• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محترم جنرل اشفاق پرویز کیانی آرمی چیف، سلام مسنون!
بہت عرصے سے آپ کا کوئی خط موصول نہیں ہوا کیونکہ آپ نے کبھی لکھا ہی نہیں! خود میری طرف سے بھی کوتاہی ہوتی رہی۔ مجھے آپ کو خط لکھتے رہنا چاہئے تھا، میں جانتا ہوں آپ کو اکثر قومی اور عسکری معاملات میں میری رہنمائی کی ضرورت محسوس ہوتی رہی ہو گی مگر آپ جھجھک کی وجہ سے مجھ سے رابطہ نہیں کر سکے۔ آپ کی طبیعت کے اس خاصے کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے کئی ایک بار قلم اٹھایا مگر ہر دفعہ ایسے ہوا کہ جس کا قلم تھا، اس نے دیکھ لیا، ایک بار ٹی وی پر آپ کو دیکھا تو کچھ پریشان سے نظرآئے میں نے خیریت دریافت کرنے کے لئے آپ کو فون کیا، ادھر سے کسی خاتون نے فون اٹھایا اور وہ چیخ کر بولی ”اگر آئندہ تم نے فون کیا تو میں پولیس کو اطلاع کر دوں گی“
اللہ جانے یہ رانگ نمبر والے اتنے بدتمیز کیوں ہوتے ہیں؟
”آج بہت ہمت کر کے آپ کو خط لکھ رہا ہوں۔ جب سے یہ احساس ہوا ہے کہ آپ اپنی مدت ملازمت مکمل کر کے واپس جانے والے ہیں۔ دل کو ایک عجیب بے کلی سی محسوس ہو رہی ہے کیا آپ واقعی چلے جائیں گے؟ میں نے تو سنا ہے کہ فوجی روایات کے بہت پابند ہوتے ہیں، مگر آپ مجھے روایت پسند نہیں لگ رہے۔ آپ کے پیشرو جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق، جنرل یحییٰ خاں اور جنرل پرویز مشرف وغیرہ تو ایک دوسرے کی قائم کردہ روایات کی پوری دلجمعی سے پابندی کرتے رہے۔ کچھ اور بھی کرنا چاہتے تھے لیکن قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ سنا ہے جنرل جہانگیر کرامت نے تو بہت بزدلی دکھائی۔ منتخب حکومتوں کے تھلے لگے رہے۔ وزیراعظم کے کہنے پر استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔ شیر جوان تو جنرل پرویز مشرف اور اس کا چار کا ٹولہ تھا، وزیراعظم نے برطرف کیا تو انہوں نے جواباً وزیراعظم کو نہ صرف یہ کہ برطرف کیا بلکہ اسے اور اس کے سارے خاندان کو جیل میں ڈال دیا، آج کل سنا ہے یہ جنرل صاحب خود جیل میں ہیں اور جو وزیراعظم جیل میں تھا وہ ان دنوں پھر وزیراعظم ہے!
آپ دل میں سوچ رہے ہوں گے کہ کیا یہ سب کچھ کہنے کے لئے میں آپ کو خط لکھنا چاہتا تھا دراصل غالب# کی لاج بھی تو رکھنی ہے ”خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو!“ تاہم سچی بات یہ ہے کہ میں یہ خط آپ کی تعریف میں لکھنا چاہ رہا ہوں لیکن اس دودھ میں کچھ مینگنیاں ملانا بھی تو ضروری ہیں۔ کچھ ملی ہیں لیکن کچھ اتنی جاندار نہیں ہیں۔ اب میں کھل کر آپ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ آپ نے اپنا عرصہٴ ملازمت بہت وقار سے گزارا۔ ایسا نہیں کہ آپ اندرونی اور بیرونی پالیسیوں کی تشکیل میں بالکل نیوٹرل رہے۔ آپ کا عمل دخل موجود تھا مگر زیادہ واضح نہیں تھا۔ آپ نے 2013 کے انتخابات کسی ایجنسی کو ہائی جیک نہیں کرنے دیئے عدلیہ اور سیاست دانوں کے ساتھ جنرل صاحب کا رویہ احترام کا تھا۔ انہوں نے اپنے دور ملازمت میں عدلیہ کے ایسے ایسے احکامات ”برداشت“ کئے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ وہ غالباً فوج کی مجموعی سوچ میں تبدیلی لانا چاہتے تھے اور اس ضمن میں شاید ان کی خواہش کافی آگے جانے کی تھی، لیکن ممکن ہے بڑی تبدیلیوں کا دباؤ وہ برداشت نہ کر پاتے انہوں نے غالب کا یہ شعر بھی سنا ہوا تھا #
میں نے کہا کہ بزم، ناز غیر سے چاہئے تہی
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں
جنرل کیانی سے میری دو تین ملاقاتیں ہوئیں، میں نے انہیں بہت منکسر المزاج پایا۔ ان میں کوئی اکڑ فوں نہیں تھی۔ وہ ایک دانشور جرنیل تھے، جنہیں کتابوں سے عشق تھا۔ وہ بہت اچھے سامع تھے۔ دلیل سے بات کرتے تھے اور بریفنگ کے دوران کوشش کرتے تھے کہ معاملے کے زیادہ سے زیادہ پہلوؤں کو سامنے لایا جائے۔ جنرل کیانی دہشت گردی کا سدباب نہیں کر سکے، تاہم سوات اور ملک کے بعض دوسرے حصوں میں انہوں نے اچھی کارکردگی دکھائی ۔بلوچستان میں پاکستانی عوام کو حساس اداروں کے حوالے سے بھی شکایات رہیں اور کہا جاتا رہا کہ معاملات خراب کرنے میں ان کا ہاتھ ہے۔ اب وہاں ایک صحیح سیاسی حکومت قائم ہوئی ہے۔ خدا کرے حساس ادارے اس سے مکمل تعاون کریں تاکہ پاکستان کا یہ خوبصورت حصہ دشمنوں کی نظر بد سے بچا رہے۔ مسنگ پرسنز کا معاملہ بھی موضوع گفتگو بنتا رہا۔ جنرل صاحب اس ضمن میں حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہے تاہم یہ حقیقت ہم سب کے ذہن میں رہنی چاہئے کہ امریکہ اور یورپ میں بھی بہت سے ناپسندیدہ کام بالا بالا ہی ہو جاتے ہیں۔
میرا جی نہیں چاہتا کہ میں جنرل کیانی کو الوداع کہوں کہ ان کا دور ان کے پیشروؤں کی نسبت بہرحال بہتر تھا، خدا کرے ان کی جگہ لینے والے جنرل ان سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے اور جو کام بوجوہ وہ مکمل نہیں کر سکے تھے۔ اس کے ہاتھوں یہ تکمیل کو پہنچیں۔ جنرل کیانی کے لئے میری پسندیدگی کی ایک ذاتی وجہ بھی ہے اور وہ ان کا HUMBLE BACKGROUND ہے، جو ہم میں سے بیشتر کا ہے لیکن کبھی اسے OWN نہیں کرتے۔ جنرل صاحب نہ صرف یہ کہ اسے ”اون“ کرتے رہے بلکہ انہوں نے فوج کے اس طبقے کے لئے بہت کچھ کیا بھی۔ جسے فوج میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے لیکن وہ ان مراعات سے محروم رہتے ہیں جن سے بالائی طبقہ بہرہ ور ہوتا ہے!
خوش رہیں جنرل صاحب … اور میری خواہش ہے کہ کسی نہ کسی صورت میں آپ آئندہ بھی ملک و قوم کی خدمت انجام دیتے رہیں ۔
تازہ ترین