• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپریل کے آخری دنوں میں پاکستان میں جو کچھ دیکھنے میں آیا، اُس نے ایک مرتبہ پھر مُلک کی مستقبل کی پالیسیز کے حوالے سے بحث مباحثے کے دروازے کھول دیے ہیں۔اس افراتفری اور ہنگامہ آرائی نے صوبائی اور وفاقی انتظامیہ کی صلاحیتوں کے ضمن میں بھی بہت سے سنجیدہ سوالات اُٹھائے، جن کے حقائق پر مبنی جواب تلاش کیے بغیر ایک خوش حال اور جدید پاکستان کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ سے توقّع تھی کہ وہ ان حالات میں فرنٹ فُٹ پر کھیلیں گے،لیکن وہ بیک فُٹ پر رہے، بلکہ اُنہوں نے جس ناقص حکمتِ عملی کے ذریعے حالات سنبھالنے کی کوشش کی، اُس نے بدامنی کی آگ باقی مُلک میں بھی پھیلا دی۔

اس پالیسی کے نتیجے میں قوم کو ایک طویل عرصے بعد مُلک گیر شٹر ڈائون ہڑتال بھی دیکھنی پڑی۔ پولیس اور ایک مذہبی تنظیم کے درمیان تصادم میں بہت سی قیمتی جانیں ضایع ہوئیں۔خود وزیرِ اعظم، عمران خان نے قوم سے خطاب میں بتایا کہ 4 پولیس اہل کار شہید اور سیکڑوں زخمی ہوئے، جب کہ دوسری طرف سے بھی ایسے ہی اعداد وشمار سامنے آئے۔اِس صُورتِ حال پر ہر شہری رنجیدہ تھا۔چوں کہ اِس معاملے کا تعلق انتہائی حسّاس مذہبی معاملے سے تھا، اِس لیے توقّع یہی تھی کہ حکومت معاملے کی حساسیت کے پیشِ نظر بہترین حکمتِ عملی سے معاملات سنبھالے گی، مگر افسوس ایسا نہیں ہوسکا۔

پہلے اچانک قیادت گرفتار کر لی گئی، اس پر احتجاج ہوا، جو پُرتشدد ثابت ہوا، تو تنظیم پر پابندی عاید کردی گئی، مگر اِس فیصلے کے کچھ گھنٹے بعد ہی اُس سے مذاکرات بھی شروع کردیے گئے، جس میں وفاقی وزرا اور گورنر بھی شریک ہوئے۔بعدازاں ،دونوں اطراف سے بتایا گیا کہ ایک معاہدے کی صُورت معاملات حل کر لیے گئے ہیں۔ یہ حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان نومبر 2020ء کے بعد سے تیسرا معاہدہ ہے، جب کہ اِس سے قبل بھی اس تنظیم کے ساتھ معاہدے ہوتے رہے ہیں۔ان واقعات اور معاہدے کے حوالے سے مختلف آرا کا اظہار کیا گیا، تاہم ایک بات صاف ظاہر ہے کہ ہم نے ابھی تک ماضی کے تجربات سے کچھ نہیں سیکھا۔ہم بہت جلد بھول گئے کہ جو کچھ بوتے ہیں، وہ کاٹنا بھی پڑتا ہے۔

اِسی پس منظر میں یہ سوال بھی گونجتا رہا کہ آخر مُلک کی خارجہ پالیسی کون چلا رہا ہے اور کسے چلانی چاہیے؟ سفیروں کی تعیّناتی، مختلف ممالک اور اداروں سے معاہدات کون دیکھے گا؟ اور یہ کہ کیا حکومت اِس اہم ترین شعبے میں بھی کسی دبائو کا شکار ہے؟ہماری حکومتیں خارجہ پالیسی بنانے میں جس قدر آزاد ہوتی ہیں، وہ کوئی راز نہیں اور نہ ہی یہ بات کسی سے ڈھکی چُھپی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اب خارجہ پالیسی جیسے معاملات بھی سڑکوں پر طے ہوں گے؟

