• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان سے ایک اچھی خبر آئی ہے۔ محکمہٴ ڈاک نے ہمارے دور کے سب سے زیادہ شگفتہ مصنف شفیق الرحمن مرحوم کا یادگاری ٹکٹ جاری کیا ہے۔ ہم تو ان دنوں کو بھول ہی چکے تھے جب ہماری بیوروکریسی یا افسر شاہی میں کیسے کیسے باذوق حکام بالا ہوا کرتے تھے۔ وہ خود بھی لکھتے پڑھتے تھے اور پڑھے لکھے لوگوں کی قدر کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد وہ لوگ بھی اٹھ گئے اور وہ قدر بھی جاتی رہی۔ اب کسی کے جی میں نیکی آئی ہے تو بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں کی یاد میں کچھ کر گزرنے کا سلسلہ چل نکلا ہے۔
میری نو عمری کے طاق میں آج تک آراستہ شفیق الرحمن کی تصویر جس لفافے پر چسپاں ہو گی اس لفافے کے اندر خط نہیں بلکہ کرشن چندر کے بقول سُرخا سرخ، نارنجی، یاقوتی اور زعفرانی رنگ بھرے ہوں گے۔ بڑے مشکل زمانوں میں ادب کو لطف کا مقام دینے والا یہ مصنف یوں بھی یاد رکھا جاتا ہے کہ اس کی ہر کتاب کے سر ورق پر اس کی تصویر ضرور بنی ہوتی ہے اور اب ایک بار پھر اس کی شبیہ گھر گھر جائے گی ۔ جو لوگ نہیں جانتے کہ ماحول میں خوشبو بھر دینے والا وہ معالج کون تھا، اب جانیں گے کہ اس نے زندگی کے افسردہ گوشوں میں کیسی مسکراہٹیں بکھیری تھیں جنہیں دنیا کی بہترین دوا قرار دیا جاتا ہے۔ وہی دن تھے جب پژمردہ سنّاٹوں میں قہقہے گلال کی طرح اُڑا کرتے تھے۔ یہ سن پچاس کی بات ہے جب میں نے زندگی میں پہلی کتاب پڑھی تھی۔ وہ شفیق الرحمن کے افسانوں کا مجموعہ تھا جس کا نام اگرچہ حماقتیں تھا لیکن جو خزینہ لطافتوں کا تھا اس کے بعد ان کی کتابیں میرے سامنے آراستہ ہو گئیں اور آج تک ہیں۔ اس بات کو آدھی صدی سے زیادہ عرصہ گزر گیا۔ آج جب شفیق الرحمن کو پڑھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ ہماری نئی نسل کے لڑکے لڑکیاں، ہمارے آکسفورڈ، کیمبرج اور برٹش کونسل کے طالب علم، ہمارے خوشحال گھرانوں کے نوجوان جو اردو ادب کی طرف کم ہی مائل ہوتے ہیں، آج اگر پڑھنے کے لئے شفیق الرحمن ان کے حوالے کئے جائیں تو ان کا جی ویسے ہی بہلے گا جیسے باسٹھ سال پہلے ٹرین کے ایک لمبے سفر کے دوران میں سرشار ہوا تھا۔ اچھی خاصی ضخیم حماقتیں شروع سے آخر تک نہ صرف پڑھ ڈالی تھیں بلکہ ہم سفر عزیزوں کو وہ کہیں کہیں سے پڑھ کر بھی سنائی تھیں۔ (اسی برس دلّی کے ماہنامہ کھلونا میں میر ے نام سے جو پہلی تحریر شائع ہوئی تھی وہ حماقتیں ہی سے نقل کی گئی تھی۔ چوتھائی صدی بعد جب کھلونا کے مدیر ادریس دہلوی سے دوستی ہوئی اور میں نے کہا کہ اس سے یہ ضرور ثابت ہوا کہ میں نے حماقتیں آپ سے پہلے پڑھی تھی، کہنے لگے کہ جی ہاں، میں حماقتوں میں ہمیشہ دیر کردیتا ہوں)۔
