• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خلیل الرحمٰن ربّانی

عشرہ ٔرحمت ومغفرت کے بعد اب جہنّم سے خلاصی کا عشرہ شروع ہونے کو ہے۔ یوں تو رمضان المبارک کا ہر لمحہ اور ہر ساعت ڈھیروں رحمتیں سمیٹے ہوئے ہے۔ ہر دن اور ہر شب کی عبادت کا اپنا اپنا ثواب ہے، مگر آخری عشرہ سب سے زیادہ فضیلت کا حامل ہے۔ پہلا اور دوسرا عشرہ اگر رحمت ومغفرت کا باعث ہے، تو آخری عشرہ بندگانِ خدا کے لیے جہنّم سے خلاصی کی نوید ہے۔ دراصل، آخری عشرہ اللہ تعالیٰ کی اُن عنایات کا تسلسل ہے، جو پہلے روزے سے مسلمانوں کے لیے مخصوص تھیں اور اِس عشرے میں باری تعالیٰ کی بے پناہ رحمتوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔

پہلے اللہ تعالی کی رحمت جوش مار رہی تھی، پھر انسانوں کو مغفرت کے پروانے تھمائے جارہے تھے، اب آخری عشرے میں بندوں کو دوزخ کی آگ سے بچانے کے لیے خصوصی طور پر ایک موقع دیا جارہا ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت ، دوسرا مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنّم سے آزادی کا ہے۔‘‘ (صحیح ابنِ خزیمہ)۔اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیّبہ کا مطالعہ کیا جائے، تو معلوم ہوگا کہ آپ علیہ السّلام ماہِ رمضان میں معمول سے بڑھ کر عبادات کا اہتمام فرماتے اور اس کے آخری عشرے میں تو حددرجہ انہماک سے ربّ تعالیٰ کی بندگی میں مصروف ہوجایا کرتے تھے۔

اُمّ المومنین، سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اِتنا مجاہدہ کیا کرتے ، جتنا دیگر ایّام میں نہیں کیا کرتے تھے۔‘‘اِسی طرح ایک اور حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے مروی ہے کہ جب ماہِ رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر بیدار رہتے اور اپنی کمر کَس لیتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے۔‘‘ (صحیح مسلم وبخاری) ویسے تو ماہِ صیام کے آخری عشرے میں کی جانے والی تمام عبادات باعثِ فضیلت ہیں، مگر بعض اعمال ایسے ہیں، جو اِسی عشرے کے ساتھ خاص ہیں اور جن کے بہت فضائل بھی بیان ہوئے ہیں۔

٭…اعتکاف:

لغت میں اعتکاف ٹھہر جانے اور اپنے آپ کو روک لینے کے معنی میں آتا ہے، جب کہ شرعی اصطلاح میں اللہ کی عبادت واطاعت کے لیے کچھ خاص دنوں کے لیے مسجد میں ٹھہرنے کو اعتکاف کہتے ہیں۔ اعتکاف فضائل سے بَھرا ایک مبارک عمل ہے، جس کی فضیلت واہمیت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اس کی پابندی فرمائی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی خوش نُودی کے لیے ایک دن کا اعتکاف کرے گا، اللہ تعالیٰ اُس کے اور جہنّم کے درمیان تین خندقوں کو آڑ بنادیں گے، جن کی مسافت آسمان وزمین کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ ہوگی‘‘ (کنزالعمال) ۔

اِسی طرح ایک دوسری روایت میں ہے کہ جو شخص رمضان میں دس روز کا اعتکاف کرے، تو اُس کا یہ عمل دو حج اور دو عُمروں جیسا ہوگا (کنز العمال) ۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان میں دس دن اعتکاف فرماتے تھے، مگر جس سال آپ علیہ السّلام کا وصال ہوا، اُس سال بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔(صحیح بخاری) حضرت ابنِ عُمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے آخری دس دنوں کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری)۔اعتکاف کی فضیلت واہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ انسان اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوکر ربّ تعالیٰ کے سامنے سربسجود ہوجاتا ہے اور اپنا سب کچھ اپنے خالق کے سُپرد کرتے ہوئے اپنے آپ کو اُسی کے حوالے کردیتا ہے۔ 

