• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سمیرا ملک نے یہ کہہ کر جان چھڑوا لی ہے کہ انہوں نے 2002ء کا الیکشن کنگز پارٹی کے خلاف لڑا تھا ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ انہوں نے جنرل مشرف کے خلاف الیکشن لڑا مگر ماروی میمن کیلئے یہ وضاحت کرنا بھی مشکل ہے کیونکہ جس روز جنرل مشرف نے استعفیٰ دیا تھا چوہدری شجاعت حسین کے گھر پر جس خاتون کی آنکھوں میں آنسو کی جھڑی تھی اس کا نام ماروی میمن تھا، بعد میں گجرات کے ایک ضمنی الیکشن میں اس پھرتیلی خاتون نے ن لیگ کا ناک میں دم کئے رکھا ہے۔ اس دوران انہوں نے ن لیگ کی قیادت کی خاصی ”تعریفیں “ کیں، یہ ”تعریفیں“ سن کر لوگ خاصے پریشان ہوئے تھے پھر یہ ماروی گھوٹکی پہنچ گئیں،وہاں ایک بڑے جلسے میں کہنے لگیں اب میں اصلی قیادت کے پاس آ گئی ہوں، پھر وہ اصلی قیادت ماروی میمن کے معیار پر پورا نہ اتر سکی اور پھر بالآخر ماروی پھڑپھڑا کر میاں جی کے پاس آ گئیں۔ جنہوں نے انہیں پنجاب کے کوٹے سے ایم این اے بنا دیا ۔ پنجاب کے کوٹے سے وہ پچھلی مرتبہ بھی ایم این اے بن گئی تھیں جب میں نے پیپلز پارٹی کو یہ مشوردہ دیا کہ آپ ماروی میمن کے خلاف عدالت کا رخ کریں تو مجھے جواب ملا کہ اس نے صدر صاحب کو صدارتی انتخاب میں ووٹ دیا ہے، ہم اس کی سیٹ کے پیچھے کیوں پڑیں۔
آنسوؤں سے مجھے یاد آیا کہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے بھی اپنی وزارت آنسوؤں کے ذریعے بچائی تھی ،آنسو بہت کام دکھاتے ہیں، ایک زمانے میں افتخار گیلانی، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے سامنے آنسو بہایا کرتے تھے۔
وفاقی اور پنجاب کابینہ دیکھنے کے بعد جنرل مشرف سے خواہ مخواہ محبت پیدا ہو گئی کیونکہ وفاقی کابینہ کی ایک تہائی پرویز مشرف کے ساتھ تھی اسی طرح پنجاب کابینہ میں شامل ایک تہائی اراکین مشرف کے ساتھی رہے ہیں۔ اس سے آپ جنرل مشرف کی مستقبل بینی کا اندازہ بھی لگا سکتے ہیں۔ باقی وزراء کا نام نہیں لکھتا،صرف زاہد حامد کا لکھ دیتا ہوں، وہ جنرل مشرف کے چہیتے تھے اور سینیٹر سید ظفر علی شاہ، میاں نواز شریف کے مقدمات لڑ رہے تھے حالات کی ستم ظریقی نے ظفر علی شاہ کو پیچھے کر کے زاہد حامد کو آگے کر دیا ہے۔ اسے مقدر کا کھیل سمجھیں یا ”قسمت پڑی“ تصور کریں کہ جنرل مشرف کے چہیتے امیر مقام مشیر بن گئے ہیں اور کلثوم نواز کے سر پر چادر ڈالنے والے سر انجام زمیندار ، عبدالسبحان خان اور اقبال ظفر جھگڑا منہ دیکھ رہے ہیں کیونکہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر بھی امیر مقام اور سردار مہتاب کے دیئے ہوئے ناموں کو شرف باریابی نصیب ہوا ہے جبکہ شاہین حبیب اللہ، نجمہ نوشیرواں اور عاصمہ زریں اور اپنی قسمت کو حیرت سے دیکھ رہی ہیں، کام ہار گیا ہے، رشتہ داریاں جیت گئی ہیں۔ قسمت کی دیوی اس بار ان چھ خواتین پر بھی مہربان نہ ہو سکی جو پچھلی قومی اسمبلی میں موجود تھیں، پتہ نہیں کیوں تیس سالہ خدمات کے صلے میں عشرت اشرف کو نظر انداز کر دیا گیا اسی طرح تسنیم صدیقی، شیریں ارشد، نثار تنویر، ڈاکٹر امتیاز بخاری اور قدسیہ ارشد کی قسمت رشتے داریوں کے سامنے ہار گئی۔ انفرادی حیثیت میں تسنیم صدیقی نے خرم جہانگیر وٹو کے بعد سب سے زیادہ بل پیش کئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کی محبت میں کالم لکھے، ٹی وی پروگراموں میں لڑائیاں کیں مگر
