• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج خالصتاً ادبی کالم لکھنے لگا تو مجھے وہ ادیب یاد آگیا جو اپنا ایک مضمون چھپوانے کے لئے اخبار کے ادبی صفحے کے انچارج کے پاس گیا، مضمون دیا، انچارج موصوف نے دیکھا الٹا پلٹا کچھ کچھ پڑھا پھر مضمون نگار سے مخاطب ہو کر کہا کہ اس کے علاوہ کیا کرتے ہو؟ وہ بولا بس اسی قسم کے مضمون ہی لکھتا رہتا ہوں!! صفحے کے انچارج نے کہا وہ کہاں ہیں ؟مضمون نگار بولا، جی وہ گھر الماری میں رکھے ہوئے ہیں! اس نے مضمون واپس کرتے ہوئے کہا کہ ”جا اسے بھی جا کے الماری میں رکھ دے“۔میرے بھی اپنے کتنے ہی مضمون الماری میں پڑے ہوئے ہیں، الماری میں پڑے ادب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ چھٹی اہل قلم کانفرنس کے موقع پر اس وقت کے چیئرمین اکیڈمی آف لیٹرز پروفیسر پریشان خٹک نے محمد خان جونیجو کے اعزاز میں خطبہ استقبالیہ میں جب یہ کہا کہ انہوں نے جو تقریر وزیراعظم سیکریٹریٹ منظوری کے لئے بھجوائی تھی وہ روک لی گئی ہے اور وزیر اعظم صاحب کے عملے نے اپنی طرف سے ایک تقریر لکھ کر بھیج دی ہے کہ اسے پڑھ دو، میں وہ تقریر ضرور پڑھوں گا مگر پہلے وہ تقریر پڑھ دیتا ہوں جو روک دی گئی تھی اور اس کی ایک کاپی آفس کی الماری میں پڑی تھی، پریشان خٹک نے جب سنسر شدہ الماری میں پڑی تقریر پڑھی تو محمد خان جونیجو نے کہا کہ خٹک صاحب بس اب دوسری تقریر پڑھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ آپ نے جو کہنا تھا کہہ دیا اور یہی سچ تھا، مجھے خوشی ہے کہ آپ نے یہ شہہ پارہ میرے عملے کی باتوں میں آ کر الماری میں نہیں پڑے رہنے دیا“۔
جس طرح اردو کی دو بڑی قسموں کے بارے میں سنتے رہتے ہیں اردوئے معلیٰ اور اردوئے محلہ، اسی طرح ادب کی بھی قسمیں ہیں، ایک الماریوں میں پڑا ادب اور دوسرا بوری بند ادب، بوری ادب کی اختراع بریگیڈیئر صدیق سالک کی ہے، وہ اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ فوج میں جانے سے پہلے وہ راولپنڈی ڈویژن کے ایک کالج میں پڑھایا کرتے تھے پروفیسر ماجد صدیقی بھی ان کے کالج کولیگ تھے وہ دونوں روم میٹ بھی تھے پھر جب سالک فوج میں چلے گئے اور راولپنڈی کے ایک آفیسر میس میں مقیم تھے کہ ایک دن پروفیسر ماجد صدیقی اپنی کتابوں کی پانچ چھ بوریاں لے کر آئے اور یہ کہہ کر چلے گئے کہ ان کا تبادلہ گورنمنٹ کالج تلہ گنگ ہوگیا ہے چند ماہ بعد جب وہ چھٹی آئیں گے تو اپنی بوریاں لے جائیں گے۔ ماجد صدیقی کافی عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی واپس نہ آئے تو بریگیڈیئر صدیق سالک نے لکھا کہ پتہ نہیں اس درمیانی عرصے میں ماجد صدیقی اور کتنا بوری ادب تخلیق کرچکے ہوں گے۔بوری ادب اور الماریوں میں پڑے ادب کا تقابلی جائزہ لیں تو الماریوں میں پڑا ادب آج بھی الماریوں میں بند ہے بلکہ اب تو اس کو تخلیق کرنے والے ادیب بھی الماریوں میں بند ہوتے جا رہے ہیں لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوگا کبھی تو یہ الماریاں کھلیں گی، کوئی تو انہیں کھولے گا۔ چونکہ ہم تبدیلی کے دور سے گزر رہے ہیں اس لئے گزشتہ دنوں لاہور کے مرد درویش ملک مقبول احمد نے چند الماریاں کھول کر ایک کتاب مرتب کی ہے جس کا نام ہے ”پچاس نامور ادبی شخصیات، اس کتاب میں بڑی بڑی نابغہٴ روز گار شخصیات شامل ہیں، ملک صاحب کی درویشی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اس کتاب میں کچھ ایسے قلمکار بھی شامل کئے ہیں جن کا اس دنیا میں کوئی یاد کرنے والا بھی نہیں تھا۔ قائد اعظم، انسائیکلو پیڈیا، بڑے سائز کی دو جلدوں پر مشتمل یہ کتاب بھی چند روز پہلے ملک مقبول احمد صاحب کی تدوین میں چھپی ہے اس میں قائد اعظم سے متعلق چھپنے والی ہر شے سے استفادہ کیا گیا ہے، بہت سی غیر مطبوعہ چیزیں بھی شامل ہیں۔ کچھ ایسے لوگوں کے حوالے بھی اس کتاب میں شامل ہیں جن کے پاس کچھ یادیں اور تاریخی اشیاء تو محفوظ تھیں مگر میڈیا تک رسائی نہ تھی یعنی الماری میں پڑے لوگ تھے جنہیں ملک مقبول احمد نے قائد اعظم انسائیکلو پیڈیا میں شامل کرکے نمایاں کردیا ہے۔ ملک صاحب مجھے اس لئے بھی اچھے لگتے ہیں کہ وہ بڑی باقاعدگی سے مجھے کتابیں بھیجتے رہتے ہیں انہوں نے پاکستان میں بہت سے گھروں میں لائبریریاں قائم کرا دی ہیں مجھے گزشتہ دنوں بتا رہے تھے کہ اب وہ پاکستان کی سرکاری جیلوں میں لائبریریاں قائم کروا کر ہر موضوع کی کتابیں عطیہ کرنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر انعام الحق جاوید کو اہل پاکستان شگفتہ گو شاعر کے طور پر جانتے ہیں مگر وہ ایک استاد کے طور پر ملک کا معتبر حوالہ ہیں، وہ جب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں شعبہ پاکستانی زبانوں کے چیئرمین تھے تو بھی اور اب جب الخیر کے پرو وائس چانسلر ہیں تو بھی مجھے نت نئی اور تاریخی کتابیں بجھواتے رہتے ہیں۔ وہ میری اس کمزوری سے بخوبی آگاہ ہیں اور انہیں یہ بھی علم ہے کہ میں شہر میں ہونے والی ادبی تقریبات اور مشاعروں میں اکثر نہیں جاتا اسی لئے جب وہ کسی تقریب کے لئے بلا بھیجتے ہیں تو دعوت نامے کے کونے پر اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں کہ ایک نئی کتاب بھی دوں گا۔
ڈاکٹر انعام الحق جاوید صاحب کا کمال یہ ہے کہ وہ مجھے کسی بھی کتاب کے دس سے پندرہ نسخے بھیجتے ہیں تاکہ میں اپنے دیگر ان دوستوں کو بھیج دوں جن کے گھروں میں لائبریریاں قائم ہیں جبکہ عطاء الحق قاسمی صاحب کے لئے پچیس کتابوں کا کوٹہ مقرر ہے وہ بھی ملنے کے لئے آنے والے کو کتاب دے کر بھیجتے ہیں، ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے گزشتہ دنوں تین جلدوں پر مشتمل ایک کتاب تاریخ اسلام بھجوائی ہے جسے غلام قادر فصیح جن کے نام پر لاہور میں ایک روڈ بھی ہے نے تالیف کیا ہے اس کا پہلا ایڈیشن 1927 ء میں چھپا تھا، اس کتاب کے فلیپ پر علامہ اقبال نے لکھا تھا کہ ”خدا کرے کوئی مسلمان گھر اس رسالے سے خالی نہ رہے“۔علامہ اقبال اگر آج ہم میں موجود ہوتے تو ”تاریخ سولہن راجپوت، گوت پنوار“ کے بارے میں بھی اس قسم کا تبصرہ فرماتے جسے راولپنڈی کے عبداللہ عباس سولہن نے سات سال کی محنت اور تحقیق کے بعد مرتب کیا ہے۔ عبداللہ عباس سولہن بھی الماری میں پڑا ایک ایسا قلمکار ہے جنہوں نے آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک دنیا بھر کے قبائل مذاہب زبانیں بود و باش، ہجرت قیام شجرے کون کہاں سے آیا کہاں تدفین ہوا پر سیر حاصل معلومات دی ہیں بڑے سائز میں یہ ایک ضخیم کتاب ہے ۔ توقیر مصطفی لاہور میں ہوتے ہیں، فارمیسی کی دنیا سے تعلق ہے لیکن ”پنجاب لوک سجاگ“ کے پلیٹ فارم سے پاکستان کی اتنی خدمت کرگئے ہیں جس کا اندازہ انہیں خود بھی نہیں ہے، الیکشن2013ء سے دو دن پہلے انہوں نے کتابوں کا ایک سیٹ بھجوایا تھا جس میں پاکستان کے ہر ڈسٹرکٹ کے لئے الگ کتاب ہے 110 ضلعوں پر مشتمل یہ تاریخ مکمل پاکستان ہے حیرت ہے صدارتی ایوارڈ دینے والی کمیٹیوں کی نظریں الماریوں میں پڑے ایسے اشخاص تک کیوں نہیں پہنچتیں۔
تازہ ترین