• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرت ابراہیم بن ادھمؒ ایک نام ور صوفی بزرگ گزرے ہیں۔ اُن ہی سے متعلق یہ واقعہ مشہور ہے کہ اُنھوں نے ایک رات خواب دیکھا کہ جیسے کمرا چاند کی روشنی سے بَھر گیا ہے اور ایک فرشتہ سنہری کتاب میں سنہرے قلم سے کچھ لکھ رہا ہے۔اُنھوں نے فرشتے سے پوچھا’’ تم کیا لکھ رہے ہو؟‘‘فرشتے نے جواب دیا’’ مَیں اُن لوگوں کے نام لکھ رہا ہوں، جو اللہ سے پیار کرتے ہیں۔‘‘ اِس پر اُنھوں نے تجسّس سے کہا’’ ذرا دیکھنا تو سہی، کیا اِن لوگوں میں میرا نام بھی شامل ہے؟‘‘ فرشتے نے کتاب میں دیکھا اور جواب دیا’’نہیں، آپ کا نام نہیں ہے۔‘‘ یہ سُن کر اُنھیں افسوس ہوا۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بولے’’ اچھا ایسا کریں، میرا نام اُن لوگوں کی فہرست میں لکھ لیں، جو اللہ کی مخلوق سے پیار کرتے ہیں۔‘‘

فرشتے نے ایک اور کتاب کھولی اور اُس میں اُن کا نام لکھ کر غائب ہو گیا۔ ابراہیم بن ادھمؒ نے اگلی رات پھر ویسا ہی خواب دیکھا۔اِس بار فرشتے کے ہاتھ میں پہلی کتاب سے بھی زیادہ خُوب صُورت کتاب تھی۔ اُنھوں نے حیرت سے پوچھا’’ یہ کیسی کتاب ہے؟‘‘ فرشتے نے جواب دیا ’’اِس میں اُن لوگوں کے نام درج ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ محبّت کرتے ہیں اور تمھارا نام سب سے اوپر لکھا ہوا ہے۔‘‘ ہمارے آس پاس کی دنیا میں کوئی ایسا غریب ہے کہ دو وقت کی روٹی کو ترستا ہے اور دوسری طرف ایسے افراد کی بھی کمی نہیں، جنھیں دنیا جہان کی نعمتیں حاصل ہیں۔یہ امیری، غریبی اور معاشی ناہم واری جہاں بہت سے مسائل و مصائب کا سبب ہے، وہیں بہت سے لوگوں کے لیے دنیا و آخرت کی کام رانیوں کا ذریعہ بھی ہے۔ 

مالی طور پر کم زور افراد کی ضروری خوارک، بنیادی و اعلیٰ تعلیم، بچّوں کی شادی بیاہ اور علاج معالجے وغیرہ کی سہولتوں تک رسائی ہر گزرتے دن کے ساتھ ناممکن ہوتی جا رہی ہے، جس سے جہاں ایک طرف آبادی کا ایک بڑا طبقہ نان ونفقے کی دوڑ تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، وہیں یہ معاشی ناہم واری بہت سے سماجی اور معاشرتی جرائم کا بھی باعث ہے۔اِس طبقے کی ضروریات پوری کرنا ریاست کی ذمّے داری تصوّر کی جاتی ہے اور مہذّب دنیا کی ریاستیں اپنے اِن شہریوں کا خیال بھی رکھتی ہیں تاکہ وہ محض غریب ہونے کی وجہ سے کسی سے پیچھے نہ رہ پائیں۔ 

تاہم، ہمارے ہاں اب بھی ریاست اپنے غریب شہریوں کا سہارا بننے کو تیار نہیں، گو کہ نعروں اور دعووں کی بہتات ہے اور سلوگن بھی ایسے کہ لوگ اَش اَش کر اُٹھیں، مگر عملاً غریبوں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں، بلکہ کچھ عرصے سے جاری پالیسیز نے تو متوسّط شہریوں کو بھی غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا ہے۔ ایسے میں صاحبِ ثروت افراد کو آگے بڑھ کر اپنے غریب بھائیوں کا سہارا بننے کی ضرورت ہے، جو اُن کے لیے دنیا و آخرت میں باعثِ اجر وثواب بھی ہے۔ اِس ضمن میں نبی کریمﷺْ کا یہ ارشادِ گرامی پیشِ نظر رہے کہ’’ بہترین انسان وہ ہے، جو دوسرے انسانوں کو زیادہ نفع پہنچانے والا ہو۔ مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کے نزدیک سب سے بڑھ کر محبوب وہ ہے ، جو اُس کے کنبے کے لیے سب سے بڑھ کر نفع بخش ہو ۔ ‘‘ 

خوشی کی بات یہ ہے کہ تمام تر خرابیوں کے باوجود ہر مشکل وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہمارے ہاں اب بھی ضمیر زندہ ہیں۔پاکستان میں ہر برس زکوٰۃ کی مَد میں اربوں روپے نکالے جاتے ہیں، تو سال بھر صدقات و خیرات کی صُورت خرچ کی جانے والی رقم بھی اربوں میں ہے۔ مخیّر افراد کی اِس سعی اور مذہبی فریضے کی ادائی کے سبب لاکھوں شہری اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ مُلک کے طول وعرض میں سیکڑوں ادارے اِن مخیّر افراد کی معاونت سے انتہائی منظّم طور پر دن رات انسانیت کی خدمت کے لیے کوشاں ہیں۔ اُن میں سے چند اداروں کی خدمات کا ایک مختصر جائزہ قارئین کی نذر ہے۔

ایدھی فاؤنڈیشن

اِس ادارے کو پاکستان کے عوامی فلاح وبہبود کے قدیم ترین ادارے کی حیثیت حاصل ہے۔ عبدالستّار ایدھی(مرحوم) نے کم پڑھے لکھے ہونے اور درویشانہ مزاج کے باوجود اپنے اخلاص اور جہدِ مسلسل سے اس ادارے کو دنیا بَھر میں پاکستان کی ایک روشن شناخت بنادیا۔گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ نے 2000ء میں ایدھی ایمبولینس سروس کو دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس قرار دیا۔یہ سروس اِس وقت بھی دو ہزار کے قریب ایمبولینسز کے ساتھ خدمات سَرانجام دے رہی ہیں۔ عبدالستار ایدھی زندگی بھر لاوارث میّتوں کو غسل وکفن دیتے رہے۔ 

ایک اندازے کے مطابق اُنھوں نے 70 ہزار سے زاید مُردوں کو غسل دیا۔اِس ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ ایسے گلی سڑی لاشوں کو بھی غسل دیتے، لوگ جن کے قریب جانے کو بھی تیار نہ ہوتے۔اِس فاؤنڈیشن کے تحت متعدد ایدھی ہومز کام کر رہے ہیں، جو کراچی، ملتان، لاہور، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ اور چترال میں ہیں۔ان میں یتیم بچّوں کے ساتھ بے سہارا مرد وخواتین بھی زندگی کے دن گزار رہے ہیں، مگر وہ اس پر خوش ہیں کہ کم ازکم ایدھی نے اُنھیں سر چُھپانے کو جگہ تو فراہم کردی۔لاوارث بچّوں کے حوالے سے بھی ایدھی کا ایک منظّم شعبہ ہے، جس کے تحت ہزاروں بچّے گود دیے جا چُکے ہیں۔

ایس آئی یو ٹی، گردوں کی ایک بڑی علاج گاہ

’’ Sindh Institute Of Urology And Transplantation‘‘ یعنی ’’SIUT‘‘ ایک طویل سفر طے کرکے آج پاکستان بھر میں گُردوں کے علاج معالجے کے ایک بڑے مرکز کا رُوپ دھار چُکا ہے، جہاں امیر، غریب کی تفریق کے بغیر بلامعاوضہ انسانیت کی خدمت کی جا رہی ہے۔1971ء میں کراچی کے سِول اسپتال میں یورولوجی ڈیپارٹمنٹ نے کام شروع کیا، جو برنس وارڈ میں قائم تھا۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی زیرِ قیادت ایک متحرّک ٹیم نے اِس قدر جاں فشانی سے کام کیا کہ 1991ء میں سندھ اسمبلی نے ایک ایکٹ کے ذریعے اِس’’ گُردہ وارڈ‘‘ کو انسٹی ٹیوٹ کا درجہ دے دیا۔ 2005ء میں عوام کو علاج معالجے کی معیاری سہولتوں کی فراہمی کے لیے ایس آئی یو ٹی کو چئیرٹیبل ٹرسٹ میں تبدیل کردیا گیا۔ جب لوگوں نے یوں عوام کی خدمت ہوتے دیکھی، تو مخیّر افراد بھی آگے بڑھے۔

پہلے مرحلے میں دیوان فاروق میڈیکل کمپلیکس کے نام سے 300 بیڈز پر مشتمل ایک چھے منزلہ عمارت تعمیر کی گئی اور پھر گُردوں کے کینسر کے علاج کے لیے حنیفہ سلیمان داؤد اونکولوجی سینٹر قائم کیا گیا۔ اِس انسٹی ٹیوٹ میں گُردوں سے متعلق تمام امراض کا مفت علاج کیا جاتا ہے، جن میں عام معاینے کے ساتھ پیچیدہ امراض تک شامل ہیں۔ جب گزشتہ برس مُلک میں کورونا وبا نے اپنے خونی پنجے گاڑے، تو ایس آئی یو ٹی کی ٹیم نے اپنے سربراہ، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی قیادت میں رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے چوبیس گھنٹے کورونا ہیلپ لائن اور کورونا کلینک کا آغاز کردیا۔ کورونا کی تشخیص کے لیے لیبارٹری ٹیسٹ، آئسولیشن وارڈ، ایچ ڈی یو اور آئی سی یو کی سہولتوں کا بھی اضافہ کیا گیا۔ 

