• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شہریان برطانیہ اپنے ہائیڈ پارک پر اتراتے ہیں ، جہاں جو چاہے جا کر اپنے من کی بھڑاس نکال سکتا ہے ۔ امریکی اپنے ڈسٹرکشن کلب پر نازاں ہیں ۔ جس کی مرضی ہو اس کلب کا ممبر بنے اور وہاں جا کر قیمتی اشیاء توڑ کر اپنا غصہ نکال لے ۔ مہذب دنیاانسانی دماغ کے کیتھارسس کیلئے ان مقامات کو آئیڈیل سمجھتی ہے…سمجھتی رہے ۔
تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو کیتھارسس اور شخصی آزادیوں کی اس دوڑ میں وکٹری اسٹینڈ پر برطانوی اور امریکی ہمارے دائیں اور بائیں، دوسرے اور تیسرے نمبر کھڑے ہیں ۔ پہلی پوزیشن پر ہم خود ، سونے کا تمغہ گلے میں لٹکائے ، چھاتی پھلائے ،جلوہ افروز ہیں ۔ یہاں ایسی آزادیوں کے لئے کوئی خاص مقام یا حدود و قیود مقرر نہیں ۔ پورے کا پورا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہائیڈ پارک اور ڈسٹرکشن کلب ہے ۔ اس وسیع”ہائیڈ پارک“ میں جس کا جی چاہے ،کسی بھی گلی ، محلہ ،شاہراہ ،پبلک مقام یا جہاں چاہے ہیبت ناک چنگھاڑتے لاؤڈ اسپیکرکھول کر دوسروں کا جینا حرام کردے ۔ اونچا میوزک ، پریشر ہارن بجا کر اپنے جی کا بوجھ ہلکا کرے یا اپنے مریضانہ خیالات دوسروں پر بزور شمشیر ٹھونس کر سکون حاصل کرے۔ کرپشن کے ذریعے دولت کے انبار اکٹھے کرنے والا دوسروں کو ایمانداری کے بھاشن دے یا اپنی خود ساختہ فرشتہ سیرتی کی نرگسی سرشاری میں دوسروں کو گناہ گار اور جہنمی قرار دے ۔ کوئی بھی فکری طور پر گنگال اور وژن سے عاری خود کو عقل کل سمجھ کر قوم کی رہنمائی کا ٹھیکہ بزور بازو حاصل کر لے یا اپنے نظریاتی و سیاسی مخالفین کو دشمن کا ایجنٹ اور کافر قرار دے۔ سچ کی بیخ کنی کی مشق ستم جاری رکھے یا جھوٹ کی ترویج میں دن رات ایک کرے ۔ عوامی درگاہ سے دھتکارا ہوا اپنے دقیانوسی خیالات کو عوامی امنگوں کا ترجمان گردانے یا مخالفوں پر دشنام طرازی اور طعنہ فرسائی میں تمام اخلاقی حدود عبور کر جائے ۔ جدید سائنس وٹیکنالوجی کودولتی جھاڑ کر دنیا میں اپنی قوم کا تماشا بنائے یا دانش کے نام پر جی بھر کے دھول اڑائے ۔ حتیٰ کہ کوئی بھی غیر ملکی ذہنی مریض آ کر ہمارے ادارے توڑنے کے ببانگ دہل مطالبات کرے اور دھرنے دے …بے حیا کی ردبلا …سب شاداب و ثمر بار، سب سرخرو ہیں۔ ہمارے اس ”ڈسٹرکشن کلب“ میں ہر چیز توڑ کر اپنا غصہ ٹھنڈا کرنا بھی روا ہے ۔ یہاں کسی بھی قماش کے احتجاج کی آڑ میں سرکاری و نجی املاک کی توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی اجازت ہے ، حتیٰ کہ عوامی مینڈیٹ کے سر پر جوتے توڑ کر اپنی شکست کا بدلہ لینے کی بھی مکمل آزادی ہے ۔ کسی خود ساختہ یاگروہی مفاداتی نظرئیے کی آڑ میں تاریخ ، افکار قائد اور قیام پاکستان کے مقاصد کو توڑ موڑ کر پیش کرنے میں بھی کوئی رکاوٹ حائل نہیں ۔ اس مملکت خداداد میں شیشے ، سگنل ، دل ، وعدے ،عہد، معاہدے ، امیدیں ، سانسیں حتیٰ کہ آئین اور اسمبلیاں توڑنے پر بھی پابندی نہیں ۔ اب اس سے زیادہ آزاد ی کیا ہو گی کہ ملک توڑنے کی باتیں کرنے بلکہ اسے توڑ دینے پر بھی کوئی قدغن نہیں، اسی لئے جون ایلیا نے کہا تھا
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز ایک چیز ٹوٹ جاتی ہے