کس مُلک سے تعلقات رکھنے ہیں اور کسے خدا حافظ کہنا ہے؟ کس سے معاہدے کرنے ہیں؟ مُلکی مفادات کیا ہیں؟ بدلتے حالات میں دنیا کے ساتھ کیسے چلنا ہے؟ہمیں اِس نوعیت کے فیصلے سڑکوں پر موجود لٹّھ برداروں کے مطالبات کی روشنی میں کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ہمارے ہاں ان معاملات کو اکیڈمک ڈیبیٹ کا حصّہ نہیں بنایا جاتا اور خودمختار ماہرین، تجزیہ کاروں کی بھی کوئی اہمیت نہیں۔ حکومتی حلقوں میں صرف قصیدہ خوانوں ہی کو پزیرائی ملتی ہے۔ اِس لیے اگر ہمیں یہ سب کچھ دیکھنے کو ملا، تو اس پر حیرت کیسی؟ یہ وہ معاملات ہیں، جن پر ماہرین مسلسل اظہارِ خیال کرتے رہے ہیں۔یہاں تک کہ اسی تنظیم کی جانب سے اسلام آباد میں دیے گئے دھرنے پر تو سپریم کورٹ کا فیصلہ تک موجود ہے۔پھر بھی ماضی کی غلطیاں دُہرانا عجیب بات ہے۔

یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ وہ نیشنل ایکشن پلان کیا ہوا، جسے سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز نے متفّقہ طور پر منظور کیا تھا۔اُس وقت یہی کہا گیا تھا کہ اس پلان سے مُلک میں شدّت پسندی کو اعتدال میں تبدیل کیا جائے گا۔بعد میں بھی مختلف مواقع پر اس ایکشن پلان کی مثالیں دی جاتی رہیں، واہ، واہ بھی ہوئی، لیکن اس ایکشن پلان کی کام یابی پر اب کم ہی بات کی جاتی ہے۔اگر کوئی یاد دِلانے کی کوشش کرے، تو کشمیر اور افغانستان وغیرہ کا ذکر چھیڑ دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ حبُ الوطنی اور غدّاری کے سرٹیفیکیٹ تقسیم ہونے لگتے ہیں اور جب حالات نازک اور قابو سے باہر ہونے لگیں، تو سرٹیفیکیٹ تقسیم کرنے والے یہی لوگ قومی یک جہتی کے درس دینے لگتے ہیں۔کیا انہیں نہیں معلوم کہ مخالفین سے اختلاف کی بھی کچھ حدود ہیں، جنہیں شدید سیاسی مخالفت کے باوجود پار کرنا قومی وحدت کے لیے کتنا خطرناک ہوسکتا ہے، یہ اپریل کے واقعات میں سامنے آچُکا۔

گو کہ حکومت خود کو مبارک باد دے رہی ہے اور اپنی تعریفیں کر رہی ہے کہ معاملات جلد قابو میں آگئے، لیکن ہمیں اِس اَمر پر قومی اور عوامی سطح پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ مُلک میں منظّم سیاسی جماعتوں کی کتنی اہمیت ہے؟ چاہے وہ اپوزیشن ہی میں کیوں نہ ہوں۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کا حالیہ احتجاجی حالات میں کردار بہت مناسب رہا۔اُنھوں نے اپنے سیاسی فوائد کے حصول کے لیے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام نہیں کیا، حالاں کہ ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ فیض آباد دھرنے کی مثال موجود ہے۔اپوزیشن کے اسی مفاہمتی رویّے کی وجہ سے حکومت معاملات جلد قابو کرنے میں کام یاب ہوئی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ خارجہ پالیسی کی بنیاد مُلکی مفادات ہوتے ہیں۔ خارجہ حکمتِ عملی نام ہی اپنے مفادات کو آگے بڑھانے یا بیرونی معاملات میں ممکنہ نقصانات کو کم سے کم کرنے کا ہے ۔پاک فوج کے سربراہ کا حالیہ بیان کہ پہلے اپنا گھر درست کر لیں، پھر دوسروں سے توقّعات وابستہ کریں، خارجہ پالیسی کے لیے ایک اہم گائیڈ لائن ہے۔ کیوں کہ اندرونِ مُلک کے حالات براہِ راست خارجہ امور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

جو کچھ اپریل کے وسط میں ہوا، کیا اُس کی پَل پَل کی خبر دنیا تک نہیں پہنچی؟ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جب امریکا کے کیپیٹل ہلز پر ایک سیاسی گروہ کی طرف سے حملہ ہوا، تو اسے پاکستان میں بھی لائیو دیکھا گیا، بلکہ کئی ایک ماہرین نے تجزیہ کیا کہ امریکا میں جمہوریت کا جنازہ نکل گیا ہے۔ دنیا میں بھی ہمارے حوالے سے ایسے ہی تجزیے، تبصرے ہوتے ہیں۔