چوں کہ ایس آئی یو ٹی میں ڈائی لیسز، ٹرانسپلانٹ اور کینسر کے ہزاروں مریض ہیں، جن کی قوّتِ مدافعت کم زور ہونے کے باعث اُن کا کورونا سے متاثر ہونے کا خدشہ رہتا ہے، لہٰذا اُن کے لیے خصوصی کورونا ڈائی لیسز یونٹس بنانے کے ساتھ ٹرانسپلانٹ اور کینسر کے مریضوں کے لیے بروقت ادویہ کی فراہمی بھی ممکن بنائی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ دیگر اسپتالوں کے کم زور قوّتِ مدافعت اور متعلقہ مریضوں نے بھی بہترین علاج کے لیے ایس آئی یو ٹی کا رُخ کیا۔اُس کٹھن وقت میں حکومت نے ٹیسٹنگ کٹس، پی پی ای اور وینٹی لیٹرز کی فراہمی میں تعاون کیا، تو مخیّر افراد بھی پیچھے نہ رہے۔ اس کے فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز پوری محنت و لگن سے کورونا کے مریضوں کی دیکھ بھال کے فرائض سَرانجام دیتے رہے، جس کے دَوران چار ہیلتھ ورکرز جان کی بازی تک ہار گئے۔

اہم بات یہ بھی ہے کہ اس تمام عرصے میں ایس آئی یو ٹی کے مریضوں کی تمام سہولتیں بدستور جاری رہیں، بلکہ دیگر اداروں سے بھی مریضوں کو ایس آئی یو ٹی کی طرف ریفر کیا جا تارہا۔ اگر اعداد وشمار کی بنیاد پر اس ادارے کی کارکردگی کا جائزہ لیں، تو اس وقت ایس آئی یو ٹی میں 72 مختلف شعبے کام کر رہے ہیں، جن سے صرف گزشتہ برس26 لاکھ سے زاید مریضوں نے فائدہ اُٹھایا۔3 لاکھ، 68 ہزار، 253 او پی ڈی رہی۔65 ہزار، 23 کو داخل کیا گیا۔3 لاکھ، 93 ہزار،920 مریضوں کو ڈائی لیسز کی سہولت فراہم کی گئی۔ایک لاکھ، 41 ہزار، 211 افراد کو ایمرجینسی میں لایا گیا۔5 لاکھ، 45 ہزار، 95 مریضوں کے ریڈیالوجی ٹیسٹ ہوئے، جب کہ ایک لاکھ، 5 ہزار، 609 مختلف اقسام کے آپریشنز بھی کیے گئے۔

ان دنوں ڈاکٹر ادیب الحسن کی قیادت میں ایس آئی یو ٹی کے 12 مراکز کام کر رہے ہیں۔ نیز، اس ادارے کے تحت کراچی میں چلڈرن اینڈ کارڈیک اسپتال اور سکھر میں ایک بڑا اسپتال زیرِ تعمیر ہے۔علاوہ ازیں، مزید ڈائی لیسز سینٹرز، کینسر کا ایک بڑا اسپتال اور کاٹھور میں بھی کچھ منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔تین ہزار سے زاید افراد پر مشتمل تربیت یافتہ عملہ ہفتے کے ساتوں دن چوبیس گھنٹے خدمات سَر انجام دے رہا ہے۔ ان پراجیکٹس کے لیے جہاں حکومت کا تعاون حاصل ہے، وہیں مخیّر افراد سے بھی دِل کھول کر تعاون کی توقّع کی جارہی ہے۔

عالم گیر ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل

یہ ادارہ گزشتہ 26 برسوں سے انسانیت کی خدمت میں پیش پیش ہے۔ صحت، تعلیم، روزگار کی فراہمی، غریب بچّیوں کی شادیوں اور راشن کی تقسیم سمیت کئی شعبوں میں ممتاز مقام کا حامل ہے۔ ادارے کے ڈائریکٹر تعلقاتِ عامّہ، شکیل دہلوی نے بتایا’’ ہمارا شعبۂ صحت بہت فعال ہے۔ بہادر آباد، تیئسر ٹاؤن اور حب ریور روڈ پر ہمارے طبّی مراکز قائم ہیں، جہاں یومیہ500 افراد علاج معالجے کے لیے رجوع کرتے ہیں۔