ہم سوختہ بختوں نے نسل در نسل مارشل لاؤں کے زیر سایہ ہوش سنبھالے ہیں ، سو ہم نے اپنی زندگیوں میں آئین کو معتبر دیکھا نہ قانون کی حکمرانی۔ یہاں آئین بھی ہمیشہ سے کاغذ کا بے وقعت ٹکرا تھا اور قانون بھی ”جس کی لاٹھی ، اس کی بھینس “ کے پرچم تلے ماتم کناں رہا۔آمرانہ ادوار کی بادسموم نے ہمارے لطیف جذبات اور مثبت رویوں کی ایسی نہس ماری کہ ہمارے لئے اخلاقی اقدار بھی سدا غیر رہیں اور تہذیب بھی اجنبی ۔ ہمیں رواداری کبھی مرغوب رہی نہ احترام انسانیت اور وسیع القلبی ایسے چونچلے دل کو بھائے ۔ ہم نے دلیل کو درخوراعتنا جانا نہ کبھی مکالمہ ہمارے نیک دلوں میں کوئی مقام بنا سکا۔ لاعلمی سے ہمیں محبت اور علم و دانش سے ہماری عداوت رہی۔ سارے سفر رائیگاں میں انتہا پسندی ہماری رفیق تھی اور جہالت ہماری ہمسفر، یہاں تک کہ پورا ملک ”ہائیڈ پارک “ اور ”ڈسٹرکشن کلب“ بن گیا۔
اب جبکہ خوشگوار تبدیلی کا ایک دریچہ وا ہوا ہے اور ایک منتخب حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کر کے نئی منتخب حکومت کو باوقار طریقے سے اقتدار منتقل کیا ہے تو ہمیں اپنے کج ادا رویوں میں بھی تبدیلی کی کوشش کرنی چاہئے کہ جمہوریت اور جمہوری رویّے ہی ہمارے ہر درد کا درماں ہیں۔ سیاسی رہنماؤں خصوصاً اکثریتی پارٹی مسلم لیگ کے لیڈروں کے اقوال اور افعال سے لگتا ہے کہ بدلتے وقت نے بہت سی خاردار جھاڑیوں میں پھول کھلانے شروع کر دیئے ہیں اور ہماری سیاسی انحطاط پذیری اور بے سمتی کو درست سمت میں موڑنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ہماری ناقص فہم میں اگر ہم من حیث القوم چھوٹی سطح سے شروع کریں اور سڑکوں اور شاہراہوں پر لگے چھوٹے چھوٹے ہدایت ناموں پر عمل کرنے کو اپنا شعار بنا لیں تو یہ مثبت رویہ ایک بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے تاہم اس کے لئے ان میں کئی نئے بورڈوں کا اضافہ بھی کرنا پڑے گا مثلاً جہاں پر لکھا ہو ”پلوشن مت پھیلائیں“ اس کے ساتھ دوسرے بورڈ پر لکھا ہو ”منافرت مت پھیلائیں“ جہاں ”ٹریفک کے قوانین کا احترام کریں“ کی ہدایت ہو ، وہاں ”دوسروں کی رائے کا احترام کریں “ بھی درج ہو۔ اسی طرح جہاں” اشارہ توڑنا منع ہے “ یا ”پھول توڑنا منع ہے “ جیسے سائن بورڈ ہوں ، وہیں ایسے ہدایت نامے بھی ایستادہ ہوں کہ ”اسمبلیاں توڑنا منع ہے “ ”امیدیں توڑنا منع ہے “ ”عوامی مینڈیٹ کی توہین منع ہے “” اقربا کو نوازنا منع ہے “ ”سیاسی بنیادوں پر روزگار کی فراہمی منع ہے “ ”آبادی بڑھانا منع ہے “”جھوٹ بولنا منع ہے “” اختیارات سے تجاوز کرنا منع ہے “۔ جس جگہ ”تیز رفتاری سے پرہیز کریں “”برانڈ بورڈ ہوں ، وہیں ”ریاستی جبر سے پرہیز کریں “ اور جہاں ” اپنی لین میں رہیں “ کی ہدایت ہو ، وہاں ” اپنی حد میں رہیں“ بھی لکھا ہو یا جیسے ”دیرے سے پہنچنا، نہ پہنچنے سے بہتر ہے“ کی طرح ” لولی لنگڑی جمہوریت ،خوشنما آمریت سے بہتر ہے “ وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ اسلام آباد میں بھاری گاڑیوں کا داخلہ ہے ۔ جب یہ گاڑیاں اس شہر میں داخل ہوتی ہیں تو دارالحکومت کے ساتھ ساتھ سارے ملک میں ٹریفک الٹی چلنی شروع ہو جاتی ہے ۔ یہ بھاری گاڑیاں اسلام آباد کی سڑکوں خصوصاً شاہراہ دستور پر ایسے ایسے گہرے کھڈے بنا دیتی ہیں کہ پورا ملک ہچکولے کھانا شروع ہو جاتا ہے۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام آباد کے داخلی راستوں اور شاہراہ دستور پر جگہ جگہ ایسے دیوہیکل بورڈ نصب کر دیئے جائیں جو رات بھر بھی تیز روشنیوں سے منور رہیں اور ان پر صاف صاف لکھا ہو کہ ”ٹرپل ون کی بھاری گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہے “۔
تازہ ترین