• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ ترکی کے ایک کوسٹ گارڈ کے گھر 26 فروری 1954ء کو پیدا ہوا۔ 13 سال کی عمر میں جس نے جیب خرچ اور دیگر تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے استنبول کی گلیوں اور چوراہوں میں لیموں کا شربت اور بن فروخت کئے تھے۔ فٹ بال کے کھیل سے اس کو بے پناہ شغف تھا۔ 1969-82ء تک وہ فٹ بال کا بہترین کھلاڑی رہا اسلامیت اور قومیت کا نظریہ اس کے بدن میں خون کی طرح جوانی سے دوڑ رہا تھا۔ دورِ طالب علمی میں خداداد صلاحیتوں اور جدوجہد نے شربت فروخت کرنے والے طالب علم رجب طیب اردگان کو پہلے مقامی پھر استنبول اور بعد ازاں ترکی بھر کے طلبہ کا قائد بنا دیا تھا۔ سیکولر ترکی جہاں ایک دور میں عربی زبان میں اذان دینے پر پابندی تھی، اسلام کا نام لینا اور اس کا پرچار کرنا جہاں کبھی جرم تھا، فوجی بغاوتیں بچوں کے کھیل سے بھی آسان تر تھیں۔ جو کوئی اس کے خلاف آواز بلند کرتا پھانسی اور کال کوٹھڑی اس کا انجام ٹھہرتی۔ منصفانہ انتخاب ترکی میں ڈراؤنے خواب کی مانند تھے۔ مسجدیں ویران اور نائٹ کلب یورپ سے زیادہ بارونق تھے ایسے لا دین معاشرے میں نجم الدین اربکان نے حکمت اور جان فشانی سے جدوجہد کی ایسی جدوجہد جس کے نتیجے میں اسلام پسند ترکی کی پہچان بحال ہوگئی۔ اربکان ترک فوج اور سیکولر عناصر کے سامنے ایک اقراری مجرم تھا۔اس جرم کا اقرار وہ بار بار کرتا جیلیں اس سمیت اس کے ساتھیوں کا مقدر بنتیں، اس کی پارٹیوں پر پابندیاں لگ جاتیں اور وہ نئے ناموں اور پلیٹ فارمز سے آگے بڑھتا رہا۔ 1980ء کے مارشل لا کے بعد اردگان ،نجم الدین اربکان کی ملت اسلامی پارٹی میں شامل ہو جاتا ہے۔سلامت پارٹی پر پابندی کے بعد رفاہ پارٹی کے نام سے جدوجہد جاری رکھی جاتی ہے۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں اتحادی جماعتوں کے تعاون سے نجم الدین اربکان وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو جاتے ہیں مگر فوج زیادہ دیر انہیں اقتدار کے ایوان میں برداشت نہیں کر پاتی ۔نجم الدین کو معزول کر دیا جاتا ہے تب طیب اردگان رفاہ پارٹی سے اپنی جدوجہد نئے عزم سے شروع کرتا ہے اس جدوجہد کے نتیجے میں 1994ء میں دنیا کے چند بڑے شہروں میں شامل استنبول کی میئر شپ طیب اردگان کا مقدر بنتی ہے۔ تقاریر سے دلوں کے اندر امنگیں بیدار کرنے والے طیب کی عمل کی دنیا میں آزمائش شروع ہو جاتی ہے۔ پانی کی قلت، گندگی کے ڈھیر، بے ہنگم ٹریفک، بدبو کے بھبھوکے بکھیرنے والے شہر استنبول کی میئر شپ پھولوں کی مالا نہیں تھی مگر طیب نے خداداد صلاحیتوں کے نتیجے میں استنبول کو دنیا کا خوبصورت ترین شہر بنا دیا۔ پچاس سے زائد بڑے پُل بنا کر استنبول کی بے ہنگم ٹریفک پر قابو پا لیا۔ استنبول کے لوگوں کے شایان شان سفر کے لئے میٹرو بسیں آئیں، میٹروٹرینوں نے لوگوں کا سفر اور بھی سہل بنا دیا۔ پہلے استنبول میٹروپولیٹن دوبلین ڈالر کی مقروض تھی۔اردگان نے نہ صرف دو بلین قرض اتارا بلکہ کئی ٹریلین کے ترقیاتی کام استنبول کی گلی کوچوں اور سمندر کے کنارے بولتے نظر آنے لگے۔ ترقیاتی کام اپنی جگہ ان چار سالوں میں انہوں نے استنبول میٹرو پولیٹن کے چار بلین ڈالر کی مختلف جگہوں پر سرمایہ کاری کر کے اس کی مستقل آمدنی کا اہتمام کر دیا۔ اقوام متحدہ کی سات رکنی کمیٹی نے طیب اردگان کو دنیا کے بہترین میئر کے اعزاز سے نوازا۔ وہ1997ء میں شہر شرت میں نظم ”مسجدیں ،ہماری بیرکیں “پڑھنے کے جرم میں قابل گردن زدنی ٹھہرتے ہیں، طیب پر مقدمہ قائم ہوتا ہے دس ماہ کی سزا اور انتخابات میں شرکت سے نااہل قرار پاتے ہیں عوامی دباؤ کے پیش نظر سرکار چار ماہ بعد اردگان کو رہا کر دیتی ہے۔یہ وہ موقع تھا جب نجم الدین اربکان کی رفاہ پارٹی پر پابندی لگ جاتی ہے۔طیب ملک بھر میں احتجاجی جلسوں سے خطاب کے ذریعے قومی رہنما کے طور پر اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔ 14/اگست2001ء کو ترکی میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی بنیاد رکھتے ہیں۔ ایک سال سے کم عرصے کی جدوجہد میں دو تہائی کے قریب نشستیں حاصل کر کے جسٹس پارٹی ترکی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سنگل لارجسٹ پارٹی بن کر ایوان اقتدار میں داخل ہوتی ہے۔ طیب کے انتخابات لڑنے پر پابندی تھی۔ ان کی جماعت اقتدار میں آ کر یہ پابندی ختم کرتی ہے۔ طیب انتخابات میں 86 فیصد ووٹ لے کر ممبر اسمبلی منتخب ہوتے ہیں اور ان کی پارٹی اِن ہاؤس تبدیلی کے ذریعے پارٹی کے چیئرمین طیب اردگان کو ملک کا وزیراعظم منتخب کرتی ہے۔ جسٹس پارٹی جس وقت اقتدار سنبھالتی ہے اس وقت ترکی کی معیشت زبوں حالی کا شکار تھی۔
ترکی کے ”انوکھے حکمران“ سرکاری رہائشوں گاہوں اور پارلیمینٹ لاجز کو فروخت کر کے بہتر معیشت کی بنیادیں رکھتے ہیں اور کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ 2007ء کے انتخابات میں 34 سے 46 فیصد ووٹ حاصل کرنے کا ریکارڈ بناتے ہیں جسٹس پارٹی 2011ء کو تیسرے انتخابات میں حاصل کئے گئے ووٹوں کے ذریعے مقبولیت کی شرح 52 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔ جسٹس پارٹی نے اقتدار سنبھالا تو ترکی میں فی کس آمدنی 2311ڈالر تھی جو مئی 2013ء میں 18 ہزار ڈالر فی کس تک پہنچ چکی ہے۔طیب کا ہدف 2023ء میں جب ترک جمہوریہ کے 100 سال پورے ہونے پر فی کس آمدن 25 ہزار ڈالر کا تھا مگر ورلڈ بینک کے ماہرین پیشگوئی کرتے ہیں کہ یہ ہدف 2018ء تک آسانی سے حاصل کر کے وہ دنیا کی 10 بہترین معاشی مملکتوں میں شامل ہو جائیں گے۔ تباہ حال معیشت ،منہ زور فوج، بے لگام عدلیہ، تعلیمی اصلاحات، کُردوں کے مسئلے کا پرُامن حل اور دیگر بے شمار اقدامات سے اس کالم نویس کو اپنے دورہ ِ ترکی میں واضح نظر آیا کہ انشاء الله ترکی مستقبل میں امت مسلمہ کی قیادت کرے گا اور جسٹس پارٹی کا مستقبل بہت روشن ہے۔گیارہ سالہ دور اقتدار میں جسٹس پارٹی کی قیادت کو اندرون خانہ بڑے چیلنج درپیش رہے جن کا انہوں نے بہترین حکمت عملی سے مقابلہ کر کے بہتری کی جانب پیشرفت جاری رکھی مگر گیارہ سالوں میں پہلی مرتبہ ”حاسدین“ بظاہر ایک پارک کا ایشو کھڑا کر کے اور درحقیقت رات دس سے صبح چھ بجے تک سرعام شراب نوشی پر پابندی کے قانون سے بیزار ہو کر چند ہزار لوگوں کو ترکی کے چند شہروں میں مظاہرے اور جلاؤ گھیراؤ کے لئے نکال پائے۔
پاکستان پہنچ کر ہم حیرت میں گم ہو گئے پاکستان کے ذرائع ابلاغ مغرب سے بھی چند قدم آگے چند شہروں کے مظاہروں کو ملین مارچ اور احتجاج کے دائرے کو ترکی کے 65 شہروں تک بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے تھے۔ درست کہا ہمارے سینئر صحافی دوست جناب ادریس بختار نے کہ خبر دینے والوں کو شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ ترکی میں 65 شہر ہیں بھی یا نہیں؟ربع صدی میں یہ کالم نویس دنیا کے جن ممالک میں گیا وہاں سبز پاسپورٹ دیکھتے ہی کم پسندیدگی چہروں سے نظر آتی تھی مگر ترکی کے ایئرپورٹ پر اترتے ہی سبز پاسپورٹ دیکھ کر امیگریشن آفیسر نے مرحبا پاکستانی کہا اور کانفرنس ہال ہو یا بازار جہاں کہیں بھی کسی کو معلوم ہوتا کہ پاکستانی آئے ہیں مرحبا کہتے ،چہرے پر خوشی بکھیرتے ،دعائیں مانگتے اور جن کے پاس کیمرے ہوتے وہ پاکستانیوں کے ساتھ تصاویر کھینچوانا اعزاز سے کم نہ سمجھتے تھے ۔ترک پارلیمینٹ کی لابی میں نائب وزیراعظم بلُند آرینک(BULENT ARINCH)سے ہاتھ ملانے کے بعد راقم نے تعارف کرایا تو انہوں نے شدت جذبات سے نہ صرف سینے سے لگا لیا بلکہ زور سے کہا ”جیوے پاکستان“۔
ترکی کی حکمران جماعت کے اکثر لوگ میاں برادران کی جیت سے خاصے مطمئن ہیں حکمران قیادت نے اس بات کا دو ٹوک اظہار کیا کہ وہ ترقی یافتہ، پُرامن پاکستان دیکھنے کے آرزومند ہیں۔ ترک حکمران اپنی آرزو کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے پاکستان کی ترقی کے لئے ہر طرح کے تعاون پر آمادہ ہیں سوال یہ ہے کہ ہم کب شہنشاہانہ طرز عمل ترک کر کے کاسہٴ گداگری توڑ کر اپنے ملک کو حقیقی پاکستان بنانے پر آمادہ ہوتے ہیں؟
تازہ ترین