• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہور کے ایک بڑے ہوٹل میں، جہاں میری غیر متبدل غربت مجھے اکثر لے جاتی ہے، میں نے اسحاق ڈار کی تقریر سنی۔ وہ اس مملکت ِ خداداد کی معاشی حالت بدلنے کی بات کر رہے تھے۔ جو اعداد و شمار وہ بیان کررہے تھے وہ میرے کانوں سے ایک محتاط فاصلہ رکھتے ہوئے گزر رہے تھے اور مجھے ان سے (الفاظ) زیادہ قربت کی توقع بھی نہیں تھی۔ اُن کا لہجہ متاثر کن تھا لیکن وہ سامعین کو متاثر کرنے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوئے۔ میں نے دس منٹ تک اُن کی خطابت سنی پھر کچھ اور چینل بدلنے لگا پھر میں نے تھوڑی دیر تک ایک دوسرے درجے کی فلم جس میں جیک نیکلسن تو اچھی اداکاری کر رہے تھے لیکن فلم جاندار نہ تھی، دیکھی لیکن واپس پھر بجٹ تقریر پر لوٹ آیا تاہم چند لمحوں کے بعد پھر چینل تبدیل کرنا شروع کر دیئے(ایک مرتبہ اسٹیفن ہاکنگ نے کہا تھا کہ چینل تبدیل کرنے سے زیادہ احمقانہ کوئی اور کام نہیں ہے)۔
ہم موقع محل کے حوالے سے اتنی ناقص فہم کیوں رکھتے ہیں ؟اس ملک میں لوڈشیڈنگ اور گرمی نے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے اور یہاں لباس کے حوالے سے رشک ِ یوسف (سابق وزیر ِ اعظم )معاشی ماہرین اور قانون ساز عمدہ کرسیوں پر نہایت سکون سے بیٹھے معاشی منصوبے بناتے رہتے ہیں تاہم ان سے اس سے زیادہ کچھ اور توقع رکھنا بھی عبث ہے۔ بہرحال بجٹ کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ یہ لوٹ مار کے مال پربحث یا کسی شکار پر بلیوں کی لپک جھپک کے سوااور کچھ نہیں ہوتا ہے لیکن اس موجودہ بجٹ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ کاروباری افراد کے لئے موزوں ہے چنانچہ موٹی بلیاں اب خواب ِ خرگوش کے مزے لیں گی۔ کاروباری طبقے کو بہت سی رعایتیں دی گئی ہیں جبکہ ان پر عائد کئے جانے والے بھاری ٹیکس محض دکھاوا ہے۔ حسب ِ معمول، اس اسلامی جمہوریہ کے اخراجات چلانے کی ذمہ داری اسی مخلوق پر عائد ہوتی ہے جسے عرف ِ عام میں عوام کہا جاتا ہے۔ ان سے کئے گئے وعدے، جن سے تحریک پاکر عوام معجزانہ تبدیلیوں کا راستہ تکنے لگتے ہیں، ہمیشہ فعل مستقبل میں رہتے ہیں اور ایسا تقسیم ِ ہند کے وقت سے ہورہا ہے(کیا کسی کو شک ہے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا؟)
میرے پسندیدہ سرمایہ کار، جو کئی ایک سیمنٹ فیکٹریوں اور کاروباری اداروں کے مالک ہیں، بھی بجٹ سے پہلے کی میٹنگز میں موجود رہے ہیں جبکہ ان میٹنگز کی سربراہی قائد ِ محترم نواز شریف صاحب کررہے تھے۔ اس دوران وہ سرمایہ کار نہایت خوش دکھائی دے رہے تھے۔ چونکہ میں علم ِ معیشت سے نا بلد ہوں، اس لئے معاشی اتار چڑھاؤ کا اندازہ سرمایہ کاروں کے چہروں کے نقوش سے ہی کرتا ہوں اور اس بات سے واقف ہوں کہ ان بڑے سرمایہ داروں کی خوشی عوام کی خوشی نہیں ہوتی ہے۔ کہا گیا ہے کہ بہت جلد تھری جی براڈ بینڈ لائسنس کی نیلامی کی جائے گی اور ہم جانتے ہیں کہ ہمارے پڑوس بھارت میں کیا ہوا؟ وہاں سامنے آنے والے سقم کے مطابق وزیر ِ موصلات مسٹر راجو نے اہم سرمایہ کاروں، جیسا کہ ٹاٹاگروپ اور Ambanis کی معاونت کی۔ بہرحال اب یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ یہاں یہ لائسنس کون حاصل کرتا ہے۔
جب نوّے کی دہائی میں قائد ِ محترم وزیر ِ اعظم بنے تو سب سے پہلے اُنہوں نے سیمنٹ کی صنعت کی نج کاری کی تھی اور ہم جانتے ہیں کہ اس کے فوراً بعد ہی سیمنٹ کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگی۔ بااعتماد دوست سب کو اچھے لگتے ہیں لیکن موٹی جیب والے دوست ہی ثمر پاتے ہیں۔ جب ڈار صاحب نے ریلوے کی بحالی کی بات کی تو مجھے نہ آنکھوں پر یقین آیا نہ کانوں پر، چنانچہ میں نے کئی مرتبہ آنکھیں ملیں (اپنی) تاکہ تسلی کر لوں کی کہیں یہ خواب تو نہیں ؟اس بے یقینی کی وجہ ہے… اب ہم بلٹ ٹرین چلانے اور کاشغر ، بلکہ اس سے بھی آگے تک ٹرین کی پٹڑی بچھانے کی باتیں کررہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم پہلے ریلوے کی زمین ، جس پر قبضہ ہو چکا ہے ، کو واگزار کرانے سے اس کی بحالی کا آغاز کیوں نہیں کر رہے؟ میرے آبائی شہر چکوال اور قریبی قصبے بدھیال سے اس نیک کام کا آغاز کیجئے اور اگر ایسا ہوتا نظر آئے تو یقین کریں پاکستانی اپنی چشم ِ تصور سے ہمالیہ کی بلندیوں کے اُس پار کاشغر سے برق رفتار گاڑیوں کو باقاعدگی سے دوڑتے ہوئے دیکھ کر ہمالیہ کے پتھروں کی طرح یقینی مان لیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب ملک میں توانائی کے بحران کی وجہ سے ہاہا کار مچی ہوئی ہے، کیا کسی نے سنا ہے کہ کوئی مالیاتی ایمرجنسی نافذ کی گئی ہو اور تمام دستیاب وسائل اس منحوس زیر ِ گردشی قرضے کو ختم کرنے کے لئے مختص کئے گئے ہوں؟