جب ہمارے ہاں حالات بگڑتے ہیں اور دنیا میں ہمارا تماشا بنتا ہے، تو اپنی غلطیوں پر نظر ڈالنے کی بجائے ہم اس میں دوسروں کی سازش تلاش کرنے لگتے ہیں تاکہ خود بری الذمّہ ہوجائیں۔عوام کو لوریاں دینے کے لیے ایسی ایسی تھیوریز پھیلائی جاتی ہیں کہ توبہ ہی بھلی۔وزیرِ اعظم نے اپنے خطاب میں بتایا کہ اگر فرانس کا سفیر واپس بھیج دیا جائے، تو اس کا نقصان اُسے نہیں، ہمیں ہوگا۔اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ یورپی ممالک سے، جن کی تعداد 28 ہے، تعلقات کس طرح خطرے میں پڑ جائیں گے۔

یہ بھی کہ پاکستان کی ٹیکسٹائیل برآمدات کا زیادہ حصّہ یورپ جاتا ہے، یہ انڈسٹری مُلکی معیشت کی بنیاد ہے، اگر فرانس سے تعلقات ختم کیے جائیں، تو یہ صنعت تباہ ہوجائے گی، جس سے بے روزگاری بڑھے گی اور منہگائی بھی، جس کی پہلے ہی ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ شاید وقت کی کمی کے سبب وہ یہ بات بتانا بھول گئے کہ پاکستان نے پیرس کلب سے 11 ارب ڈالرز سے زاید کا قرضہ بھی لیا ہوا ہے۔ پاکستان کو میراج لڑاکا طیارے فرانس نے دیے، جو ہماری فضائیہ کا اہم حصّہ ہیں۔اِسی طرح ہماری بحریہ کو جدید ترین اگسٹا90 - بی آب دوزیں بھی فرانس ہی نے دی ہیں۔یوں ہمارے فضائی اور بحری دفاع میں فرانس کا کیا کردار ہے، اس پر کسی فوجی ماہر سے رائے لی جاسکتی ہے۔

جون1967 ء میں تیسری عرب، اسرائیل جنگ شروع ہوئی، تو پہلے ہی گھنٹے میں اسرائیل نے مِصر، اُردن اور شام کی متحدہ فضائیہ کے جہازوں کو اُڑنے سے قبل ہی ناکارہ بنا ڈالا، جس کے بعد جنگ یک طرفہ ہوگئی۔اس چھے روزہ جنگ میں یروشلم(مقبوضہ بیت المقدس) کا وہ حصّہ بھی اردن کے ہاتھ سے نکل گیا، جو 1948 ء کے معاہدے کے تحت اُسے ملا تھا۔مِصر سے غزہ اور شرم الشیخ کا علاقہ چلا گیا۔ شام میں گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا قبضہ ہوگیا۔تاہم، پاکستان کا میڈیا پانچ روز تک یہ جنگ عربوں کو جتواتا رہا۔لوگ خوشی اور فتح یابی کے جذبات سے سرشار تھے، لیکن جب چھٹے دن پتا چلا کہ جنگ کا انجام تو بالکل اُلٹ ہوا ہے، تو یہاں کے عوام میں غم وغصّے کی لہر دوڑ گئی۔

لوگ اسرائیل، امریکا اور یورپ کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور بہت سے شہروں میں ہنگامہ آرائی، جلائو گھیرائو اور شدید توڑ پھوڑ ہوئی، جس میں نجی اور سرکاری املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ اِس جنگ کو چھیڑنے میں ہمارا کوئی کردار تھا اور نہ ہی اختتام سے کوئی تعلق۔اِس جنگ میں شامل دو ممالک، مِصر اور شام نے صرف دو برس قبل 1965ء کی پاک، بھارت جنگ میں بھارت کا ساتھ دیا تھا۔نہرو اور مِصر کے جمال ناصر کے ذاتی تعلقات تھے اور وہ غیر وابستہ کانفرنس کے بنیادی ارکان میں سے تھے، جو پاکستان کی شدید مخالف تھی۔

پاکستان میں ہونے والے مظاہروں میں ایک مطالبہ یہ بھی کیا جا رہا تھا کہ پاکستان ائیر فورس کو عرب افواج کی طرف سے لڑنے کے لیے بھیجا جائے۔ صدر جنرل ایوب خان نے بڑی بے بسی سے ہنگامہ کرنے والوں کو بتایا کہ ہم ایسا کس معاہدے کے تحت کریں؟ کسی عرب مُلک نے ایسا کرنے کی درخواست بھی نہیں کی۔پھر یہ کہ اگر ہم اپنی فضائیہ بھیجتے ہیں، تو کیا اُسے عرب ممالک کارروائی کرنے دیں گے؟ لیکن لوگ سڑکوں پر مُصر تھے کہ پاکستان کو یہ فوجی اقدام کرنا چاہیے۔ 

