ سکتے میں آ گیا، اسے اپنے پاپا سے بہت پیار تھا۔ اس نے غم میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہا ”انکل آپ پلیز پاپا کی آخری رسومات کی نگرانی کریں، سارے اخراجات میں ادا کروں گا مگر فی الحال میرا آنا ممکن نہیں“ جب میں نے اسے بتایا کہ پوری فیملی میں سے کم از کم ایک فرد کی موجودگی بہت ضروری ہے کہ پراپرٹی کے مسئلے بھی حل کرنے ہیں تو اس نے فوراً حامی بھر لی اور دوسرے روز لاہور پہنچ گیا۔ خوش قسمتی سے پہلی فلائٹ مل گئی تھی۔
اس دوران اے آر چوہدری کی وفات حسرت آیات کی خبر ان کے دوستوں کے علاوہ ان کے غریب غربا قسم کے رشتے داروں کو بھی مل گئی تھی چنانچہ ماسی رحمتے اس کا خوانچہ فروش شو ہر بھولا سیٹی، پھوپھی زینب، اس کا شوہر فیقا ترکھان اور اسی طرح کے دوسرے عزیز و اقربا میت کے پاس کھڑے تھے۔ اے آر چوہدری نے انہی لوگوں سے لا تعلقی ظاہر کرنے کے لئے اپر کلاس کا لائف اسٹائل اپنایا تھا مگر یہ لوگ مرحوم کا بھرم ختم کرنے پر تلے ہوئے تھے اور خالص عوامی انداز میں بین کر رہے تھے، مرحوم کے دوست باہر لان میں بیٹھے ملکی حالات پر اسی انداز میں تبصرہ کر رہے تھے جیسے لا تعلق لوگ کرتے ہیں۔ جونی بہت پریشان لگ رہا تھا اس کا سارا بچپن اور جوانی گوروں کے درمیان گزری تھی، وہ کبھی کسی پاکستانی سے نہیں ملا تھا اور نہ کبھی پاکستان آیا تھا چنانچہ وہ بین ڈالتی عجیب و غریب مخلوق کو دیکھ کر سخت نروس ہو رہا تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا ”انکل یہ کون لوگ ہیں؟“ میں نے کہا ”جونی، یہ تمہارے چاچے، تائے، پھوپھیاں اور ماسیاں ہیں“ اس نے پوچھا ”یہ کیا ہوتے ہیں؟“ میں نے اسے انگریزی میں ان رشتہ داروں کے رشتے کی نوعیت بتائی تو اسے میری بات سمجھ آئی مگر اسے یہ بات بالکل سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ لوگ میت کے پاس کھڑے ہو کر گانے بھی گا رہے ہیں اور رو بھی رہے ہیں، میں نے اسے سمجھایا کہ یہ گانے نہیں گا رہے، بلکہ ترنم میں بین ڈال رہے ہیں یہ سن کر وہ چپ ہو گیا۔
وہ ابھی تک کمرے میں دھری اپنے پاپا کی میت کے پاس نہیں گیا تھا، میں اس کا ہاتھ پکڑ کر وہاں لے گیا، اس نے میت کے احترام میں کھڑے کھڑے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی اور پھر باہر آ گیا باہر آ کر اس نے پوچھا، پاپا کو دفنانا ہے یا جلانا ہے؟“ میں نے کہا ”جونی، تمہارے پاپا مسلمان تھے اور مسلمانوں کو دفنایا جاتا ہے“ یہ سن کر اس نے ایک لمبا سا ”اوکے“ کہا اور پھر پوچھا ”آپ نے آخری رسومات کے لئے کس کمپنی کو آرڈر کرایا ہے؟“ میں نے اسے بتایا کہ یہاں فی الحال اس کا رواج نہیں ہے، یہ سب کام مرحوم کے عزیز و اقربا خود کرتے ہیں یہ سن کر وہ بہت حیران ہوا۔ میں نے قریبی مسجد کے مولوی صاحب کو فون کیا کہ وہ کسی غسال کو بھیج دیں۔ نیز ان سے چارپائی اور دوسرے ”لوازمات“ بھیجنے کی درخواست بھی کی۔
میں بازار سے کفن خریدنے کیلئے باہر جانے لگا تو جونی بھی میرے ہمراہ ہو گیا، اسے سلے سلائے کفن کے کپڑے کی کوالٹی پسند نہ آئی چنانچہ اس نے ایک مہنگے اسٹور Egyptian Cotton خریدی اے آر چوہدری کو غسل دینے کا موقع آیا تو غسال کا ہاتھ بٹانے کے لئے فیضا ترکھان اور رفیق سیٹی آگے بڑھے، انہوں نے جونی کو بھی اپنے ساتھ شریک ہونے کیلئے کہا مگر جونی نے مجھے مخاطب کیا اور بیزاری سے کہا ”یہ ان ہائی جینک کام ہے۔ آئی ایم سوری“ غسل کے بعد فیقا ترکھان اور رفیق سیٹی جب بھی جونی کو دلاسا دینے کیلئے اسے پیار کرنے کی کوشش کرتے وہ اچھل کر پرے کھڑا ہو جاتا، اسکے بعد بھی کئی مشکل مرحلے آئے جن میں ایک نماز جنازہ کے وقت صفوں کی تعداد کا مسئلہ بھی تھا مگر شکر ہے یہ بخیر و خوبی حل ہو گیا، قبر کا سائز چیک کرنے کیلئے جب رفیق سیٹی خود قبر میں لیٹ گیا تو جونی کی آنکھیں خوف سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اسی طرح قبرستان سے واپسی پر جب اس نے گھر کے باہر دیگیں کھڑکتی دیکھیں تو وہ ایک بار پھر پریشان ہوا اور پوچھا ”یہ دیگیں کن کے لئے پک رہی ہیں؟“ میں نے کہا ”ان غم خواروں کیلئے جنہوں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا“ جونی نے پوچھا ”یہ اپنے گھر جا کر کیوں نہیں کھاتے“ میں نے جواب دیا ”یہ بھی انہی کا گھر ہے، اب یہ دسواں ہونے تک یہیں رہیں گے اور روزانہ دیگیں پکیں گی۔“ یہ کہانی بہت طویل ہے، قصہ مختصر یہ کہ قبرستان سے واپس آتے ہی جونی نے اپنے بھائی بہن اور مام سے امریکہ اور سوئٹزر لینڈ میں اے آر چوہدری کی پراپرٹی کے بارے میں بات کی اور پھر وکیل کو بلوا کر کاغذات تیار کرائے، وہ تو اسی روز واپس اپنے ”وطن“ جانا چاہتا تھا مگر میرے اصرار پر وہ قلوں تک رک گیا۔ اگلے روز ہوائی جہاز میں سوار ہونے سے پہلے اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری میرے کاندھوں پر ہاتھ رکھا اور کہا "I Love My Papa" آپ انکے دوست ہیں، مجھے امید ہے کہ آپ ہر کرسمس پر ان کی قبر پر پھولوں کی چادر ضرور چڑھائیں گے۔“ اس پر میں نے اسے کرسمس اور عید کا فرق بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
(نوٹ:۔ میں دو ہفتے کیلئے لندن جا رہا ہوں تاہم کوشش کروں گا کہ کالم کے ذریعے قارئین سے میرا رابطہ قائم رہے۔ )
تازہ ترین