اِس سے جہاں عبادت کا لُطف آتا ہے، وہیں اللہ تعالیٰ کی خوش نُودی بھی حاصل ہوتی ہے۔ چناں چہ، جو مسلمان اس کی استطاعت رکھتے ہیں، وہ ضرور اس عبادت کا اہتمام کریں، جب کہ خواتین بھی گھروں میں اعتکاف کرکے بہترین اجر کماسکتی ہیں۔ اعتکاف ایک عاشقانہ عبادت کا مظہر ہے۔ ایک عاشق دس دن تک اپنے محبوب کی چوکھٹ پر سَر رکھ کر اُس کی رضا و خوش نُودی کے حصول کے لیے آہ وزاری کرتا ہے اور بالآخر محبوب اپنی رضا اور خوش نُودی کا پروانہ عطا فرما دیتا ہے۔

٭… سعادت بھری طاق راتیں:

رمضان المبارک کی ہر رات میں اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور کتنے ہی گناہ گاروں کو بخش دیا جاتا ہے۔ اِس موسمِ بہار کے آخری ایّام میں اللہ تعالیٰ خصوصی عنایات فرماتے ہیں اور اس کی راتوں کی عبادات کا اجر اور بھی بڑھا دیتے ہیں۔ رمضان المبارک کی آخری راتوں میں عبادت کے بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں۔ ان راتوں میں ایک رات ایسی ہے، جس کی عبادت ہزار سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ یہ ’’لیلۃُ القدر‘‘ ہے۔ 

اس کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی نام سے ایک سورت نازل فرمائی۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا’’ جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیّت سے عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے، اُس کے پچھلے سارے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ (بخاری شریف) ۔

٭…آخری عشرہ اورکچھ اہم امور:

اعتکاف اور طاق راتوں کی عبادت تو اس عشرے کا حُسن ہے، مگر اس کے علاوہ دیگر عبادت وامور ایسے بھی ہیں، جن کے اہتمام سے برکتیں سمیٹی جاسکتی ہیں۔ ان ایّام میں نوافل اوردیگر عبادات کے ساتھ جہنّم سے خلاصی طلب کرنی چاہیے اور بار بار ربّ تعالیٰ کے سامنے گڑگڑا کر دعائیں مانگنی چاہئیں۔اگر کوئی بے نوا اِس ماہ بھی معاصی سے باز نہ آئے، رحمتوں کی یہ فصلِ بہار اُس کے دامن میں اُجالا نہ کرسکے، تو ایسے شخص کی بدبختی اور شقاوت پر افسوس ہے۔

٭… کہیں زندگی کا آخری عشرہ نہ ہو!

ہمارے ہاں رمضان المبارک کے پہلے دو عشروں میں کافی حد تک یک سُو ہوکر عبادت کی جاتی ہے، لیکن آخری عشرے میں گھروں کی صفائی ستھرائی اور غیر ضروری خریداری میں وقت ضائع کردیا جاتا ہے۔یاد رکھیے! رمضان کا ہر پَل قیمتی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ہم اس مہمانِ ربّانی سے محروم ہورہے ہیں۔ رمضان میں بازاروں میں پِھرنا اور عید کی خریداری وتیاری کے نام پر گھنٹوں دُکانوں پر رش لگائے رہنا، نہ صرف عام دنوں میں منع ہے، بلکہ رمضان کے بابرکت مہینے میں تو اس سے بہت زیادہ احتراز کی ضرورت ہے۔

لہٰذا، ان قیمتی لمحات کو صفائی ستھرائی اور شاپنگ وغیرہ کی نذر مت کریں، بلکہ آخری عشرے کو اپنی زندگی کے آخری رمضان کا آخری عشرہ سمجھ کر خُوب توجّہ سے عبادات کریں۔ اہلِ دل اِس ماہ کے ایک ایک لمحے کی قدر کرتے ہیں۔ کیا معلوم لذّتوں کو دبوچنے والی موت ہمیں بھی دبوچ لے اور ہم اِس رمضان کے بعد اگلا رمضان نہ دیکھ سکیں۔ اِس لیے ضروری ہے کہ رمضان المبارک کی اِن آخری ساعات کو قیمتی بنایا جائے اور حتی الامکان کوشش ہو کہ کوئی بھی لمحہ اطاعتِ الٰہی کے بغیر نہ گزرے۔

تازہ ترین