ماہر ڈاکٹرز اُنھیں ہر ممکن سہولت فراہم کرتے ہیں، تاہم اگر کسی شخص کو کسی اور اسپتال بھیجا جانا ضروری ہو، تو ہم اُسے وہاں بھجوا دیتے ہیں اور اُس کے علاج کا مکمل خرچ خود اُٹھاتے ہیں، اِس مقصد کے لیے کراچی کے 25 سے زاید اسپتال ہمارے پینل پر ہیں۔ گزشتہ برس مریضوں کو17 کروڑ روپے سے زاید کی ادویہ دی گئیں۔ ایک جدید ڈائیگنوسٹکس سینٹر بھی قائم کیا ہے، جس میں ٹیسٹس کی معیاری سہولت موجود ہے۔ گزشتہ برس یہاں27 ہزار ٹیسٹس کیے گئے۔ ڈائی لیسز مرکز میں 5647 مریضوں کو دو شفٹس میں خدمات فراہم کی گئیں۔ یاد رہے، ایک مریض پر 7520 روپے خرچ ہوتے ہیں۔ 1492 مختلف نوعیت کی سرجریز ہوئیں۔ 

یوں طبّی سہولتوں کی فراہمی پر مجموعی طور پر 41 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ عالم گیر انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں20 سے زاید شعبوں میں نوجوانوں کو فنی تربیت دی جا رہی ہے، جب کہ گزشتہ برس کورس کی فراہمی، اسکول فیسز، اسکالر شپس اور دیگر مَدات میں 18 ہزار طلبہ کو معاونت فراہم کی گئی۔ خواتین کے لیے الگ شعبہ قائم ہے، جس میں اُنھیں مختلف کورسز کروائے جاتے ہیں۔یہ ٹرسٹ غریب بچّیوں کو جہیز یا شادی پر300 مہمانوں کے لیے کھانا بھی فراہم کرتا ہے۔ اِس کے تحت اب تک 33 ہزار بچّیوں کے گھر بسائے جا چُکے ہیں۔‘‘

ٹرسٹ 25 ہزار سے زاید خاندانوں کو راشن بھی فراہم کرتا ہے۔ ’’کورونا کے دَوران راشن کی تقسیم کا کیا نظام رہا؟‘‘اِس سوال پر شکیل دہلوی نے بتایا’’کورونا کے سبب متاثرین کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا، تو ٹرسٹ نے بھی اپنی خدمات وسیع کردیں اور 23 کروڑ روپے کی لاگت سے3 لاکھ، 23 ہزار خاندانوں تک راشن پہنچایا، جب کہ یومیہ2 ہزار افراد تک تیار کھانا بھی پہنچایا جاتا ہے۔‘‘ عالم گیر ٹرسٹ کا ایک اہم کام پرانے سامان کو کارآمد بنانا بھی ہے۔

سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ

مولانا بشیر احمد فاروقی نے مئی 1999ء میں کراچی کے علاقے، بہادر آباد سے چھوٹے پیمانے پر مخلوقِ خدا کی خدمت کا سفر شروع کیا، کارواں بنتا گیا، تو خدمت و نیکی کے اِس شجر کی شاخیں بھی پھیلنے لگیں اور اب یہ ادارہ125 سے زاید شہروں میں صحت، تعلیم، روزگار، پانی، راشن، جہیز کی فراہمی سمیت مختلف شعبوں میں مثالی خدمات سَرانجام دے رہا ہے۔ برطانیہ، امریکا اور عرب امارات میں بھی اِس کے دفاتر قائم ہیں۔ 

اِس ٹرسٹ نے پچھلے دنوں’’ احساس پروگرام‘‘ کے تحت بھی عوامی فلاح و بہبود کا ایک بڑا منصوبہ لانچ کیا۔ ساڑھے تین ہزار سے زاید افراد پر مشتمل عملہ دن رات عوام کی خدمت میں مصروف نظر آتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، سیلانی ٹرسٹ کے مختلف شعبوں سے یومیہ ڈیڑھ لاکھ افراد کی مدد کی جاتی ہے۔ شہری سیلانی کے دستر خوان سے بخوبی واقف ہیں، جہاں نہ صرف دو وقت کا کھانا مفت فراہم کیا جاتا ہے، بلکہ کئی ایک مقامات پر تو 24 گھنٹے دستر خوان سجا رہتا ہے۔ اِن دستر خوانوں پر عوام کی عزّتِ نفس کا بھی پوری طرح خیال رکھا جاتا ہے۔ نیز، اُنھیں فراہم کردہ کھانا بھی ہر لحاظ سے معیاری اور حفظانِ صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہوتا ہے، اِس مقصد کے لیے ادارے نے اپنا کچن بنارکھا ہے۔ 

