• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیٹ لائن لندن…آصف ڈار
برطانوی حکومت نے بالآخر نہ چاہتے ہوئے بھی انڈیا کو اپنی ریڈ لسٹ میں ڈال دیا! مگر ایسا کرنے میں شاید بہت زیادہ دیر کردی گئی ہے حالانکہ برطانیہ کے کھڑ پنچ طبی ماہرین نے کئی ہفتے پہلے حکومت کو خبردار کردیا تھا کہ انڈیا میں کورونا مثبت کیسوں کی تعداد روزانہ دو لاکھ سے اوپر اور ہلاکتوں کی تعداد دو ہزار روزانہ تک پہنچ گئی ہے۔ اس لیے اسے ریڈ لسٹ میں ڈال کربرطانیہ کو انڈین کورونا وائرس سے بچایا جائے مگر چونکہ بھارت کی سفارت کاری بہت جاندار ہے خود برطانوی حکومت کے اندر انڈین نژاد حکام کا بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے اور پھر وزیراعظم بورس جانسن کو26اپریل کو بھارت کا دورہ بھی کرنا تھا، اس لیے حکومت نے بھارتی وائرس کو اس ملک میں پھیلنے کی کھلی چھوٹ دے دی۔ تاہم جب واضح طور پر انڈین وائرس کی بازگشت میڈیا میں سنائی دینے لگی تو پھر حکومت کو مزید تنقید سے بچنے کے لیے یہ قدم اٹھانا پڑا۔ تاہم جس طرح وزیر صحت میٹ ہینکوک نے بھارت کو ریڈ لسٹ میں ڈالنے کے لیے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت انڈیا کو اس لیے بہت زیادہ اہمیت دیتی ہے کہ یورپی یونین سے نکلنے کے بعد اسے بھارت جیسے بڑے ممالک کی تجارت کے لیے ضرورت ہے۔ میڈیا کے بعض حصوں میں بھی بھارت کا اس قدر اثر و رسوخ ہے کہ جب بھارت کو ریڈ لسٹ میں ڈالا گیا تو بعض تجزیہ نگاروں نے اس بات پر بھی تنقید کی کہ بھارت سے آنے والے لوگوں کو انخلا کے لیے کم مدت دی گئی ہے جبکہ پاکستانیوں کو تقریباً دس دن دیے گئے تھے۔ ان صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان میں جو وائرس پھیلا ہے وہ برطانیہ سے ہی گیا ہے اور وہاں سےکوئی وائرس برطانیہ میں نہیں آیا۔ یہ درست ہے کہ پاکستان سے آنے والے بعض لوگوں کا کورونا ٹیسٹ مثبت آتا رہا ہے۔ تاہم اس کے مقابلے میں بھارت سے آنے والے کورونا متاثرین کی تعداد بہت زیادہ ہے اور وہاں پر کورونا کے مریضوں کے لیے ہسپتالوں میں جگہ ختم ہوگئی ہے۔ہسپتالوں میں آکسیجن نہیں بچی۔ لوگ انتہائی بری حالت میں ہیں۔ کنبھ کے میلے نے جس میں کروڑوں ہندوئوں نے شرکت کی، بھارت کو کورونا ہاٹ سپاٹ بنادیا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں بھی صورت حال خراب ہورہی ہے اور حکومت کی جانب سے ایس او پیز پر عمل کرنے کے لیے مسلسل خبردار کیا جارہا ہے مگر اس کے باوجود پاکستان کی صورت حال دوسرے ممالک سے بہت بہتر ہے۔ دوسری طرف ہوٹلوں میں قرنطینہ کرنے کی پابندی کے باعث ہزاروں برٹش پاکستانی افرادپاکستان میں پھنس گئے ہیں۔ قرنطینہ کرنے والے پاکستانیوں کی جا نب سے ہوٹلوں کی ابتر صورت حال کے حوالے سے ریمارکس سامنے آنے کے بعد ان پاکستانیوں نے عافیت اس میں سمجھی ہے کہ جب تک پاکستان ریڈ لسٹ میں رہتا ہے، وہ پاکستان میں ہی رہیں گے۔ تاہم وہ لوگ جن کے میڈیکل مسائل ہیں یا ملازمتوں کا مسئلہ ہے، صرف وہی اس وقت واپس آنے کی جر أت کررہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ انہیں دس روز تک مزید برے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ قرنطینہ کرنے والے افراد اپنے پاکستانی رشتہ داروں کو یہی مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ ابھی واپس نہ آئیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بہرحال پاکستان میں کورونا کی صورت حال کو کنٹرول کرنا ہوگا۔ اس کے لیے حکومت پاکستان کو بھی اپنی سفارت کاری کو موثر بنانا ہوگا۔
تازہ ترین