نئے حکمراں جب ایوان اقتدار میں داخل ہوئے تو دہلیز پر بجٹ کھڑا تھا۔ اس سے معانقہ کسی صورت کوئی خوشگوار فریضہ نہیں ہوسکتا۔ خاص طور پر ایک ایسے وقت جب معیشت ٹوٹی پھوٹی ہو اور عام لوگوں کی توقعات انتخابات کی تپش سے فروزاں ہوں۔ بہرحال بجٹ پیش کیا جاچکا ہے۔ اعداد و شمار کے اس سونامی میں معاشیات کے ماہرین اور سیاسی تبصرہ نگار اس کھوج میں مصروف ہیں کہ کس نے کیا کھویا اور کس کو کیا ملا۔ وہ جو بجٹ کے اسرار و رموز سے قطعاً ناواقف ہیں، ان کو بھی اپنی بات کہنے کا موقع مل جاتا ہے جب ٹیلی وژن کا کیمرہ انہیں راہ چلتے روک لیتا ہے اور ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنی مفلسی، اپنی بے بسی اور اپنی مایوسی کا اظہار کریں۔ ویسے میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ پڑھے لکھے اور بظاہر سمجھدار لوگ بھی بجٹ کی پہیلی کو بوجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ہاں اس المیے سے آبادی کی اکثریت کا تعلق ہے کہ جب آمدنی کم ہوتو زندگی کتنی دشوار ہو جاتی ہے۔ دنیا میں رہ کر دنیا کا طلب گار نہ ہونا اور بازار سے گزرتے وقت چیزوں کے خریدنے کی خواہش نہ کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ ایک اور مشکل یہ ہے کہ ملک کی معیشت کا کسی خاندان یا فرد کی معاشی صورتحال سے کیا رشتہ قائم ہے اس کی سمجھ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی شاید ہمارا ایک بڑا مسئلہ ہے اور بجٹ بنانے کا کوئی ایسا فارمولا موجود نہیں ہے جو فرد اور معاشرے کے رشتے کو سماجی اور تہذیبی سطح پر استوار کرسکے، معاملہ گویا موج اور دریا کے تعلق کا ہے۔
اسی تعلق کو میں آج اپنا موضوع بنانا چاہتا ہوں۔ بجٹ اس گفتگو کا ایک اہم حوالہ یوں ہے کہ اس کے آئینے میں ہم اپنی معاشی ترقی اور بدحالی کے پورے منظر کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں ہمیں اپنی اجتماعی ترجیحات اور سمت متعین کرنے کی صلاحیت کے اشارے بھی مل جاتے ہیں۔ مثلاً سب جانتے ہیں کہ صحت اور تعلیم جیسے اہم شعبوں میں ہم اپنی قومی آمدنی کی کتنی فی صد رقم خرچ کرتے ہیں۔ اس کا موازنہ کسی بھی خاندان کے اپنے بجٹ سے کرکے دیکھئے اور یہ بتائیے کہ آپ اپنی ذہنی صحت کو قائم رکھنے کے لئے کیا کرتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کا تعلق اس چھوٹے سے طبقے سے ہو جسے کچھ سوچنے اور سمجھنے کی اس لئے کوئی ضرورت نہ ہوکہ اس کی اپنی آمدنی بے حساب ہو اور بجٹ بنانے والے قومی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اس کی جیب سے کچھ نہ نکال سکیں۔ یہاں جو سوال پیدا ہوتا ہے اس کا سب سے اہم پہلو وہ ہے جسے ہم سماجی انصاف کہیں۔ یہ تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ سب کو صحت کی مناسب سہولتیں حاصل ہوں اور ہر بچے کے لئے، بچیوں کو منہا کئے بغیر، لازمی ابتدائی تعلیم کا بندوبست ہو۔ یہ باتیں نہ صرف یہ کہ آئین میں لکھی جاتی ہیں بلکہ تہذیب اور انصاف کے اس تصور کی روح ہیں جو صدیوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ اگر ہم اپنی قومی زندگی اور بجٹ کو اس پیمانے سے پرکھنے کی کوشش کریں تو کیا تصویر بنے گی؟ اگر انسانی حقوق کا حصول جمہوریت کی بنیاد ہے تو ہم اس جمہوریت کی منزل سے کتنی دور ہیں جس کی آرزو لے کر ہم نے اپنے سفر کا آغاز کیا ہے؟
مسئلہ ظاہر ہے کہ صرف بجٹ کا نہیں ہے۔ مسئلہ صرف دولت کا یا مالی وسائل کا بھی نہیں ہے۔ 11مئی کے انتخابات کے لئے ”جیو“ نے جس طویل اور بے مثال ٹرانسمیشن کا اہتمام کیا تھا اس میں ایک مقام وہ آیا جب یہ واضح ہوگیا کہ اگلی مرکزی حکومت کس جماعت کی ہوگی۔ تب یہ گفتگو بھی شروع ہوئی کہ نواز شریف کی ترجیحات کیا ہوں گی یا انہیں کیا ہونا چاہئے۔ جو سلگتے ہوئے مسائل ہیں وہ تو واضح ہیں۔ بجلی کا بحران اور معاشی بدحالی، دہشت گردی اور امن و امان۔ ایک ایسا چیلنج جو بڑے سے بڑے حوصلہ مند رہنما کی بھی نیندیں اڑا دے۔ اس مرحلے پر مجھے بھی ایک چھوٹی سی بات کہنے کا موقع ملا۔ میں نے یہ کہا کہ اگرچہ نواز شریف اور شہباز شریف نے مادی نوعیت کے منصوبوں کو اپنی ترجیح بنایا ہے کہ جیسے ایئرپورٹ، موٹر وے اور میٹرو بس وغیرہ لیکن ایسے منصوبے بھی بہت ضروری ہیں جو مادی نوعیت کے نہیں ہیں۔ ان منصوبوں کا تعلق ہماری فکری، تہذیبی اور معاشرتی ترقی سے ہے۔ اس ضمن میں تعلیم کی اہمیت واضح ہے لیکن میری نظر میں یہ مسئلہ صرف خواندگی اور کالجوں یا یونیورسٹیوں سے حاصل کی جانے والی ڈگریوں کا نہیں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ فکری اور تخلیقی سطح پر کہاں کھڑا ہے۔ کتابیں کتنی لکھی اور پڑھی جاتی ہیں، لائبریریاں ہیں یا نہیں۔ اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی ہم میں کتنی صلاحیت ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ ہمارے معاشرے میں نظم و ضبط کا معیار کیا ہے۔ وہ لوگ جو دنیا کے دوسرے ملکوں کا سفر کرتے رہے ہیں وہ یہ محسوس کرسکتے ہیں کہ ان کے ماحول اور ہمارے ماحول میں کتنا فرق ہے۔ قومی آمدنی کے کم یا زیادہ ہونے کا حساب لگانا تو بہت آسان ہے۔ جسے ہم سماجی یا ثقافتی سرمایہ کہیں اس کا شمار زیادہ پیچیدہ ہے۔ اسے آپ کلچر کہہ لیں مثلاً چند ہفتے ہوئے میں اس وفد میں شامل تھا جو پلڈاٹ کی سرپرستی میں جنوبی کوریا یہ جاننے کے لئے گیا کہ ہم ایک ایسے ملک سے کیا سیکھ سکتے ہیں جو سن ساٹھ کی دہائی کے آغاز تک معاشی طور پر ہم سے پیچھے تھا پھر وہاں فوج کی مداخلت بھی طویل عرصے تک رہی۔ جمہوریت کے لئے جنوبی کوریا کی جدوجہد بھی صبر آزما تھی لیکن ایسا کیوں ہے کہ جنوبی کوریا اب دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا ہے؟ ہمارے وفد نے ایک مصروف ہفتہ مختلف اداروں اور مبصروں سے ملاقات میں گزارا۔ پوری صورتحال کا مشاہدہ کرنے کی کوشش کی اور اپنی اپنی رائے قائم کی۔ میری سمجھ میں یہ آیا کہ بنیادی فرق کلچر کا ہے۔ یہ کہ معاشرے کی بنیاد کن خیالات اور قدروں پر قائم ہے۔ یہاں کسی تفصیل میں جانے کی مہلت نہیں ہے لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ پاکستان کو مالی وسائل سے زیادہ فکری اور معاشرتی وسائل کی ضرورت ہے۔ چند بالکل بنیادی باتیں مثلاً یہ کہ سب انسان برابر ہیں، ان کی سچائی کو ہم سچے دل سے قبول نہیں کرتے۔ اب یہ دیکھئے کہ پاکستان میں ترکی کے ڈرامائی سلسلوں نے کافی مقبولیت حاصل کی ہے۔ میں، جیو کہانی، کے شاندار سیریل ”میرا سلطان“ کا ذکر نہیں کررہا کہ جو ایک تاریخی کھیل ہے۔ دوسری کہانیوں میں کیا ہم نے یہ نہیں دیکھا کہ گھریلو ملازم کس حال میں رہتے ہیں اور ان سے کیسا سلوک کیا جاتا ہے؟
اگر میں کچھ زیادہ سنجیدہ یا فلسفیانہ نوعیت کی بات کررہا ہوں تو چلیں، بجٹ کے بارے میں ایک ہلکے پھلکے انداز میں گفتگو کرلیتے ہیں۔ بجٹ کا رشتہ غم روزگار سے ہے۔ یہ وہ غم ہے جو ان شاعروں کو بھی لاحق ہے جو غم عشق میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہ تو غالب کو بھی پتہ تھا کہ ”غم عشق گر نہ ہوتا، غم روزگار ہوتا“۔ شاعر یہ بھی جانتے ہیں کہ زندگی میں نفع اور نقصان کا حساب کیسے رکھا جاتا ہے۔ فکر سود و زیاں سے انہیں نجات نہیں ملتی۔ ایک اچھی، آسودہ زندگی کا جو تصور کسی ادیب یا شاعر کے ذہن میں ہوتا ہے وہ کسی سوداگر کی سمجھ میں نہیں آسکتا۔ زندگی کو خوبصورت اور بامقصد بنانے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ان کا کوئی رشتہ سیلز ٹیکس یا درآمدی ڈیوٹی سے نہیں ہوتا لیکن ان چیزوں سے مالا مال معاشرے کئی معنوں میں زیادہ خوشحال ہوتے ہیں۔ کہنا صرف یہ ہے کہ ہمیں اس دولت کی بھی بہت ضرورت ہے جس کا حساب بجٹ میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں، ایسے ماحول یا ایسی زندگی کی تشکیل کے لئے جن اقدامات کی ضرورت ہے ان میں سے کئی کا تعلق بجٹ سے بھی ہے۔ بات گھوم پھر کر سماجی انصاف کی طرف آجاتی ہے۔ انتخابی مہم میں شاید سب سے زیادہ ذکر اس کرپشن کا ہوا جو ہماری حکمرانی کے رگوں میں زہر بن کر دوڑ رہا ہے۔ اس کرپشن کی ایک بڑی وجہ ہمارے معاشرے کی اقدار بھی ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں اخلاقی اور معاشرتی رویّے ہی تو اجتماعی کردار اور عمل کا تعین کرتے ہیں۔ تو جس طرح ہم اپنی اقتصادی صورتحال کا حساب کتاب کرتے ہیں اسی طرح ہمیں اپنی معاشرتی مفلسی کا گوشوارہ بنانے کی بھی ضرورت ہے۔