گزشتہ برس سے ہمارے ہیرو، جن میں عمران خان سب سے آگے تھے، تبدیلی کے نعروں سے میدان ِ کارزار کو گرمائے ہوئے تھے جبکہ نواز شریف ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے انقلاب کی بات کررہے تھے۔ جائے حیرت تھی کہ ایک سرمایہ دار کارل مارکس کی زبان بول رہا تھا۔ صرف یہی نہیں، میرے دوست شہباز شریف ،خادم ِ اعلیٰ، جلسوں میں لہک لہک کر حبیب جالب کی انقلابی نظمیں پڑھ رہے تھے تاہم انقلاب اگر فنگر ٹپس یعنی انگلی کے اشارے پر تھا تواور بات ہے، اس کے سوا تو کوئی انقلاب دیکھنے کو نہیں ملا۔ بہرحال چونکہ خادم ِ اعلیٰ شعر کا شغف رکھتے ہیں، اس لئے ان کی خدمت میں ایک نظم عرض کرتا ہوں:
نہ جاں دے دو ، نہ دل دے دو
بس اپنی ایک مل دے دو
زیاں جو کرچکے ہو قوم کا
بس اُس کا ایک بل دے دو
جب موڈاچھا ہو اس نظم کو بھی گنگنا لیا کریں۔ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں شعریت کی کمی ہے، ہوگی،لیکن بل دیں گے تو کمی پوری ہوجائے گی۔
بہرحال اب بجلی کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ ہونے کو ہے شاید اسی کا نام انقلاب ہے۔ درست ہے کہ معیشت کی بحالی کے لئے سخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے لیکن ان سخت فیصلوں کی زد میں موٹی گردنیں بھی تو آئیں، عوام کا تو پہلے ہی جینا دوبھر ہوچکا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب محلوں میں رہنے والے اپنے اثاثے ظاہر نہیں کرتے تو وہ دوسروں، جیسا کہ دفاعی اداروں کو سادگی کی کس طرح تلقین کر سکتے ہیں؟ اس مرتبہ پھر دفاعی بجٹ پندرہ فیصد بڑھا دیا گیا ہے، اگر آپ ظاہری اور خفیہ اخراجات کا حساب لگائیں تو آنکھیں کھل جائیں گی کہ قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے اس ملک پر دفاعی اخراجات کتنا بڑا بار ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ فوج حالت ِ جنگ میں ہے اور اس کے لئے رقم کی ضرورت ہے لیکن عوام بڑی خوشی سے اس سے بھی بڑی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں اگر وہ فوج کو رہائشی منصوبے جیسا کہ ڈیفنس سوسائٹی، چلاتے نہ دیکھیں۔
ملک کساد بازاری کا شکار ہے جبکہ امیر و غریب کے درمیان تفاوت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی معاشرہ کبھی بھی مساوات نہیں رکھتا تھا لیکن اس دور میں اشرافیہ طبقہ جتنا خوشحال ہے کسی دور میں نہ تھا اور اس پر قہریہ ہے کہ قربانی غریب عوام سے مانگی جارہی ہے۔ چنانچہ اب باتوں اور نعروں یا جالب کی شاعری کا وقت نہیں ہے، جالب کے افکار کو عمل کی ٹکسال میں ڈھالیں اور ایک بات یاد رکھیں کہ جب تک رہنما خود عوام کے ہمقدم نہیں ہوتے، انقلاب نہیں آتے۔ مصطفی کمال 15 ڈویژن کی کمان کرتے ہوئے فائرنگ لائن کے قریب تھے، چنانچہ عوام نے ان کے لئے جان ہتھیلی پر رکھ دی۔ اگر وہ کسی پرآسائش بنگلے میں قیام پذیرہوتے تو عوام کو کیا ضرورت تھی کہ وہ جان کو خطرے میں ڈالتے۔ محاذ ِ جنگ پر ہی رہنما یہ کہہ سکتا ہے، جو مصطفی کمال نے کہا”میں تمہیں لڑنے کا نہیں ، مرنے کا حکم دے رہا ہوں۔ جتنی دیر میں ہم جان دیں گے، تب تک دوسرے فوجی اور کمانڈر پہنچ جائیں گے۔“ یہ اُس کے بام کا زینہ ہے آئے جس کا جی چاہے! یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے صفحات پر کوئی منافق ہیرو نہیں ہے۔
بات یہ ہے کہ جب ہم عظمت اور گہرائیوں کی بات کرتے ہیں تو ہماری تخیل ِ پرواز کوتاہ ہے۔ ہم اپنے تخیل کو صیقل کیسے کریں؟ ہم کس سان پر خود کورکھیں جو ہماری کندشمشیر ِ کو آب دے ؟ اس الجھن میں آخری فیصلہ فیض صاحب کا ہی ہو سکتا ہے…’چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی“۔
تازہ ترین