• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کڑوی گولی عوام نہیں ،قومی دولت لوٹنے والوں کو کھلائی جائے

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقیاتی احسن اقبال نے کہا ہے کہ ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے کڑوی گولی کھانا ہوگی۔ ٹینک اور توپوں کا زمانہ گیا۔ اب معیشت کی مضبوطی کا زمانہ ہے۔ اگلے روز ایک ٹی وی ٹاک شو میں گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہاکہ عوام کو چاکلیٹ کھلا کر خوش نہیں کرنا چاہتے۔ پہلا ہدف مضبوط اور مستحکم معیشت ہے۔ سخت فیصلوں کا فائدہ عوام کو ہوگا۔ دراصل احسن اقبال صاحب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نئی حکومت کے پہلے بجٹ کا دفاع کررہے تھے اور اُنہیں دفاع کرنا بھی چاہئے کیونکہ اُس وہ حکومت میں وزیر ہیں جس طرح دیگر سیاستدان اپنی حکومت اور پارٹی کی ہر چیز کو درست ثابت کرنے کیلئے بولتے نہیں بلکہ کیسٹ چلاتے ہیں‘ اسی طرح احسن اقبال نے بھی کیا۔ ورنہ معیشت کے استحکام کی جو دلیل اُنہوں نے دی ہے‘ اس میں وہ ”معقولیت“ کو اس قدر نظر انداز نہ کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے دفاعی بجٹ میں 57 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ کوئی اُن سے پوچھے کہ ٹینک اور توپوں کا زمانہ کیسے گزر گیا؟ معیشت کو مستحکم کرنے کا حکومت کو کیا ایک ہی فارمولا نظر آیا ہے کہ عوام پر براہ راست ٹیکسوں اور مہنگائی کا ڈرون گرادیا جائے۔
پاکستان کے عوام پہلے بھی چاکلیٹ نہیں کھاتے تھے کہ اب اُنہیں کڑوی گولی کھلائی جارہی ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سخت فیصلوں کا فائدہ عوام کو ہوگا‘ وہ دراصل حساب و کتاب تو جانتے ہوں گے لیکن ”سیاسی معیشت“ کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوں گے۔ چلیں‘ حساب کتاب کی بات ہی کرلیتے ہیں۔ بجلی‘ گیس‘ تیل‘ گھی‘ چینی اور دیگر اشیائے ضروریات کی قیمتوں میں اضافے اور براہ راست ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر منتقل کرنے سے عوام کو کیا فائدہ ہوگا؟ اس سے حکومت اور اُس کے اداروں کو توپیسہ ملے گا لیکن مجموعی قومی معیشت حکومت کا بجٹ خسارہ پورا کرنے یا ریاست کی ضروریات پوری کرنے سے ٹھیک نہیں ہوگی۔ مہنگائی اور بیروزگاری تو قومی معیشت کی بنیادیں تباہ کردیتی ہیں۔ حکومت کا بجٹ اور قومی معیشت دو الگ الگ چیزیں ہیں‘ جنہیں گڈ مڈ کردیا جاتا ہے۔ پاکستان جیسے اکثر ترقی پذیر ممالک میں معاشی بحرانوں کی بنیادی وجہ وہاں کے ریاستی ادارے اور سامراج نواز حکمران ہوتے ہیں۔ جو لوگ سیاسی معیشت کا ادراک نہیں رکھتے‘ اُن کی سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آئے گی کہ جس ملک میں سیاست آزاد نہیں ہے اور جہاں 11 مئی 2013ء جیسے انتخابات ہوں گے‘ وہاں قومی معیشت کبھی مستحکم نہیں ہونے دی جائے گی‘ چاہے عوام کو کڑوی گولیوں کی بجائے زہر ہی کیوں نہ کھلا دیا جائے۔
جو لوگ نئی حکومت کے بجٹ پر بوجوہ تنقید سے گریز کررہے ہیں‘ اُن کا کہنا ہے کہ اقتصادیات بہت مشکل موضوع ہے‘ جو اچھے اچھوں کو سمجھ میں نہیں آتی حالانکہ کچھ عرصہ قبل وہ آدم اسمتھ‘ جان ایم کینز‘ کارل مارکس اور ملٹن فرائیڈمین سے بھی بڑے ماہرین اقتصادیات تھے۔ اُنہوں نے ہی ملک کے ”معاشی بحران“ کی نشاندہی کی تھی‘ جس کے بارے میں آج اسحق ڈار صاحب بات کررہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ معیشت اس قدر مشکل موضوع نہیں ہے۔ معیشت کو سمجھنا مشکل ہوتا تو اُنہیں یہ بات کبھی سمجھ نہیں آتی کہ کس پر تنقید کرنی ہے اور کس پر تنقید نہیں کرنی ہے۔ اسی طرح پاکستان کی اکثریت غریب آبادی بھی سمجھتی ہے کہ معیشت کیا ہے اور حکمرانوں کے کمزور دلائل کے پس پردہ اصل باتیں کیا ہیں۔
پاکستان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کا اصل حکمران طبقہ اسے پہلے دن سے لوٹ رہا ہے۔ یہ طبقہ کبھی آمروں کے ذریعہ اقتدار میں رہتا ہے اور کبھی ”جمہوری انتظام“ کے ذریعہ پاکستان کا مالک و مختار بن جاتا ہے۔ اس کی لوٹ مار اور بدانتظامی کی وجہ سے پاکستان جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال ملک کے لوگ غربت اور بے بسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس مسئلے کو مسلم لیگ (ن) کے محترم قائدین بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اس لئے وہ عام انتخابات سے قبل بار بار عوام سے یہ وعدہ کرتے تھے کہ اگر اُن کی حکومت آئی تو وہ لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لائیں گے اور لٹیروں کا احتساب کریں گے۔ لہٰذا عوام پر ٹیکسوں اور مہنگائی کا ڈرون گرانے کی بجائے لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لائی جائے۔وہ اپنا یہ وعدہ پورا کریں۔ سارا بحران ختم ہوجائے گا۔ قومی دولت لوٹنے والے پانچ قسم کے لوگ ہیں لہٰذاحکومت کو ترجیحی بنیادوں پر پانچ اقدامات کرنے چاہئیں۔
وزیراعظم پہلا اقدام یہ کریں کہ 1980ء سے قرضہ معاف کرانے والوں سے پیسہ واپس لے لیا جائے تو نہ صرف پاکستان کے اپنے قرضے ختم ہوسکتے ہیں بلکہ وہ دنیا کے کچھ غریب ممالک کی بھی امداد کرسکتا ہے۔ قرضہ معاف کرانے والا یہ طبقہ ایسا ہے‘ جس نے پاکستان کی قومی دولت کو سب سے زیادہ لوٹا ہے اور یہ لٹیرے وہ نہیں ہیں‘ جن کی طرف میاں صاحبان اشارہ کرتے ہیں بلکہ یہ اصل لٹیرے ہیں۔ یہ بیورو کریٹس‘ جرنیلوں‘ نام نہاد تاجروں اور صنعتکاروں اور اُن سیاستدانوں پر مشتمل طبقہ ہے‘ جو ہمیشہ آمریت نواز یا کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے حامی رہے ہیں۔ یہی طبقہ ہے‘ جس کے ہاتھ میں معیشت ہے اور جس نے اب سیاست پر بھی قبضہ کرلیا ہے اور سیاست کو پیسے کا کھیل بنا کر اسے ملکی اور بین الاقوامی مافیا گروپس کے تابع کردیا ہے۔ یہی وہ طبقہ ہے‘ جس نے صنعت و تجارت کو نہیں پنپنے دیا۔ اس نے صنعت و تجارت کے نام پر ریاستی سرمایہ بطور قرضہ حاصل کیا اور یہ سرمایہ بیرون ملک منتقل کردیا۔ اسی سرمائے سے اُنہوں نے بیرون ملک کاروبار کیا اور جائیدادیں حاصل کیں مگر پاکستان سے صرف لوٹ مار کا تعلق رکھا۔ اسی طبقے نے حقیقی نجی شعبے کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا‘ جو لوگوں کو بڑے پیمانے پر روزگار فراہم کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج روزگار کی فراہمی کا سارا بوجھ ریاست پر آن پڑا ہے۔ پہلا اقدام ان لٹیروں سے قومی دولت کی واپسی ہونا چاہئے۔ اور اس میں کوئی سیاسی امتیاز نہ ہو۔
دوسرا اقدام یہ ہونا چاہئے کہ جو پاکستانی ناجائز طریقے سے اپنا سرمایہ بیرون ملک لے گئے ہیں‘ اُن کا سرمایہ واپس لایا جائے۔ اگر پاکستانی شہری اپنے انکم ٹیکس یا ویلتھ ٹیکس گوشواروں میں اس سرمائے اور جائیدادوں کا ذکر نہیں کرتے یا اُن کے بارے میں کوئی قانونی پوزیشن نہیں کررکھتے تو متعلقہ غیر ملکی حکومتوں سے درخواست کرکے یہ سرمایہ اور جائیدادیں ضبط کرلی جائیں۔ تیسرا اقدام یہ ہونا چاہئے کہ ملک میں غیر جانبدارانہ احتساب کا نظام نافذ کیا جائے‘۔ وزیراعظم کو چوتھا اقدام یہ کرنا چاہئے کہ عالمی مالیاتی اداروں کے بروکرز اور سیلزمین کو اقتدار کے ایوانوں میں نہ گھسنے دیا جائے اور ملک کو قرضوں کے مزید بوجھ سے بچایا جائے۔ پانچواں اور سب سے اہم اقدام یہ ہونا چاہئے کہ حکومت میں شامل بااثر لوگوں کے بیٹوں‘ بھتیجوں اور دیگر عزیز و اقارب کو سرکاری ٹھیکوں میں ملوث نہ کیا جائے یا اُنہیں نوازنے کے لئے نئے منصوبے نہ بنائے جائیں۔ کڑوی گولی عوام کی بجائے دولت لوٹنے والوں کو کھلائی جائے۔
تازہ ترین