• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
جب انسان کو صفائی کے وسیع تر معنی سمجھ نہ آئیں تو وہ دین کے ٹھیکیداروں، مبلغوں اور ملائوں سے رابطہ کرتے ہیں کہ یہ آفاقی طور پر تسلیم شدہ امر کی حقیقت کیا ہے، ویسے تو شرمندگی کی بات ہےکہ کلمہ گو مسلمانوں کو ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ کی حقیقت ایمان اول کے بھی درجہ بلندی پر رکھ کر سمجھائی جاتی ہے۔ اس تہذیب سے آشنا کرنے والوں کو بہت مہان اور صفائی کے قائل سمجھا جاتا ہے۔ مگر ہمارا کہنا ہے کہ صفائی باطن کی ہو تو یعنی اپنی ذات کی اندرونی اور بیرونی صفائی اس کی پہلی شرط ہے۔ویسے یہ ملائوں اور مبلغین کے اپنے ہی بعض مرتبہ ہوش اڑجائیں کہ وہ اپنے حمایتی اور ماننے والوں کے اخلاق وکردار سے لیکر ان کے اقدار وتہذیب ہی درست نہ کر سکیں تو ماحولیاتی اور ارد گرد کی صفائی کیا رکھ سکیں گے۔ ہم تو پہلے ہی پان کی جگہ جگہ تھوکی گئی پیک، ارد گرد پڑے گندگی کے ڈھیر،پھلوں کے چھلکے، شاپنگ بیگز کے اڑتے چیتھڑے، سگریٹوںکے ڈھیر اور گاڑیوںکی اڑتی خاک کے عادی ہیں، جس نے انسانوں کو پہلے ہی سے بیمار دربیمار کررکھا ہے تو اس پر اگر جلنے کی بدبو بھی جگہ جگہ پھیل جائے تو انسان اس سے اچھا جہنم میں جانے کی تمنا کیوں نہ کریں کہ وہاں بھی ماحول آجکل کے حالات جیسا ہی ہے جہاں آگ ہو گی وہ بھی مختلف قسم کی۔ دین کے ملائوں کو تو زیادہ علم ہے معلوم نہیں حالیہ ہفتے میں سعد رضوی کے بارے میں کیا کیا لکھا اور کہاجا رہا ہے، کہیں پرجانوں کا نقصان، زخمیوں کی تعداد اور بروقت طبی امداد نہ ملنے سے جو جانوں کا نقصان ہوا وہ علیحدہ ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ آجکل کورونا کے مسائل میں جہاں آب وہوا سے لیکر پورے ماحول ہی کو صاف ستھرا رکھنے کی ضرورت ہے، اس پر ان نہام نہاد دینی ٹھیکیداروںنے کبھی غور نہیں کیا کہ ان کی ضد کی لپیٹ میں کوئی بھی آسکتا ہے یوں تو سعد رضوی حافظ بھی ہے اوردوسری دینی تعلیم سے آراستہ بھی مگر کاش یہ فضائی آلودگی سے پیدا شدہ سائنسی وجوہات کی تعلیم سے بھی بہرہ ور ہوتے کہ اس کے کتنے نقصانات ہیں۔ پچھلے ہفتے سے ملک میں جو انارکی دینی جماعت نے پھیلائی ہے اس سے عام شہریوں ہی کا نقصان ہوا۔ سعد رضوی کو مختلف القاب سے نوازا جا رہا ہےمگر کاش اسے دینی معالج، حافظ اوردین کا ٹھیکیدار نہ سمجھا جائے اسے صرف ہٹ دھرم سمجھا جائے وہ ہٹ دھرم جو نازک صورتحال سے لاعلم ہے کہ کورونا کی آزمائش میں جہاں لوگ ماسک لگانے سے پھیپھڑوںکی کمزوری کا شکار ہیں، وہاں ٹائر، گاڑیاں جلانے کی بدبو پھر زہریلی گیس کے دھویں نے کئی لوگوں کی سانس اکھاڑ دی اور کورونا کے مریض تو آکسیجن کی کمی اور فضائی آلودگی کی بناء پر ویسے ہی صحت سے بے حال ہو گئے۔7اپریل کو صحت کا عالمی دن منایا جاتا ہے، ان دن کو منانےکا مقصد عام لوگوں کو صحت کی اہمیت سے آگاہ کرناہوتا ہے۔ عالمی یوم صحت پر ہی یہ احتجاج شروع ہوا۔ اس احتجاج کو ناموس رسالتؐ کے احتجاج کا نام دیا گیا حالانکہ جس ہستی کا نام لیکر آپؐ کی امت کو حا ل سے بے حال کیا گیا۔ حالانکہ آپؐ نے فرمایا ہے کہ وباء کےدنوںمیں گھروں میں رہ کر توبہ استغفار کرنا چاہئے۔ آپؐ نے عام دنوں میں امن کو نقصان پہنچانے کو اچھا نہیں سمجھا تو وباء کے دنوں میں یہ سب کیسے قابل قبول ہو سکتا ہے۔ ویسےبھی دین کے ٹھیکیداروں سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ انسان کی اہمیت کیا ہے۔ پھر یہ بات بھی یہی لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ خدا کی جنت چاہتے ہو تو بندوں کی زندگی جہنم بنانا چھوڑ دینا چاہئے۔دنیا بھر میں عالمی دن اسی لئےمنائےجاتے ہیں کہ ان کی اہمیت افادیت کی پہچان ہو سکے، دوسرے رشتوں سے زیادہ صحت وصفائی کے دنوں کی زیادہ اہمیت ہے، ترقی یافتہ ممالک سے علاوہ تیسری دنیا کے ممالک بھی ان دنوں کی اہمیت کی بنا پر کچھ نہ کچھ اہتمام تو کرتے ہی ہیں مگر ہمارے یہاں اس مرتبہ 7اپریل سے لیکر 22اپریل تک ماحولیاتی آلودگی اورجانوں کے نقصان کےعلاوہ سانس کے مریضوں کی مشکلات بڑھا کر کیا کیا گیا۔ یعنی 7اپریل کو صحت کا عالمی دن ہے اگر تو 22اپریل کو یوم ارض منایاجاتا ہے مقصد یہ کہ سماجی ذمہ داریوں کو بھی سمجھا جانا چاہئے۔ مذہبی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اسلام میں بھی معاشرتی حدود وقیود سے علاوہ سماجی طور پر بھی ذمہ داریوں کا احساس دیا گیا ہے اور صفائی اورچیزوں کی یعنی املاک کی حفاظت پر بھی زور دیا گیا ہے۔ ایک حدیث بھی اسی سلسلے میں ہے، انہیں حالات کے پیش نظر کہ آپؐ نے اس اقدام کو اچھا نہیں جانا تو مولانا حضرات تو زندگی کا ایک ایک لمحہ سنت نبوی کے تحت گزارتے ہیں، انہیں معلوم ہو گا کہ جب آپؐ نے جہاد کیا تو لوگوں نے زیادہ جگہات کو گھیر کر راستے بند اور لوگوں کومنزلوں تک پہنچنے میں دشواری پیدا کی تو آپؐ نے فرمایا تھا کہ جس نے راستے اور منزلیں بند کیں ان کا کوئی جہاد نہیں۔ میرا خیال ہے کہ مذہب کے نام پر عام لوگوں کی زندگی مشکل بنانے والے بخوبی جانتے ہی ہونگے کہ نازک حالات میں جب ملک کئی مسائل سے نبرد آزما ہو رہاہو تو کیا ایسی تباہی مچانا چاہئے تھی کہ جس کا اثر مہینوں تک رہے۔ ملک ویسے ہی گندگی کا ڈھیر بنتا جا رہا ہے، پہلے کراچی اور اب لاہور۔ جتنے بڑے اورخوبصورت شہر، اتنی ہی گندگی کا ڈھیر ثابت ہو رہے ہیں۔ انتظامیہ کوئی قدم نہیں اٹھا رہی تو مذہبی تنظیموں اور عام لوگوں کو تو سمجھنا چاہئے کہ آپ ہی کا گھر ہے۔خیر گزری کہ سعد رضوی نے گرفتاری کے بعد اپنے لوگوں کو امن سے رہنےا ور اپنے گھروں کو واپس جانے کا حکم دیدیا مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ جگہ جگہ پھیلی اینٹیں، پتھر اور دوسری املاک، جو جل گئی تھیں، ان کی صفائی کا بھی کہہ دیتے، جو لوگ ماحولیاتی صفائی کے قائل نہیں تو وہ اپنی ذات کی صفائی کیسے کر سکتے ہیں۔ اس احتجاج میں جن کی جانیں گئیں، اس کا مداوا تو عبادت سے بھی ممکن نہیں۔ ہمارے یہاں 7اپریل کا یوم صحت ہو یا پھر 22اپریل کا یوم ارض اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا، وہی جو انتہا پرست چاہیں گے۔
تازہ ترین