• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آئن اسٹائن جسے CENTRE WILL OF UNIVERSE قرار دیتا ہے یعنی منشائے ایزدی۔اس منشائے ایزدی سے میاں محمد نوازشریف برسرحکومت ہیں۔ مکمل اختیارات کے ساتھ…ایک ہاتھ دیا روشن کرتا ہے…ایک پھونک اسے بجھا دیتی ہے…ہاتھ بھی تم ہو…پھونک بھی تم ہو…حکومت فضیلت ہے۔ سرچشمہ انصاف ہو تو زمین پر حق سبحانہ تعالیٰ کی خلافت۔ عدل اور شفقت سے خالی ہو تو ابلیس کی نیابت کہ حکمران کے ظلم سے بڑھ کر زمین پر فساد اور انتشار کا سبب کچھ اور نہیں۔ میرے آقا رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے”بادشاہ کا ایک دن عدل کرنا ساٹھ برس عبادت سے افضل ہے“۔”قیامت کے دن سات آدمی خدا کے عرش کے سائے میں ہوں گے ان میں پہلا عادل بادشاہ ہے“۔ اور فرمایا ”عادل حکمران حق تعالیٰ کا مقرب اور بڑا دوست اور ظالم حکمران اللہ کا بڑا دشمن اور بہت عذاب کا مستحق“۔اور یہ بھی قرار دیا کہ ”حق تعالیٰ نے جس کو مسلمانوں پر سرداری دی اور اس نے ان کی ایسی نگہبانی نہ کی جیسی اپنے گھر والوں کی کرتا ہے تو اس سے کہہ دو کہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں ڈھونڈے“۔غزوہ بدر کے دن حضرت سلطان الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سائے میں تشریف فرما تھے اور اصحاب کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین دھوپ میں۔حضرت جبرائیل آئے اور کہا ”یارسول اللہ آپ سائے میں ہیں اور اصحاب دھوپ میں“۔اتنی سی بات پر گلہ کیا گیا۔
ازروئے جمہوریت حکومت سازی منتخب جماعت کا حق، حسن تدبیر اور اہل حکمت کے مشورے کے ساتھ۔ علم و حکمت ہر ایک کو نصیب نہیں۔ بہت کم اس فضیلت کے حامی ہوتے ہیں اور یہی وہ چند لوگ ہیں حکمرانوں کو جن سے مشاورت کرنی چاہئے۔ ابتدائی مرحلے میں مختصر کابینہ، بیس افراد پر مشتمل۔ ایک احسن فیصلہ لیکن ابتدائی مرحلے تک کیوں حتمی کیوں نہیں۔ فیڈرل کاسترو نے کہا تھا”آٹھ آدمیوں کے ساتھ میں نے آغاز کیا تھا پھر موقع ملے تو چار کا انتخاب کرنا چاہوں گا“۔امریکہ کی آبادی پاکستان سے دگنی، رقبہ دس گنا اور معیشت ہزار گنا طاقتور لیکن کابینہ مختصر ترین۔
آج میاں محمد نوازشریف ایوان اقتدار میں ہیں اور چند سو میٹر کے فاصلے پر پرویزمشرف سب جیل میں…یہ دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں…اقتدار میں طرح طرح کی لذتیں،خواہشیں اور تکلیفیں پائی جاتی ہیں۔ اعتدال یہ کہ ان پر قابو رکھا جائے۔ میاں صاحب سے لوگوں کو امیدیں ہیں اور بہت، اور یہ اعتماد بھی کہ حکومت اخراجات میں کمی کرے گی۔ وزیراعظم نوازشریف کا پرائم منسٹر ہاؤس میں رہائش سے گریز بجا۔ ابتدا میں ایسے اقدامات ہر حکومت میں دیکھنے میں آتے ہیں لیکن بعد میں سب فضول خرچی اور اللّے تللّوں کی راہ پر دوڑنے لگتے ہیں۔ میاں صاحب اپنے ان ارادوں میں سنجیدہ بھی ہیں تب بھی سیکورٹی خدشات اور وزارت عظمیٰ کے عہدے کے دیگر تقاضوں کے لحاظ سے بہتر یہی ہے کہ حکومتی ایوانوں میں رہا جائے لیکن کفایت شعاری کی مثالیں قائم کرتے ہوئے۔ اے ڈی سی گل حسن نے قائداعظم محمد علی جناح کو رپورٹ پیش کی کہ چند کاریں کرائے پر لینے کی اجازت دی جائے۔ قائداعظم نے انکار کر دیا۔ پوچھا گیا کہ کابینہ کے اجلاس کے دوران چائے یا کافی کس وقت پیش کی جائے،کہا کسی وقت بھی نہیں۔ مرحوم غلام اسحاق خان اور صدر رفیق تارڑ مثال ہو سکتے ہیں اور معاصرین میں ملکہ برطانیہ بھی۔ ایک مرتبہ ملکہ نے ٹونی بلیئر کو اپنے محل میں کھانے پر مدعو کیا، کھانا کھانے کے بعد ملکہ برطانیہ نے اپنے برتن اٹھاتے ہوئے کہا کہ آج نوکروں کی چھٹی ہے ہمیں خود برتن دھونے اور اٹھا کر رکھنے ہیں۔
لوڈشیڈنگ کا خاتمہ،ممکن نہیں کہ اس سے گریز کیا جائے۔ اسی طرح دہشت گردی، بدامنی، جان لیوا مہنگائی اور دم توڑتی معیشت زندگی کا سکون ان آفتوں نے چھین لیا ہے۔ بے حد و حساب عزم طاقت اور کوششوں کو بروئے کار لاکر ان محرومیوں سے دست و گریباں ہونا اور بالآخر ان پر فتح پانا ہے۔ اگر زندگی گزارنی ہے تو ان بلاؤں سے نجات حاصل کرنا ہوگی لیکن یہ زندگی کی ہنگامی حالت ہے فطری حالت نہیں۔سماج کی فطری حالت امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا تقاضا کرتی ہے۔
تازہ ترین