• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب حیران ہیں کہ اقلیتوں کے حقوق کے نام پر مسلمان طلبہ کو اسلام پڑھنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ اگر اس منطق کو تسلیم کر لیا گیا کہ غیرمسلم طالب علموں کے ساتھ یہ بھی امتیازی سلوک ہوگا کہ قومی نصاب میں شامل کسی مضمون میں کسی بھی اسلامی حوالے یا مواد (باوجود اس کے کہ وہ اقلیتوں کے لئے لازم نہ ہوگا) کو پڑھاتے وقت استاد اقلیتی طالب علم کو یہ آپشن دے کہ اگر وہ باہر جانا چاہے تو جا سکتا ہے، تو پھر کل کو تو اسکولوں میں صبح صبح تلاوتِ قرآن پاک، نعت اور حتیٰ کہ قومی ترانے پر بھی اعتراض ہوگا کہ یہ بھی اقلیتی طلبہ کے لئے ’’Religious Instruction‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔

کہہ دیا کہ غیرمسلم طالب علموں کے لئے اسلامی موضوعات لازم نہیں اور نہ ہی ان سے متعلق اُن سے امتحان لیا جائے گا لیکن اعتراض یہ ہے کہ اُن کی موجودگی میں یا اُن کو کلاس سے باہر نکال کر مسلمان طلبہ کو ایسا نصاب پڑھانا غیرمسلموں کے لئے نامناسب اور امتیازی سلوک جیسا معاملہ ہوگا۔

اس لئے تجویز یہ دی گئی ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کی خاطر حمد و نعت سمیت اسلام کے متعلق، اسلامی ہستیوں سمیت، تمام اسلامی حوالہ جات کو قومی نصاب کے تمام مضامین سے نکال کر اسلامیات کے مضمون تک محدود کر دیا جائے۔

جب اسلامیات پڑھائی جائے گی اور غیرمسلم طلبہ کو کلاس چھوڑنے کا کہا جائے گا تو پھر کیا یہ بھی اُن کے ساتھ ’’امتیازی سلوک‘‘ نہیں ہوگا؟ جب تمام اسلامی حوالوں، اسلامی تعلیمات، مذہبی ہستیوں اور اسلامی ہیروز کو صرف اس لئے تمام مضامین سے نکال کر اسلامیات میں شامل کرنے کی تجویز دی گئی کہ اس سے اقلیتوں کے حقوق متاثر ہوتے ہیں تو پھر کل کو قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کو بھی اسلامیات میں شامل کرنے کا کہا جائے گا کیوں کہ قائد نے اسلام اور اسلامی شریعت کے نفاذ کے لئے پاکستان کو قائم کیا اور بارہا اپنی تقاریر میں اسلام کی بات کی۔

علامہ اقبالؒ کا حوالہ تو ہمارے بہت سے سیکولر دوست اس لئے نہیں دیتے کہ اُن کی شاعری اسلام، ایمان، مسلمانوں کے حوالوں سے بھری ہوئی ہے۔ کل کو تو آئین کر پڑھانے پر بھی اعتراض کیا جا سکتا ہے، مسجدوں میں اذان دینے پر بھی پابندی لگانے کی بھی تجویز سامنے آ سکتی ہے کہ اذان کا تعلق تو مسلمانوں سے ہے۔

اسی وجہ سے سب حیران ہیں کہ یہ کیسی تجویز ہے جس پر سپریم کورٹ نے ابھی کوئی فیصلہ تو نہیں کیا لیکن پہلے ہی صوبوں کو اس پر عملدرآمد کرنے کا کہہ دیا گیا ہے۔ یہ کیسی تجاویز ہیں جس میں اس ملک میں رہنے والی مسلم اکثریت کو سنا ہی نہیں گیا۔