اِس ضمن میں بہت سے افسانے بھی مشہور ہوئے، جن میں ہماری فضائیہ کا اس جنگ میں کردار بتایا گیا۔ بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ فلسطین کے معاملے پر جتنے جلوس ہمارے مُلک میں نکالے گئے ، اسلامی دنیا تو ایک طرف رہی، خود فلسطین میں بھی اِتنے جلوس نہیں نکلے ہوں گے۔کیا کسی عرب مُلک نے اسرائیل سے تعلقات کو مذہب کا معاملہ بنایا؟ کیا وہ کسی اور سے کم مسلمان ہیں؟ یہ باتیں مسلم دنیا، خصوصاً ہمیں غور فکر کا مواد فراہم کرتی ہیں۔

جب گزشتہ ماہ پاکستان میں ہنگامے ہو رہے تھے، تو وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی متحدہ عرب امارات اور ایران کے دَورے پر تھے۔متحدہ عرب امارات سے سال بھر پہلے ہمارے تعلقات میں جذباتی باتوں کے سبب بہت تنائو آگیا تھا۔تاہم شُکر ہے، یہ معاملہ حل ہوا کہ ہمارے لاکھوں ہم وطن وہاں ملازمت کرتے ہیں، جن پر اس طرح کی باتوں کا براہِ راست اثر پڑتا ہے۔ پھر خلیج کے ممالک ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔یہ سب معاملات ہمارے خارجہ پالیسی مینجرز کی نظر میں ہونے چاہئیں۔ کسی معاملے پر اختلاف یا مختلف نقطۂ نظر رکھنا کوئی عیب نہیں، لیکن اسے زندگی، موت اور مُلکی تعلقات کی بنیاد بنا لینا ایک خطرناک بات ہے۔ 

میڈیا میں یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ یو اے ای اپنے ولی عہد کی پالیسی کے تحت پاک، بھارت تعلقات میں بہتری کے لیے سفارتی کردار ادا کر رہا ہے۔اگر ان دونوں پڑوسی ممالک میں تعلقات بہتر ہوتے ہیں، تو اس سے عرب امارات کی عالمی ساکھ مضبوط ہوگی۔مبصرین کا کہنا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کا معاہدہ ان ہی کوششوں کا نتیجہ ہے۔

بات تجارت کی بحالی تک بھی آگئی تھی، مگر ہماری حکومت نے دبائو میں آکر فیصلہ واپس لے لیا۔ یہ یو اے ای کی کام یابی ہے کہ وہ دہلی کو بات چیت پر آمادہ کرنے میں کام یاب رہا، وگرنہ کچھ عرصہ پہلے تو اس نے امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی پیش کش یہ کہتے ہوئے مسترد کردی تھی کہ یہ دو طرفہ معاملہ ہے۔شاید ہمارے یہاں حکومت عوام اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کو یہ سمجھانے میں کام یاب نہیں ہوتی کہ مُلک اور عوام کا فائدہ کس چیز میں ہے اور ایک مسئلے کو دوسرے سے کیسے الگ رکھ کر فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

متحدہ عرب امارت کی یہی کوشش ہے کہ اگر جنوبی ایشیا کے یہ دو مُلک دوست نہیں بنتے، تو کم ازکم ورکنگ ریلیشن شپ تو قائم کرلیں۔ اِس بات کی تصدیق امارات کے وزیرِ خارجہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بھی کی، لیکن اپریل جیسے واقعات کے بعد کسی مُلک کے لیے یہ ضمانت دینی مشکل ہوگی کہ پاکستان کسی گروپ کے دباؤ میں نہیں آئے گا۔ ہمیں بین الاقوامی معاہدات کی منسوخی پر اربوں ڈالرز کے جرمانے ہوچُکے ہیں۔

ریکوڈک کا معاملہ رواں ماہ دوبارہ بین الاقوامی عدالت میں آئے گا، جس نے پاکستان پر 5.7 بلین ڈالرز جرمانہ عاید کر رکھا ہے۔پاکستان کے لیے یہ ایک اچھی خبر ہے کہ یو اے ای نے اپنے دو ارب ڈالرز کے قرضے کی وصولی مؤخر کردی ہے۔نہیں معلوم ہم قرضوں کے اس چکر سے کب نکلیں گے۔کاش! ہم معیشت بہتر بنانے کے لیے بھی جذباتی ہوتے اور قرض لینے کو بھی قومی و ملّی حمیّت کے منافی سمجھتے ۔

تازہ ترین