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں
بدقسمتی سے تسنیم صدیقی دہری شہریت کے حوالے سے ایک بل پیش کر بیٹھیں، یہ بل منظور بھی ہو گیا اور پھر دہری شہریت کا حامی مضبوط مافیا اس خاتون کا دشمن بن گیا۔ اب یہ خاتون کہتی ہے کہ اگر بھانجیوں، بھتیجیوں اور رشتہ دار عورتوں کو لانا ہے تو پھر عورتوں کی مخصوص نشستیں ختم ہونی چاہئیں۔ نئی وفاقی کابینہ پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو پتہ چلے گا کہ اکثریت کا تعلق لاہور اور گوجرانوالہ ڈویژن سے ہے۔ پنڈی سے بھی دو وزیر لئے گئے ہیں۔ پنجاب میں برادریوں کی سیاست ہوتی ہے مگر وفاقی کابینہ میں پنجاب سے راجپوت اور کشمیری شامل ہیں، جاٹوں کے پنجاب میں سے ایک جاٹ وزیر لیا گیا ہے کوئی ارائیں، گوجر، سید ،پٹھان ، اعوان اور مغل وفاقی وزراء میں شامل نہیں ہیں، فیصل آباد ڈویژن سے کسی کو شامل نہیں کیا گیا ۔ ملتان سے بہت سی پارٹیوں کا پانی پی کر آخری وقت میں چار و ناچار مسلم لیگ ن کا حصہ بننے والے سکندر بوسن وزیر بن گئے ہیں مگر چھٹی مرتبہ ایوان کا حصہ بننے والے جاوید علی شاہ قسمت کی دیوی کو گھور رہے ہیں ان کا سب سے بڑا ڈس کریڈٹ شرافت ہے۔ ڈی جی خان کے کھوسے نہ چاہتے ہوئے بھی ن لیگ سے چمٹے ہوئے ہیں۔ لغاری برادران آزاد حیثیت میں جیت کر ن لیگ کا حصہ بنے تھے مگر ” ککھ“ فائدہ نہیں ہوا، ایک مولوی صاحب آڑے آ گئے۔ حافظ عبدالکریم سعودی عرب کے پسندیدہ آدمی ہیں۔ چوہدری جعفر اقبال بھی وفاداری کا ”چہرہ“ بار بار دیکھ رہے ہیں۔ چوہدری صاحب کو اچھی طرح معلوم ہونا چاہئے کہ یہاں وفاداری کی زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کے پرآشوب دور کے رفیق جاپانی قیصر شیخ کے بجائے ایک دوسرے قیصر شیخ کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دے دیا گیا۔ وفاداری کے ساتھ ساتھ ”اقدار“ کی سیاست بھی اس پر ماتم کرتی ہے۔ وفاداری یہی ہے کہ شوکت ترین پھر سے وفاقی ٹیم کا حصہ بن گئے ہیں۔شازیہ اورنگ زیب کو پارٹی سے نکلنے پر مجبور کرنے والوں نے یوتھ ونگ کے سیکرٹری اطلاعات علی خان یوسف زئی کے ساتھ بھی اب تک تو اچھا سلوک نہیں کیا ۔ آگے نہ جانے کیا ہوتا ہے۔
سیاست میں پیچھے رہ جانے والوں کے بارے میں میرا یہ خیال ہے کہ اس میں قسمت کا اتنا قصور نہیں ہے۔ کاش وہ رانا اقبال سے دو تین کلاسیں پڑھ لیتے۔ انہیں بھی موتیوں کی لڑی پرونا آنی چاہئے تھی ،اسپیکر شپ کا جو ”عمدہ“ کردار رانا اقبال نے ادا کیا وہ کردار سردار ایاز صادق ادا نہیں کر سکے۔ باقی جو فیصل آباد میں ہوا ، اس پر یہی کہا جا سکتا ہے۔
زندگی اتنی بھی غنیمت نہیں کہ جس کے لئے
عہد کم ظرف کی ہر بات گوارا کر لیں
تازہ ترین