جس نے پہلے نہیں پڑھا، اب پڑھے اور اگر پڑھنے کے لئے فرصت کم ہو تو حماقتیں کا پہلا افسانہ نیلی جھیل اور مزید حماقتیں کا آخری افسانہ برساتی پڑھ لے۔ مزیدفرصت کا وقت نکالنے کی راہ خود شفیق الرحمن دکھا دیں گے۔ اس کے بعد کرنیں، شگوفے، لہریں، مدو جزر، پرواز، پچھتاوے، دجلہ اور دریچے اس کے لئے آپ ہی کھل جائیں گے۔ لوگ کہا کرتے تھے کہ شفیق الرحمن انگلستان کے مزاح نگار پی جی ووڈہاؤس کی نقل کرتے ہیں۔ پھر سُنا کہ کینیڈا کے اسٹیفن لی کاک سے خیال چراتے ہیں۔ ہم نے سب کو پڑھ کر دیکھا۔ انگریزی مزاحیہ ادب سے ہماری واقفیت ضرور بڑھی لیکن یہ اطمینان بھی نصیب ہوا کہ شفیق الرحمن کسی کی نقالی نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے ترجمے کے لئے ایک انگریزی کتاب ’ ہیومن کامیڈی‘ چنی اور انسانی تماشہ کہ نام سے اس کا ترجمہ کیا۔ ہیومن کامیڈی ایسی کتاب ہے کہ اگر ولیم سرویاں نے نہ لکھی ہوتی تو شفیق الرحمن ہی اس کے مصنف ہوتے۔ خالص ان کے مزاج اور ان ہی کے ڈھب کی کتاب ہے اسی لئے نہایت عمدہ ترجمہ ہے۔
عام طور پر قصے کہانیوں کے دلوں کو گرما دینے یا دہلا دینے والے کردار یاد رکھے جاتے ہیں۔ ہمیں جہاں انارکلی یاد ہیں،دلآ رام کو بھی نہیں بھولے جن کی عیاری سے ہر ایک نالاں تھا لیکن شفیق الرحمن کو جس نے بھی پڑھا ، نہ صرف ان کے چھوٹے چھوٹے، بھولے بھالے، شریر کرداروں کو یاد رکھا بلکہ ان کرداروں نے اگر کہیں کوئی شعر پڑھ دیا تو وہ بھی یاد رہ گیا مثلاً :گیا ہے اونٹ کوئی اس طرف سے، کہے دیتی ہے شوخی نقسِ پا کی۔یا: بھوت ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو کاش کہ تم مرے لئے ہوتے۔ اسی طرح :تیرے سب خاندان پر عاشق، میرا سب خاندا ن ہے پیارے۔اس کی شادی تو کیوں نہیں کرتا ، تیری لڑکی جوان ہے پیارے۔ اور ایک اور مثال: اگرچہ عینکوں سے فرق ایسا کچھ نہیں پڑتا، معنّک لڑکیوں پر لوگ عاشق کم ہی ہوتے ہیں۔عینک کے تعلق سے لفظ معنّک اور اسی طرح پیاس کے وزن پر چائے کی طلب کے لئے لفظ چہاس بھی انہی کی اختراع ہے پھر ان کی آزاد نظمیں بھی پڑھنے والوں کو خوب خوب یاد ہیں: دھندلکا ہے شام کا۔ وقت ہے آرام کے۔ کام کا۔ انعام کا۔ اسی طرح: اٹھ مری جان سحر آ پہنچی، اٹھ کے کچھ چائے بنا۔اور آخر میں: باغ میں اس وقت شاید لڑ رہی ہیں بلّیاں۔ ان کے کرداروں کی بات ہو رہی تھی۔ شوخ، شریر، بھولے ، چالاک، اترانے اور اٹھلانے والے ان کے کردار آج بھی زندہ ہیں۔ روفی میاں ، جن کے دانت پر بجلی گری تھی اور جنہیں بعد میں شیطان کا نام ملا۔ ان کے بے چارے ماسٹر صاحب، اسی طرح روفی کے ابّا، ننھے میاں اور گھر کا سب سے سینئر نوکر رستم جو ریڈیو سننے کا اتنا عادی تھا کہ دعا بھی یوں مانگتا تھا جیسے خبریں سنائی جا رہی ہوں اور کبھی کبھی دعا کے بعد موسم کا حال بھی سنایا کرتا تھا۔ ان کا باورچی بھی تھا جو کہا کرتا تھا کہ میں اتنا بے وقوف نہیں جتنا نظر آتا ہوں۔ ان کے جو کردار بچپن سے فراغت پاچکے تھے ان میں مقصود گھوڑا، بڈی، گیدی، حکومت آپا ، شیطان (بالغ) اور سب سے بڑھ کر رضیہ جو سبز لان پر سفید لباس پہن کر بیڈمنٹن کھیلتی تھی تو شفیق الرحمن کا سب سے خوبرو کردار جو ’میں‘ کہلا تا تھا رضیہ کو مرعوب کرنے کے لئے اس شام غضب کے شاٹ کھیلتا تھا۔
میں اور میرے ہم عمر ساتھی سائیکلوں پر بیٹھ کر کراچی کے ایک پارک میں چلے جاتے تھے اور دیر تک شفیق الرحمن کے کرداروں کو یاد کیا کرتے تھے۔ افغانستان کے شاہ امان الله خاں کے تخت چھوڑنے سے لے کر بے مثال کرامات دکھانے والے تعویذ کے چوری چھپے کھول کر اس کی عبارت پڑھے جانے تک (جس میں لکھا تھا: آیا کرو ادھر بھی مری جاں کبھی کبھی) سارے ہی لطیفے ہمیں یاد تھے اور آخر میں یہ کہ ہم سارے کے سارے رضیہ پر بالکل اُسی طرح ہزار جان سے عاشق تھے جیسے تزکِ جہانگیری کی پیروڈی میں شہزادے ہر کس و ناکس پرفریفتہ ہوجایا کرتے تھے۔ شفیق الرحمن سے میں دو مرتبہ ملتے ملتے رہ گیا۔ سن ساٹھ اکسٹھ میں جب میں روزنامہ جنگ راولپنڈی سے وابستہ تھا، صدر کی ایڈورڈز روڈ پر سحاب قزلباش کے بھائی اقبال صاحب کی کتابوں کی دکان تھی جہاں ہر شام دکان کے سامنے چھڑکاؤ کر کے کرسیاں ڈال دی جاتی تھیں اور شہر کے شاعروں، ادیبوں کی محفل جما کرتی تھی ۔ وہیں کبھی کبھار شفیق الرحمن بھی آیا کرتے تھے۔ اقبال صاحب بتاتے تھے کہ وہ دکان کے اند ر جاکر خود اپنی کتابوں کو ورق گردانی کیا کرتے تھے ۔ وہاں سے فارغ ہوکر وہ باہر آتے تو کہتے کہ میری فلاں کتاب کا فلاں حصّہ کمزور ہے، وہ اگر یوں ہوتا تو بہتر ہوتا۔ میں نے بارہا اس دکان کے چکّر کاٹے لیکن کبھی ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ یہ صدی شروع ہونے سے چند برس پہلے میں ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کے لئے اسلام آباد گیا ہوا تھا جہاں میری ملاقات ابدال بیلا سے ہوئی جن کا شماراہلِ قلم باذوق فوجیوں میں ہوتا ہے۔ شفیق الرحمن کا ذکر نکلا تو پتہ چلا کہ ان کے گہرے دوست ہیں۔ کہنے لگے،چلئے آپ کی ملا قات کرادوں۔ میں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میرے ذہن میں ان کے افسانوں والی جو شخصیت محفوظ ہے اسے میں ویسے ہی محفوظ رکھنا چاہتا ہوں ۔ وہ سن دو ہزار میں چل بسے۔ یہ خبر سن کے مجھ پر جوبجلی گری وہ اس بجلی سے بالکل مختلف تھی جو روفی میاں کے دانت پر گری تھی۔ اپنی حماقت پر غصّہ بھی آیا اور رنج بھی ہوا۔ اب انتظار میں ہوں کہ پاکستان سے کوئی ایسا خط آئے جس پر شفیق الرحمن کا یادگاری ٹکٹ چسپاں ہو اور میں اس سے ’سوری‘ کہہ سکوں۔
تازہ ترین