• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کی حکومت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی مبصر اس کی اگلے ایک گھنٹے کی پالیسیوں کا احاطہ کرکے ان کا تجزیہ نہیںکر سکتا۔جس تنظیم کو ایک دن پہلے دہشت گرد قرار دیا ہو اس سے فوری طور پر مذاکرات شروع کر دیئے جاتے ہیں،جس کی وجہ سے آج پاکستانی معاشرہ شدید سیاسی انتشار کا شکار ہے اور بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔آج عمران خان کی حکومت ایسے سیاسی بحران کا شکار ہوگئی ہے جس کی پرورش میں خود تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور ان کے معاونین کا خصوصی کردار تھا۔آسمانوں سے بجلیاں برسانے والی قوتوں نے اس تنظیم کو میاں نوازشریف کی حکومت کو مسمار کرنے کے لئے منظم کیا تھا مگرعظیم فلسفی کارل مارکس کے جدلیاتی مادیت کے فلسفے کے عین مطابق سماجی تضادات نے آج تحریک انصاف کو ایک ایسے بحران میں مبتلا کردیا ہے کہ منتخب اراکین کی اکثریت تنظیم کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے سے متفق نظر نہیں آتی۔جس کا اظہار گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کے ہونے والے اجلاس میں واضح طور پر ہوا۔وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں پہلی بار کچھ حقیقتوں کا اعتراف کیا،انہوںنے یہ تسلیم کیا کہ فرانس کے سفیر کو نکالنے کا سارا نقصان پاکستان کو ہوگا مگر وہ ایک دفعہ پھر اس حقیقت کو فراموش کرگئے کہ ان کی حکومت کی بے رَو پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان عالمی دنیا میں تنہائی کا شکار ہوگیا ہے اور تنہائی بھی اس حد تک کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کا طیارہ کابل ائیرپورٹ پر اتر نہیں پاتا۔

اس سے پہلے ہم نے دیکھا ہے کہ 2017میں ایک مکتب فکر کو سیاسی طور پر منظم کیا گیا اورتاریخی طور پر پرامن رہنے والے اس مکتب فکر کو بھی پاکستانی حکمرانوںنے آخر کار اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعما ل کرنا شروع کردیا ۔ 2018 کے الیکشن میں ان کو سیاست میں لانے کا مقصد دراصل مسلم لیگ ن کے دائیں بازو کے ووٹ کو تقسیم کرنا تھا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ لاہور کی چودہ قومی اسمبلی کی نشستوں پر اس پارٹی نے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے بعد سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قرون وسطیٰ کے یورپ میں چرچ کا غلبہ تھا اور فردکی اہمیت اس کے خاندانی نسب سے منسلک تھی اور یوں یورپ کا معاشرہ چرچ بادشاہ اور جاگیرداروں کے تسلط میں تھا۔خانقاہیں اور چرچ بدعنوانیوں کے اڈے بن گئے تھے ۔بادشاہ چرچ اور امراء کے پاس نہ صرف دولت اور مالی ذرائع تھے بلکہ وہ مراعات اور اختیارات کے حامل بھی تھے۔انہیں عقائد کے بارے میں کوئی علم نہیں ہوتا تھا لیکن ان عہدوں کی وجہ سے ان کا سماجی رتبہ ضرور بڑھتا جاتا تھا جو انہیں مزید دولت جمع کرنے کے مواقع میسر کراتا تھا۔قرون وسطیٰ کے یورپ اور آج کے پاکستانی معاشرے میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے ۔ہمارے ہاں بھی جاگیر دار ،سردار،سرمایہ دار ریاستی حکمران ٹولے کے ساتھ مل کر اسی قسم کی اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہیں جس کا خمیازہ پاکستانی عوام کو پچھلے 74سال سے بھگتنا پڑ رہا ہے لیکن رینی ساں کے یورپ میں آہستہ آہستہ سماج میں فرد کی اہمیت اس کے خاندانی نسب کی بجائے تعلیم یافتہ ہونے سے طے ہونے لگی۔چھاپہ خانے کی ایجاد نے کتابیں عام لوگوں تک پہنچائیں اور یوں یونان اور روم کے قدیم مصنفین کی کتابوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا،ساتھ ہی ساتھ تحقیق کی جستجو نے فطرت کو دریافت کرنا شروع کردیا اور سائنسدانوں اور مفکرین نے کائنات کو وسیع تناظر میں دیکھنا شروع کیا جس نے یورپ کو قرون وسطیٰ کے اندھیروں اور چرچ کے غلبے سے آزاد کردیا۔آج کے پاکستانی معاشرے میں بھی رینی ساںکی ضرورت ہے تاکہ ایسا سماج ابھرے جس میں سائنسی تحقیق کا دوردورہ ہو جہاں مصوری، رقص، موسیقی اور مجسمہ سازی کے فنون سماجی ارتقا کا حصہ بنیں اور یوں نئی ثقافتی اور اخلاقی قدریں نئے زمانوں کی دریافتوں کے ساتھ پروان چڑھ سکیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ارباب اختیار کو بھی اپنی74سالہ سماجی و سیاسی تنزلی سے یہ سبق تو ضرورحاصل کرنا چاہئے کہ اب وقت آگیا ہے کہ عقائد کو سیاسی ایجنڈے کے طور پر استعمال کرنے کی روش کو ترک کیا جائے۔ یہ ملک ایسے مزید بکھیڑوں کا متحمل نہیں ہو سکتا اگر ہمارے حکمرانوں نے عقل کے ناخن نہ لئے تو خدانخواستہ مزید اس دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے جس کی ساری ذمہ داری حکمرانوں اور ریاستی اداروں پر ہوگی۔

تازہ ترین