مسلم اکثریت کیا بلکہ حکومت پاکستان کی طرف سے بنائے گئے اقلیتی کمیشن تک نے ان تجاویز کو رد کر دیا ہے۔ اقلیتی کمیشن کو ہی سن لیتے۔ علمائے کرام حیران و پریشان ہیں، حکومت کو بھی سمجھ نہیں آ رہا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے، کیسے ہوا، سیاستدانوں نے بھی اس معاملے پر اپنی تشویش کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔ کسی سے بات کریں تو یقین نہیں کرتا۔

کہتے ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ علماء ہوں یا سیاستدان، اس بات پر اتفاق ہے کہ اس قسم کی تجاویز پر عمل درآمد کرنے سے معاشرہ میں اشتعال پھیل سکتا ہے۔ اسلام تو ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اس کا تو ہماری زندگی چاہے وہ عبادت ہو، ریاست ہو، سیاست ہو، حکومت ہو، معاشرت ہو، معیشت، نظامِ عدل، تاریخ ہو یا زندگی کا کوئی دوسرا شعبہ، سب سے گہرا تعلق ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اسلام کے کسی معاملے کو پڑھنا ہے تو صرف اسلامیات میں پڑھیں۔

اقلیتوں کے حقوق کے نام پر نہ صرف یہ مسلمانوں کو اُن کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کرنے کی تجویز ہے بلکہ غیرمسلموں کو اسلام، اسلام سے تعلق رکھنے والی پاک ہستیوں، اسلامی معاملات سے لاعلم رکھنا ہی دراصل اقلیتوں کے حق میں بھی بہتر نہیں بلکہ اُن سے زیادتی ہوگی۔ دنیا بھر میں غیرمسلم اسلام، اسلامی ہستیوں اور اسلام کے معاشی نظامِ عدل کے بارے میں اپنے شوق سے پڑھتے ہیں۔

پاکستان میں اقلیتوں پر اسلام قبول کرنے پر کوئی زور زبردستی نہیں لیکن اگر وہ اسلام کے بارے میں پڑھیں گے نہیں تو پھر جب غیرمسلم یہاں جج بنے گا، سول سروس میں آئے گا، سرکاری نوکری کرے گا، استاد بنے گا تو پھر ایک ایسے ملک میں اپنی ذمہ داری کیسے ادا کر سکتا ہے؟ فیصلے کیسے کرے گا جس کی 97-98فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور جن کے فیصلے اسلامی قوانین کے مطابق ہونے ہیں؟

رانا بھگوان داس پاکستان کی سپریم کورت کے نہ صرف جج رہے بلکہ ایک وقت میں Actingچیف جسٹس بھی رہے۔

بھگوان داس کو اسلامی تعلیمات پر عبور تھا، وہ نعت بھی پڑھا کرتے تھے لیکن وہ ہندو مذہب سے تھے اور وہ ایک ہندو کے طور پر ہی اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ اُنہوں نے تو کبھی نہیں کہا کہ اُن سے امتیاری سلوک ہوا بلکہ اگر اُنہیں اسلام کے بارے میں کوئی علم ہی نہ ہوتا تو شاید وہ سپریم کورٹ تک پہنچ ہی نہ پاتے۔

اصل مسئلہ اقلیتوں کا نہیں۔ اصل مسئلہ ایک طبقے کے ساتھ ہے جو عمران خان حکومت سے قومی نصاب میں قرآن مجید اور سیرت النبیؐ کو شامل کرنے پر کافی نالاں ہے۔

ان کو تو وہ نکال نہیں سکتا، اس لئے اب یک رکنی کمیشن کے کندھے کو استعمال کرکے کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ نصاب میں شامل تمام اسلامی مواد اور حوالہ جات کو اسلامیات تک محدود کر دیا جائے تاکہ اسلامیات اتنا بڑا مضمون بن جائے کہ اسے مسلمان طلبہ کے لئے پڑھنا ممکن ہی نہ ہو۔ اقلیتوں کا نام استعمال کر کے دراصل مسلمان طلبہ کو اسلام پڑھنے سے روکنے کی یہ ایک کوشش ہے جو ان شاء ﷲ ناکام ہو گی۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین