• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی کابینہ میں بار بار تبدیلیاں غیر ملکی میڈیا حیران بھی متجسس بھی

اسلام آباد ( فارو ق اقدس ) معیشت کے مدو جز رمیں گھرے ہوئے پاکستان میں وفاقی کابینہ میں بار بار تبدیلیاں اور بالخصوص ملک کی معاشی صورتحال میں دو سال کے عرصے میں چوتھے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کی تقرری جنہیں حماد اظہر کی جگہ پر وزارت دی گئی ہے، سے صرف ملکی سطح پر اپوزیشن کی روایتی تنقید کا ہی نہیں بلکہ بعض غیر ملکی خبر رساں اور نشریاتی اداروں میں بھی حیرانی اور تجسس کا باعث بنی ہے ۔آج ( ہفتے کو ) شوکت ترین نے ملک کے وفاقی وزیر خزانہ کا حلف اٹھایا جو وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ میں دو سال کے عرصے میں وہ چوتھے وزیر خزانہ ہیں جنہیں خزانہ کا قلمدان سونپا گیا ان سے قبل اس عہدے پر حماد اظہر کو فائز کیا گیا تھا جو اس منصب پر قلیل ترین مدت کے وزیر خزانہ تھے ۔ان کی وزارت کا دورانیہ تین ہفتےسے بھی کم تقریباً 19دن تھا ۔یادر ہے کہ وہ پنجاب کے معروف سیاستدان میاں محمد اظہر کے صاحبزادے ہیں جو گورنر پنجاب بھی رہ چکے ہیں ۔ایک غیر ملکی خبررساں ادارے نے اپنی ویب سائٹ پر اس صورتحال پر تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت میں وفاقی حکومت نے اپنی اقتصادی ٹیم میں ایک بار پھر چند تبدیلیاں ایک ایسے وقت پر کی ہیں، جب پاکستان اگلے مالی سال کے لیے قومی بجٹ کی تیاریوں میں ہے اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی طرف سے تجویز کردہ معاشی اور مالیاتی اصلاحات پر عمل درآمد بھی حکومت کے لیے ایک کڑا سیاسی امتحان ثابت ہو رہا ہے۔نئے وزیر خزانہ شوکت ترین ایک سابقہ بینکار ہیں جو ماضی میں پاکستانی سینیٹ کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ ماضی میں اس وقت بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں تقریبا ایک سال کے لیے وزیر خزانہ رہے تھے جب پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری ملکی صدر تھے اور موجودہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی۔شوکت ترین کی نئی اہم ترین ذمے داریوں میں سے ایک اب چند ہفتے بعد پاکستان کا نیا سالانہ بجٹ پیش کرنا ہو گی۔ اس بجٹ کے بارے میں کئی ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ یہ شاید پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ خسارے والا قومی بجٹ ہو گا۔ اس کے دو کلیدی اسباب میں سے ایک کورونا کی عالمگیر وبا بتائی جاتی ہے اور دوسرا سبب بے یقینی سے عبارت وہ معاشی پالیسیاں جن کا اب تک عمران خان کی حکومت نے عملی مظاہرہ کیا ہے۔پاکستان کو، جسے ان دنوں کورونا وائرس کی وبا کی تیسری لہر کا سامنا ہے، عمومی کاروبا رکے متاثر ہونے کی وجہ سے جن بڑے مسائل کا سامنا ہے، ان میں حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں ہونے والی آمدنی میں کمی نمایاں ہے۔گزشتہ برس پاکستانی معیشت کے حجم میں 0.4 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی تھی۔ اس سال 30 جون کو ختم ہونے والے رواں مالی سال کے لیے حکومت کا اندازہ ہے کہ ملکی معیشت کی کارکردگی میں تین فیصد تک ترقی دیکھنے میں آئے گی۔اس کے برعکس آئی ایم ایف کے اندازوں کے مطابق مالی سال 2020ء اور 2021ء میں پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں 1.5 فیصد ترقی متوقع ہے۔ دوسری طرف عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ رواں مالی سال کے لیے پاکستانی معیشت میں ترقی کی یہ شرح 1.3 فیصد رہے گی۔2018ء میں جب عمران خان وزیر اعظم بنے تھے، تو اس وقت پاکستانی معیشت میں ترقی کی سالانہ شرح 5.8 فیصد تھی۔ایک برطانوی نشریاتی ادارے کے ویب سائٹ نے شوکت ترین کی ذاتی زندگی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کی پیدائش ملتان میں کرنل ڈاکٹر جمشید کے گھر میں ہوئی، مختلف کینٹونمنٹ سکولوں میں زیر تعلیم رہنے کے بعد انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی۔انھوں نے 1975 میں سٹی بینک میں ایک ٹرینی کے طور ملازمت اختیار کی اور سٹی بینک تھائی لینڈ کے صدر کے منصب پر فائز رہے، سٹی بینک کے ساتھ 22 سال منسلک رہنے کے بعد 1997 میں میاں نواز شریف کی حکومت کے کہنے پر وہ پاکستان آئے اور انھوں نے حبیب بینک کی کامیاب ری اسٹریکچرنگ کی جس کے نتیجے میں یہ بینک 230 ملین ڈالرز کے خسارے سے 30 ملین ڈالرز منافع میں آگیا۔ 2000 میں وہ حبیب بینک سے بطور صدر فارغ ہوئے اور یونین بینک میں ملازمت اختیار کی جس کے شیئرز سٹینڈرڈ چارٹرڈ کے حوالے کیے گئے۔2008میں وہ کراچی سٹاک ایکسچینج کے صدر رہے، جہاں سے وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پہلے یوسف رضا گیلانی کے مشیر خزانہ اور بعد میں سندھ سے ٹیکنو کریٹ کی نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے انہیں وزیر خزانہ کا منصب دیا گیا۔ان دنوں آئی ایم ایف کے قرضے کے ساتھ این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم بھی مجوزہ تھی جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی کوشش ہوگی کہ این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم کے معاملے میں چھوٹے صوبوں کی شکایات کو دور کریں اور ہر صوبے کو اس کا حق ملے۔ فروری 2010 میں وہ مستعفی ہوگئے، جس کی وجہ انہوں ذاتی مصروفیات بیان کیں ، ویب سائٹ کے مطابق سلک بینک میں شوکت ترین کے چھیاسی فیصد حصص تھے اور نئے سرمایہ کاروں کا یہ مطالبہ تھا کہ وہ بینک کے کاروبار کو مکمل وقت دیں۔ان دنوں وہ ایوان بالا میں امیر ترین سینیٹر تھے ان کے پاس چوّن کروڑ پچپن لاکھ کی جائیداد، دو کروڑ اٹھارہ لاکھ روپے کی گاڑیاں اور مختلف مالیاتی ادراوں اور بینکوں میں تین ارب روپے کی سرمایہ کاری بھی ہے۔وہ گالف کا شوق رکھتے ہیں ان کے تین بچے ہیں، اس کے علاوہ چلڈرن ہیلتھ اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے بھی مالی معاونت کرتے ہیں۔

تازہ ترین