• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپوزیشن سے اپوزیشن ٹکرا گئی۔ حکومت سے حکومت گتھم گتھا ہوگئی۔ قرض دینے والے عالمی ادارے ہمیں ڈرا دھمکا رہے ہیں کہ ہم ڈوب رہے ہیں۔ خانِ اعظم نوید سنا رہے ہیں کہ ہم ڈوبتے ڈوبتے بچ نکلے ہیں۔ اب چاروں طرف سکون ہی سکون ہے اور ایک ہم ہیں کہ اس سوچ میں گم ہیں کہ اب ہوگا کیا؟ پی ڈی ایم کے بٹوارے کے بعد جو خوش فہمی تھی کہ خانِ اعظم پُرسکون انداز میں اپنی سرکار چلا لیں گے تو وقت ضائع کئے بغیر اس خوش فہمی کو دور کرلیجئے کہ اب یہ دھکا اسٹارٹ گاڑی آپ کو کسی منزل تک پہنچا پائے گی؟ جہانگیر ترین کا شکریہ کہ جنہوں نے اپنے پاور شو سے ہم جیسے کھوجیوں کو ایک بار پھر یہ کھوج لگانے کا موقع فراہم کردیا کہ ہم ماضی قریب کی سیاسی حماقتوں کے تانے بانے نئے سرے سے بنیں اور مستقبل کے بارے میں مزید ٹامک ٹوئیاں مارنے کی یہ جسارت کریں کہ آخر یہ ہو کیا رہا ہے؟ جو یہ سمجھتے تھے کہ بڑے میاں صاحب اپنی جان بچا کر ایک بار پھر جیل سے نکل کر لندن جا بیٹھے اورصاحبانِ طاقت ور اس خوش فہمی میں رہے کہ اب کی بار میاں صاحب چپ رہیں گے اور ہمار ے خانِ اعظم مرزا یار بنے رہیں گے، آج سوچتے تو ہوں گے کہ ہم نے یہ کیا کیا؟ شاباش دینی پڑتی ہے، مہا گرو جناب زرداری سب پہ بھاری کو جو دیوار کے اس پار بھی دیکھ لیتے ہیں۔ وہ ایک نہ نظر آنے والے سوراخ سے پوری کی پوری دیوار گرا کربہ آسانی راستہ ہموار کرنے کی مہارت رکھتے ہیں جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے آج بڑے میاں صاحب کی لندن یاترا سے سخت گیر بیانیے تک کا یہ سفر بڑے مولانا صاحب کے دھرنے، آصف زرداری کی سیاسی بازی گری کا ہی نتیجہ ہے کہ راستے کھل رہے ہیں۔ کوئی لاکھ کہے پی ڈی ایم کی سیاست ناکام ہوگئی لیکن سچ یہ ہے کہ پی ڈی ایم نے ڈوبتے ڈوبتے بھی حکومت کی کشتی میں جو سوراخ کرنا تھا وہ کر دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ کشتی کے سواروں کا کیا ہوگا؟ کیا وہ پار لگیں گے؟یا ایک بار پھر امپائرکی انگلی اٹھنے کا انتظار کریں گے؟ امپائر کا سب سے بڑا امتحان یہ ہے کہ وہ اگرنیوٹرل ہوگیا ہے تو پھر بروقت صحیح فیصلے کرے۔دوسری طرف کیا خانِ اعظم مافیاز کے خلاف اپنے بیانیے پر یوں ہی ڈٹے رہیں گے یا گھٹنے ٹیک دیں گے، خان اعظم کے پاس پہلا آسان آپشن تو یہی ہے کہ وہ ترین گروپ کے دباؤ میں آکر مٹی پاؤ چپ ہوجاؤ، جیسا ہے چلنے دو کی پالیسی اختیار کرکے اپنے قریبی غیر منتخب ساتھیوں سے چھٹکارا پا لیں اور یہ تاثر ختم کرنے کی کوشش کریں کہ خان اعظم پر اعظم خان بھاری ہے نہ پورے ملک پر خیبرپختونخوا بیورو کریسی گروپ حاوی، چندبڑی قربانیوں کی قیمت پر سب کو خاموش این آر او دے کر اپنے احتساب کے نعرے کو باقی دو سالہ مدت اقتدار میں دفن کرکے نظام حکومت چلا لیں۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ خان اعظم اپنے مزاج کے عین مطابق مافیاز کے خلاف ڈٹے رہیں پوری قوت سے انہیں کچلنے کے لئے جیلوں میں ڈال دیں یقیناً یہ فیصلہ پورے نظام حکومت کو ہلا کر رکھ دے گا کہ اسی گروپ کے سہارے خان اعظم کی حکومت کھڑی ہے، یہ آپشن سب سے پہلے پنجاب پھر وفاقی حکومت پر بھاری پڑے گا۔ ایسے حالات میں ترین گروپ دونوں حکومتیں گرانے کے لئے ن لیگ اور ق لیگ کا سہارا لے گا اور پیپلز پارٹی کا اس میں کتنا حصہ ہوگا یہ وقت ہی بتائے گا لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ خان اعظم کے ڈٹ جانے کی پالیسی کے نتیجے میں سب اُلٹ پلٹ ہو جائے گا۔ تیسرا اور آخری آپشن یہ بچتا ہے کہ حالات کی تنگی اگر خانِ اعظم کو اس حد تک لے جائے کہ جہاں سے واپسی کا راستہ ممکن نہ ہو، وہ قریبی ساتھیوں کی بغاوت کا صدمہ نہ سہہ پائیں اور اس نہج پر پہنچ جائیں جہاں وہ نئے پاکستان کی بجائے نیا عوامی مینڈیٹ لینے کا سوچیں اور صدر مملکت کو اسمبلیاں توڑنے کا مشورہ دے کر دوبارہ کرپشن مافیا کے خلاف جہاد کے نعرے بلند کرتے ہوئے یہ توقع رکھیں کہ وہ ن لیگ کے ٹکٹ پر آئندہ الیکشن کے خواہش مند ”باغیوں“ پر حملہ آور ہو کر ایک بار پھر نئی طاقت ور ٹیم کے ساتھ ابھر کر سامنے آجائیں۔ یقیناً لاشعوری طور پر خان اعظم کے ذہن میں امپائر کی انگلی کا تاثر بھی موجود ہوگا جس سے وہ اپنے اقتدار کو 2027ء تک بڑھاوا دے سکتے ہیں۔ قرین قیاس یہی ہے کہ خانِ اعظم حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے پہلے آپشن کے طور پر خاموش این آر او کرلیں، کچھ نادان دوستوں سے چھٹکارا پا کر موجودہ اقتدار بچانے میں کامیاب ہو جائیں۔

ترین گروپ کا فی الحال مصالحتی رویہ یہی ظاہر کررہا ہے کہ خانِ اعظم کچھ لچک دکھائیں تو بات آگے بڑھے۔ کہتے ہیں کہ جب کسی کا ڈنک نکل جائے تو وہ کسی کام کا نہیں رہتا تو سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا خاموش این آر او سے یہ بوسیدہ مافیا زدہ جمہوریت جس میں ہم سب پھنس بلکہ دھنس چکے ہیں پاکستان کو درپیش سنگین معاشی، خارجی و داخلی مسائل سے نکال پائے گی؟ خصوصاً ایسے حالات میں جب خان اعظم کی حکومت ہر محاذ پر پسپا دکھائی دے رہی ہو تو ذرا بروقت سوچئے کہ اب کرنا کیا ہے؟ ورنہ وفاقی بجٹ پارلیمنٹ سے منظور کرانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا، پھر کیا کرو گے؟

تازہ ترین