تاہم، جو لوگ اِن دستر خوانوں پر بیٹھ کر کھانا نہیں چاہتے یا اپنے بچّوں کے لیے کھانا گھر لے جانا چاہتے ہیں، اُن کے لیے’’ روٹی بینک‘‘ موجود ہے، جہاں سے افرادِ خانہ کی تعداد کے لحاظ سے پیک شدہ کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔علاوہ ازیں، سیلانی ٹرسٹ مختلف اداروں کی معاونت سے نوجوانوں کو فنی تربیت بھی فراہم کر رہا ہے، جب کہ اس کی روزگار اسکیم بھی لوگوں کو باعزّت روزگار فراہم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔اِسی طرح ادارے کی جانب سے نادار، غریب افراد میں راشن بھی تقسیم کیا جاتا ہے، جب کہ غریب گھرانوں کی بچّیوں کو جہیز بھی دیا جاتا ہے۔ 

ٹرسٹ کی جانب سے طبّی کیمپس کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے، جب کہ صدقہ، عقیقہ اور قربانی سروس بھی شرعی اصولوں کے عین مطابق کام کر رہی ہے۔سیلانی ویلفیئر کے ٹرسٹی، محمّد عارف لاکھانی کا ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ’’ دستر خوان تو سب کے لیے کُھلے ہیں کہ جو چاہے آئے، اپنی بھوک مِٹائے، مگر دیگر سہولتوں کے حصول کے لیے ادارے کی جانب سے قائم کردہ جانچ پڑتال کے ایک سخت نظام سے گزرنا پڑتا ہے۔ اِس سختی کا مقصد یہ ہے کہ مخیّر افردا کی جانب سے دئیے گئے عطیات اہل افراد ہی تک پہنچ پائیں۔‘‘

چِھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن

چِھیپا کا نام اور کام کسی سے چُھپا ہوا نہیں۔ اِس ادارے کی ایمبولینسز کراچی بَھر کی سڑکوں پر دوڑتی نظر آتی ہیں، تو شہر کے بہت سے چوراہوں پر اس کے دستر خوان بھی موجود ہیں۔ رمضان چھیپا ادارے کے سربراہ ہیں، جنھوں نے کراچی کے سِول اسپتال کے باہر محدود پیمانے پر دُکھی انسانیت کی خدمت کا آغاز کیا اور آج پاکستان کے کئی شہروں میں چِھیپا کے رضاکار متحرّک ہیں۔ خاص طور پر اِس کی ایمبولینس سروس تو عوامی خدمت میں اہم مقام حاصل کر چُکی ہے۔ 

رمضان چِھیپا نے بتایا ’’ہمارے ادارے کے مجموعی طور پر 14شعبے ہیں، جن میں ایمبولینس سروس، دسترخوان، یتیم خانہ، مُردہ خانہ، اولڈ ہوم اور فراہمیٔ راشن نمایاں ہیں۔ اِن شعبوں سے مستفید ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ کووِڈ-19 کی وجہ سے بے روزگاری اور دیگر سماجی مسائل میں اضافہ ہوا، تو ہم نے اِس صُورتِ حال سے نمٹنے کے لیے خصوصی انتظامات کیے، جس کے تحت ایک طرف ضرورت مندوں کو راشن کی فراہمی میں اضافہ کیا، تو دوسری طرف، اپنے دستر خوان بھی وسیع کردیے تاکہ کم ازکم لوگ باعزّت طریقے سے اپنے پیٹ کی آگ تو بُجھا سکیں۔

ہمارے ادارے کی 500 سے زاید ایمبولینسز 24 گھنٹے اور ہفتے کے ساتوں دن عوام کی خدمت کے لیے موجود ہیں۔ یومیہ پانچ ہزار افراد میں راشن بیگز تقسیم کیے جاتے ہیں، جب کہ یومیہ تیس ہزار افراد دستر خوانوں کا رُخ کرتے ہیں۔ اِس وقت ادارے میں ایک ہزار سے زاید رضا کار خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ادارے کی جانب سے مفت غسل اور کفن کی خدمت بھی سَرانجام دی جاتی ہے، جب کہ لاوارث افراد کی تدفین کے لیے قبرستان بھی بنایا گیا ہے۔

بچّوں کے لیے قائم خصوصی گوشوں میں اُن کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجّہ دی جاتی ہے، جب کہ بہت سے بے اولاد جوڑے شرعی اور قانونی تقاضے پورے کرکے یہاں سے بچّے بھی گود لے چُکے ہیں۔‘‘ رمضان چِھیپا نے ایک سوال کے جواب میں بتایا’’ ہم عوامی فنڈز پوری دیانت داری سے خرچ کرتے ہیں۔ آڈٹ رپورٹس ہماری آفیشل ویب سائٹ پر موجود ہیں، جنھیں کوئی بھی شخص دیکھ سکتا ہے۔‘‘

الخدمت فاؤنڈیشن، کراچی

انسانیت کے خادم
نوید علی بیگ، سی ای او، الخدمت کراچی

سماجی اور عوامی خدمات کے حوالے سے اِس ادارے کی ایک الگ ہی پہچان ہے، جو نظم وضبط، مہارت، جذبۂ خدمت اور وسعت سے عبارت ہے۔ الخدمت کراچی کے سی ای او، نوید علی بیگ نے ادارے کی خدمات اور طریقۂ کار پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا’’ الخدمت فاؤنڈیشن صحت، تعلیم، یتیم خانہ، صاف پانی کی فراہمی، مواخات، کمیونٹی سروسز اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ جیسے سات شعبوں میں کام کر رہی ہے۔

کراچی میں 1200 افراد پر مشتمل عملہ ہے، جب کہ رضاکاروں کی تعداد بھی 25 ہزار کے قریب ہے۔ لاک ڈاؤن کے دَوران ہمارے 18 ہزار کے قریب رضاکاروں نے دو لاکھ افراد تک تیار کھانا اور لاکھوں شہریوں تک راشن پہنچایا۔ ہم کراچی کے 25 لاکھ شہریوں کو کسی نہ کسی طرح خدمت فراہم کر رہے ہیں۔ 

کنوؤں کی کھدائی اور ہینڈ پمپس کی تنصیب کے ساتھ مختلف علاقوں میں 45 فلٹر پلانٹس بھی لگائے ہیں، جہاں سے صرف ایک روپے لیٹر میں صاف پانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔‘‘ شعبۂ صحت سے متعلق اُن کا کہنا ہے کہ’’ الخدمت کے تحت فریدہ یعقوب اسپتال، گلشنِ حدید، ناظم آباد اور اورنگی ٹاؤن میں تین بڑے اسپتال کام کر رہے ہیں، جب کہ 7 میڈیکل سینٹرز اور 12 چھوٹے کلینکس بھی قائم کیے ہیں۔

کراچی میں سب سے سستے ٹیسٹس ہمارے ہاں ہی ہوتے ہیں۔ اِس کی ایک مثال کووڈ ٹیسٹ ہے، جو مُلک بَھر میں ساڑھے چھے ہزار تک میں ہو رہا ہے، لیکن ہم صرف تین ہزار روپے وصول کرتے ہیں۔‘‘ الخدمت کے تحت شہر کے مختلف حصّوں میں73 مدارس بھی کام کر رہے ہیں، جہاں پچھلے برس 450 طلبہ نے حفظِ قران مکمل کیا۔ نیز، کمیونٹی سروسز کے تحت میّت گاڑی، وہیل چئیرز، آکسیجن سلنڈرز، بے ساکھیاں وغیرہ بھی فراہم کی جاتی ہیں۔’’ مواخات‘‘ بھی الخدمت کا ایک اہم شعبہ ہے، اِس ضمن میں نوید علی بیگ نے بتایا’’ اس پروگرام کے تحت چھوٹے کاروبار کے لیے50 ہزار روپے تک کا بلا سودی قرضہ دیا جاتا ہے، لوگ طرح طرح کے آئیڈیاز لے کر آتے ہیں اور ہمارے ماہرین بھی اُنھیں کاروبار کے حوالے سے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔‘‘عوامی تعاون سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال پر الخدمت فاؤنڈیشن کے سی ای او کا کہنا تھا’’ عوام بہت تعاون کرتے ہیں۔

اِس کی مثال کووڈ لیب ہے، جو ڈھائی کروڑ روپے کی لاگت سے محض ڈیڑھ مہینے میں قائم ہوگئی۔ گزشتہ برس ڈونرز کانفرنس میں ساڑھے سات کروڑ روپے کے عطیات ملے تھے، جب کہ اِس برس کانفرنس میں 30 کروڑ روپے کے عطیات دیے گئے، جو ادارے پر عوام کے اعتماد کا مظہر ہے۔ہم نے آڈٹ کا سخت نظام قائم کر رکھا ہے اور اپنی فیلڈ کے ماہر افراد اس شعبے کو دیکھتے ہیں۔اِن دنوں ہم تین بڑے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔

الخدمت اسپتال، ناظم آباد کے ساتھ بڑا ڈائیگنوسٹکس سینٹر قائم کر رہے ہیں، کیوں کہ علاج معالجے پر زیادہ اخراجات ٹیسٹس ہی کی مَد میں آتے ہیں۔ عمارت زیرِ تعمیر ہے، جس پر 15 کروڑ روپے لگ چُکے ہیں اور مزید 45 کروڑ روپے درکار ہیں۔ گلشنِ معمار میں یتیم بچّوں کے لیے’’آغوش‘‘ بھی بنا رہے ہیں۔ اِس مرکز میں ابتدائی طور پر 200 یتیم بچّوں کو رکھا جائے گا۔نیز، فریدہ یعقوب اسپتال، گلشنِ حدید میں ایک ٹراما سینٹر بھی بنانا چاہتے ہیں کہ وہ نیشل ہائی وے پر واقع ہے اور صنعتی ایریا بھی قریب ہے، حادثات کی صُورت میں متاثرین کو جناح اسپتال منتقل کرنا پڑتا ہے،جو وہاں سے خاصا دُور ہے۔‘‘

انڈس ہیلتھ نیٹ ورک

مُلک میں عوام کو علاج معالجے کی جو سہولتیں حاصل ہیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ایک طرف معیاری طبّی سہولتوں تک عوام کی رسائی نہیں اور اگر کہیں یہ سہولتیں دست یاب ہیں، تو عام آدمی اُنھیں افورڈ نہیں کرسکتا۔ عوام کو علاج معالجے کی معیاری سہولتیں مفت فراہم کرنے کے لیے 2007ء میں’’ دی انڈس اسپتال‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا، جو اب اپنی خدمات کے پھیلاؤ کے ساتھ‘‘ انڈس ہیلتھ نیٹ ورک‘‘ میں تبدیل ہو چُکا ہے۔گزشتہ دنوں ادارے کی سالانہ رپورٹ کا اجراء ہوا، تو آئی ایچ این کے سی ای او، ڈاکٹر عبدالباری نے اپنے پیغام میں کہا ’’کراچی کا انڈس اسپتال 350 بیڈز سے 1300 بیڈز تک وسیع کیا جا رہا ہے اور اگلے مرحلے میں اسے 1800 بیڈز تک کر دیا جائے گا۔ 

جب کہ 600 بستروں پر مشتمل لاہور کا انڈس اسپتال تکمیل کے قریب ہے، جو عالمی معیار کی جدید سہولتوں سے آراستہ ہے اور عوام تک یہ سب سہولتیں مفت فراہم کی جائیں گی۔‘‘ ڈاکٹر عبدالباری نے انسانیت کی خدمت کا یہ سفر ایک بلڈ بینک کے قیام سے شروع کیا تھا، مگر آج اپنی اَن تھک محنت، معیاری سہولتوں کی فراہمی اور بہترین ٹیم ورک کے نتیجے میں انڈس ہیلتھ نیٹ ورک کے تحت ایک درجن سے زاید اسپتال اور طبّی مراکز عوام کو مفت علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔ 

ان اسپتالوں سے ماہانہ 4 لاکھ افراد کو عالمی معیار کی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں، جن میں کینسر اور خون کے امراض میں مبتلا 10 ہزار بچّے بھی شامل ہیں۔ انڈس ہیلتھ نیٹ ورک کے تحت لاہور میں چار اسپتال، جب کہ بدین، ملتان اور مظفّر گڑھ میں ایک ایک اسپتال کام کر رہا ہے۔ نیز، کئی شہروں میں مختلف نوعیت کے طبّی مراکز بھی اس نیٹ ورک کا حصّہ ہیں۔ ان اسپتالوں میں مجموعی طور پر 1595 بیڈز ہیں۔ کراچی کے علاقے،کورنگی میں قائم اسپتال 20 ایکٹر پر مشتمل ہے، جہاں روزانہ ہزاروں افراد علاج معالجے کے لیے رجوع کرتے ہیں اور اُنھیں کسی سفارش یا فیس کے بغیر ہر ممکن سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ انڈس ہیلتھ نیٹ ورک کی جانب سے میڈیکل کی اعلیٰ اور معیاری تعلیم کے لیے’’ انڈس یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز‘‘ بھی قائم کی گئی ہے، جو سات کالجز پر مشتمل ہے۔ یہاں سے پوسٹ گریجویٹ کے ساتھ مختلف دَورانیے کے کورسز بھی کیے جا سکتے ہیں۔

بیتُ السّلام ویلفیئر ٹرسٹ

یہ ادارہ معروف عالمِ دین، مولانا عبدالستّار کی زیرِ نگرانی عوامی فلاح وبہبود کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔اِس کے مختلف شعبوں سے گزشتہ برس 3 کروڑ، 80 لاکھ سے زاید افراد مستفید ہوئے۔لاک ڈاؤن ریلیف پروگرام کے تحت37 لاکھ، 67 ہزار 237 افراد تک خوراک پہنچائی گئی۔بیت السّلام دستر خوان سے 18 لاکھ 50 ہزار افراد نے کھانا کھایا۔ 5 لاکھ افراد میں راشن تقسیم کیا گیا۔تُرکی میں شام کے متاثرین کے لیے دو روٹی پلانٹس لگائے گئے، جہاں یومیہ 3 لاکھ سے زاید روٹیاں تیار کی جاتی ہیں۔ بیت السّلام فوڈ بینک سے 2 لاکھ 40 ہزار افراد تک کھانا پہنچایا گیا۔مختلف مقامات پر دو آر او پلانٹ لگائے گئے، جن میں سے ہر ایک یومیہ 5 ہزار گیلن پانی فرام کرتا ہے، جب کہ مختلف بستیوں میں 165 ہینڈ پمپس تنصیب کیے گئے۔ 

کئی مقامات پر پانی ذخیرہ کرنے کے لیے تالاب بھی بنوائے گئے۔بیت السّلام کلینک اور طبّی کیمپس سے 50 ہزار افراد نے فائدہ اُٹھایا۔علاوہ ازیں، ادارے کی جدید سہولتوں سے آراستہ 40 ایمبولینسز بھی دن رات خدمت میں مصروف ہیں۔ٹرسٹ کے تحت 44 ہزار 740 افراد کی مالی مدد کی گئی، جب کہ گھریلو استعمال کا ضروری سامان، کئی ہزار کمبل،سرد علاقوں میں 4 من کوئلہ بھی تقسیم کیا گیا۔ بیواؤں، یتیموں اور معذوروں کے لیے ’’ قریہ بیت السّلام فیز ٹو ‘‘ پر بھی تعمیراتی کام کا آغاز کردیا گیا ہے۔

نیز، ٹرسٹ کے تحت 380 تعلیمی ادارے کام کرہے ہیں، جن میں 40 ہزار طلبہ زیرِ تعلیم ہیں، جب کہ 50 ہزار سے زاید طلبہ کو اسکالر شپس بھی دی گئیں۔بچّوں میں باجماعت نماز کا شوق پیدا کرنے کے لیے’’ آئی ایم مُصلّی(مَیں نمازی ہوں)‘‘ کے نام سے ایک منفرد پروگرام شروع کیا گیا، جس کے تحت 694 بچّوں میں امپورٹڈ سائیکلز تقسیم کی گئیں۔نیز،’’ اولمپیاڈ پروگرام‘‘ کے تحت 180 اداروں کے 1200 طلبہ کے درمیان اکیڈمک اور اسپورٹس مقابلے کروائے گئے، جن میں شہر کے تمام اہم اداروں کے طلبہ نے شرکت کی۔

جعفریہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ سیل ( جے ڈی سی)

یہ کراچی کی ایک معروف فلاحی تنظیم ہے، جس نے حالیہ کورونا وبا کے دَوران قرنطینہ مراکز میں مقیم متاثرین کو کھانا فراہم کرنے کے ساتھ، لاک ڈاؤن سے پریشان عوام تک بڑے پیمانے پر راشن بھی پہنچایا۔ جے ڈی سی کے ایک اہم رہنما، عون عبّاس نے بتایا کہ’’ اس تنظیم کا کسی سیاسی یا مذہبی جماعت سے کوئی تعلق نہیں اور یہ آزادانہ طور پر انسانیت کی بلاتفریق خدمت پر یقین رکھتی ہے۔ہم نے گزشتہ برس کورونا کے عروج کے دَوران حسین لاکھانی ٹرسٹ کے تعاون سے نجی شعبے میں پہلا مفت کورونا اسپتال قائم کیا، جسے اب دوبارہ فعال کردیا گیا ہے۔ 

نیز، شہر میں 50 فری ڈائی لیسز مراکز بھی قائم کر رہے ہیں۔ جے ڈی سی کی جانب سے دنیا کا سب سے طویل موبائل ریسٹورنٹ بھی کام شروع کرنے والا ہے، جو جناح اسپتال کے باہر موجود ہوگا۔ اس سے مریضوں اور اُن کے تیمار داروں کے ساتھ دیگر افراد بھی کھانا کھا سکیں گے۔‘‘اُن کا مزید کہنا تھا کہ’’ جے ڈی سی بے روزگاری کے خاتمے کے لیے بھی متحرّک ہے اور اس مقصد کے لیے ٹھیلے مع سامان تقسیم کیے جا رہے ہیں۔ نیز، ادارے کی جانب سے دستر خوانوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔‘‘

تازہ ترین