• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکمران طبقے کی سنجیدگی ، تفکر ، ارادے اور شائستگی و متانت اپنی جگہ ، یہ تو ملک کے سیاسی کلچر میں ظہو ر پزیر تبدیلی کا ایک لیکن بڑا اشارہ ہے ۔ ان سے بھی زیادہ ملک کے اہل نظر کو فکر یہ ہے کہ صلاحیت اور سکت کے بغیر مصنوعی طریقوں یا خود غرضی کی'' طاقت''سے تیار ہوئی سٹیٹس کو کی وہ طاقتیں جو آ ج پاکستان کا بالائی طبقہ یا اشرافیہ کہلاتا ہے ، کیا ان میں نوشتہ دیوارپڑھنے کی بھی صلاحیت ہے ؟ یا فقط'' پہلو ں سے بہتر ڈلیوری '' اور ڈلیوری کو پریشاں کن اپوزیشن سے محفوظ رکھنا ہی ان کی منزل مقصود ہے ۔ 11مئی تک پاکستان کے حالات کا سلگتا تقاضہ حکومت کی آئینی تبدیلی ہی نہیں تھا بلکہ نئی حکومت کے ذریعے نظام بد کی بیخ کنی بھی تھا اور ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اب دانشور اور فکر و رہبر کا روپ دھارنے والے لٹیرے حاکم پاکستانی قومی معیشت اور عوامی خدمات کے ادارو ں کے ملبے کا جو ڈھیر پیچھے چھوڑ گئے ہیں ، اسے اٹھانا آسان ہے نہ اس سے نئی راہیں نکالنا ۔ یہ ذہنیت بھی کوئی ٹھیک نہیں کہ دہکتے مسائل پر نومولود حکومت کے گردلاٹھی ڈنڈے تان کر کھڑے ہوجائیں اور ہلا گلا شروع کر دیا جائے ۔ اولین ضرورت تو حکمرانوں کی نیت پڑھنے کی ہے ، نیک نیت اور ملکی و عوامی ضروریات کے مطابق ہے تو پھر اس سکت کا اندازہ لگا نا ہے کہ اپنی نیک نیتی اور عوام دوست عزائم کو عمل میں ڈھالنے کی صلاحیت کتنی ہے ؟ پھر خود یہ سمجھنے کی کہ یہ مطلوبہ نتائج نکالنے کے لئے کس درجے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ ان تمام قومی ضرورتوں کی جملہ تفصیلات ہیں ، جن کی گہرائی تک اہل نظر ، پھر عوام الناس نے بہر حال پہنچنا ہے ۔ فقیر کی سمجھ میں اتنا تو آیا ہے کہ عوام کے دل میں سماجی انصاف کے یقینی ہو نے کی تڑپ اور حالات کو سمجھنے میں ان کی دماغ سوزی اور جدید ذرائع کی مدد سے اظہار خیال کے بڑھتے رجحان نے مطلوب سماجی دباؤ تو پید اکر دیا ۔ سٹیٹس کو ( نظام بد ) کی طاقتیں ( روایتی حکمران و اپوزیشن ، روایتی سیاسی جماعتیں او ر پریشر گروپ ، جاگیردار ، مائنڈ سیٹ جرنیل ، کج بحث مولوی ، روایتی پیشہ ور اور روایت پرست عوام ) سب دل میں تو مان رہی ہیں کہ عوام تبدیلی پر تل گئے ہیں اور اس نے آنا ہی آنا ہے ۔ نئی نسل کے غلبے کے ساتھ عوام تبدیلی چاہتے ہیں۔ کسی نہ کسی درجے پر ان میں یہ اعتراف پیدا ہو چکا ہے کہ اب ''سب نہیں چلے گا '' اتنا سمجھ کر اتنی اخلاقی جرات پید اکرنا کہ وہ تبدیل شدہ صورت کے مطابق Behaveکریں ، ہماری آج کی شدید مطلوب قومی ضرورتوں میں سے ایک ہے ۔ سٹیٹس کو کے کس سیگمینٹ میں کتنی اخلاقی جرات پیدا یا بحال ہوئی ہے اور وہ اس کے مطابق کتنا ایکٹ کر رہا ہے ؟ اس کے حتمی اندازے کے لیے تو تحقیق مطلوب ہے ، لیکن میڈیا سے آشکار ہوتی غیر روایتی رپورٹس اور کسی سوراخ سے لیک ہو کر گلی محلوں میں عام ہوتے گورننس کے تلخ حقائق ابھی مایوس کن ہیں۔ ا س کی تصدیق ہمارے بلوچ بابا محمود اچکزئی نے ببانگ دہل اسمبلی میں اس نشاندہی سے کی کہ اس ایوان میں آج بھی بڑی تعداد میں وہ بیٹھے ہیں جنہوں نے آمروں کا آئین شکنی میں ساتھ دیا اور اپنے اپنے ادوار میں اٹھائے گئے حلف کے بر عکس آئین کی خلا ف ورزیاں کیں ۔یہی امر واقعہ ہے ، نااہل اور مشکوک ریٹرننگ آفیسروں کی فوج کے ساتھ آرٹیکلز 62،63سے لڑتے بھڑتے انتخابی امیدوار اور پھر عوامی نمائندہ بن کر یہی اسمبلی تو بننی تھی جس کی نشاندہی بابا اچکزئی نے کی ۔ اور ہمیں ہوش دلایا کہ چلو ماضی کو چھوڑو اب تو ٹھیک ہو جاؤ ۔
ہمیں اس تناظر میں عوامی رویوں کو نظر انداز نہیں کرنا ۔ یہ جائزہ لینابھی ناگزیر ہے کہ عوام میں تبدیلی کی تڑپ تبدیلی برپا کر نے کی عوامی صلاحیت سے کتنا میچ کرتی ہے ۔ زیادہ بحث وقت کا ضیاع ہے ۔ اب یہ تبدیل شدہ کیس ہے کہ پاکستانیوں کا اپنے اجتماعی اہدا ف حاصل کر نے اور خواہش پوری کر نے کا اپنا سٹائل ہے ۔ ہم انقلابی ہیں نہ حریت پسند۔ہم نے اپنی جد و جہد کو جمہوری اور پر امن رکھ کر بتدریج نئے نظام اور نئے پاکستان تک پہنچ کی راہ لی ہے ۔ اس لیے ہم نے بہت ایثار کرنا سیکھا ہے سوالیکشن سے پہلے سٹیٹس کو کی طاقت کی ایجنٹ ریٹرننگ افسروں کی ملک گیر فوج نے جو رویہ اختیار کیا اور کرتب پولنگ ڈے پر دکھائے ، اس پر ایک حد تک احتجاج نے ہمارے جاگنے کی تصدیق توضرور کی ہے ، لیکن ہمیں اس پر اب چپ ہی سادھنی ( دڑ وَٹنی)ہے ۔ تاہم ہمیں اپنا سماجی دباؤ بھی بڑھانا ہے اور چٹختی سٹیٹس کو کی طاقتوں پر کڑی نظر رکھ کر اپنی سی صدائے احتجاج بھی بلند کرنی ہے ۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو سماجی دباؤ (لیکن بتدریج)نتیجہ خیز بن رہا ہے ، وہ کس حوالے سے اور کتنا ڈالا جائے ؟ یہ ہمیں ابھی سیکھنا ہے ۔ مطلوب سماجی دباؤ کی نشاندہی معاشرے میں ہوتی جارہی ہے ۔ اسے جاری و ساری اور جاندار بنانا ہے ۔ جرنیلو ں کی طالع آزمائی سے آئین شکنی تو سٹیٹس کو کی تشکیل کا ایک بڑا محرک بنا ۔ اتنا یا اس سے بھی بڑا محرک یہ نہیں ؟کہ ہمارے پاپولر سول اور منتخب حکمرانوں نے آئین اور اپنے حلف کے بر عکس آئین و قانون کی (پامالی کی حد تک) خلاف ورزیاں نہیں کیں ؟ تب ہی تو ملک میں قرضوں کی عدم ادائیگی پر غریب ، لوئر مڈل اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے مکان قرقی ہوتے ہیں اور جن کے اربوں اور کروڑوں کے قرض معاف ہوگئے یا قانون کی حکمراں دوست تشریح سے کلیئر ہو گئے ۔ کرپشن ، اختیارات سے تجاوز ، صوابدیدی اختیارات کا خود غرضانہ استعمال، حکمرانوں کی دیدہ دلیری سے اقرابا پروری ، چھوٹے چور جیلوں میں اور بڑے ڈاکو حکومت میں ، یہ سب کچھ منتخب سول اور'' جمہوریت پسند'' حکمرانوں کے ادوار میں نہیں ہو تا رہا ؟ کیا اس سب کچھ سے آئین و قانون کی دھجیاں نہیں اڑیں ؟ کیا آج بھی عوام ہر حالت میں اتنا ٹیکس دینے کے پابند نہیں جتنا ان کا بنتا ہے ؟ کیا یہ درست نہیں کہ آج بھی پاکستان کا خوشحال ترین طبقہ خصوصاً سیاست دانوں کی اکثریت ، انڈسڑیل اور بزنس کمیونٹی اپنے ذمے واجب الادا ٹیکس کا نصف بھی ادا نہیں کر رہی؟ ان کے خلاف کاروائی نہ ہونے کے برابر نہیں ؟ اگر ہے تو زیادہ تر یہ رشوت کے حصول یا اس کاریٹ بڑھانے کے لیے نہیں ہوتی ؟ تب ہی تو لاہور کے گوپال نگر میں پراپرٹی ٹیکس ریکوری ٹیم پر محلے داروں نے حملہ کر کے دو پولیس انسپکٹروں سمیت ٹیکس عملے کے چھ افراد کو شدید زخمی کر دیا ۔ گوپال نگر لاہور کے خوشحال علاقے ( بلکہ اب بزنس ڈسٹرکٹ ) گلبرگ سے ملحقہ غربا اور لوئر مڈل کلا س لوگو ں کی بستی ہے ۔ یقینا انہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی ۔ اس کی حوصلہ افزائی تو نہیں کی جاسکتی اورگوپال نگریوں کے اس رویئے کوآسانی سے نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ شاید ان کا درست اندازہ ہے کہ گلبرگ کی لبرٹی مارکیٹ اور دوسرے تجارتی مراکز میں ان سے کہیں زیادہ جائیدادوں اور آمدنی والوں سے ٹیکس ریکوری کتنی ہو تی ہے اور جتنی ہوتی ہے اس سے کون کیسے اور کتنا فیض یاب ہوتا ہے ۔ گوپال نگریوں کی یہ غیر قانونی کاروائی ملک میں قانون کے دو مختلف طبقات پر مختلف درجے کے اطلاق کو ممکن بنانے والے سٹیٹس کو کے خلاف انگارہ ہے جو شعلہ بن سکتا ہے ۔ قومی اقتصادیات کرپٹ حکمرانوں کی لوٹ مار سے ملبہ تو بن گئی اب کہیں شہر شہر'' گوپال نگریوں '' کی لاقانونیت سے انگارے شعلے نہ بن جائیں ۔ عوام کے استحصال کو اپنی نسلوں کی خوشحالی کا ساماں بنانے والے نوشتہ دیوار پڑھیں ، سمجھیں کہ بات کدھر جارہی ہے ؟
نظام بد کی بدی کو بے نقاب کرتی ایک اور خبر ملاحظہ ہو ۔ '' محکمہ ڈاک کے تحت چلنے والے سیونگ بنک کے سپیشل اکاؤنٹ میں کروڑوں روپے کے فراڈ کا انکشاف ہوا ہے ، کرپشن مافیا کی ملی بھگت سے سپیشل اکاؤنٹ کا سوفٹ ویئر نہیں بننے دیا جارہا ۔ اسے مینول رکھا گیا ہے تاکہ رقوم کی خورد برد میں آسانی ہو ۔ سپیشل اکاؤنٹ میں جمع کروائی جانے والی رقوم پر ڈاک خانے کے ملازم اپنی مرضی کا منافع لگا کر بھی مال کما رہے ہیں ۔ آڈٹ پارٹیاں اس میں صرف زکوٰة کی کٹوتی اور منافع پر دس فیصد ٹیکس کو چیک کرتی ہیں ۔ اس پر دیئے جانیو الے کل منافع کا حساب کتاب نہیں رکھتیں ۔ خورد برد میں قومی بچت اور محکمہ ڈاک خانہ کے اہلکا ر ملوث ہیں ، سادہ لوح اکاؤنٹ ہولڈرز کو کہا جاتا ہے کہ پہلے اکاؤنٹ پر دس فیصد منافع تھا اب منافع کی شرح بڑ ھ گئی ہے ۔آ پ کا اکاؤ نٹ کلوز کر کے نیا اکاؤنٹ بنایا جا رہا ہے ۔ اس طرح پرانے اکاؤنٹ کی کلو زنگ سلپ جاری کئے بغیر نیا اکاؤنٹ کھول دیا جاتا ہے ۔ اکاؤنٹ ہولڈر کو بھی کلوزنگ سلپ کا پتہ نہیں ہو تا ۔ اس طرح اس پرپرافٹ خود وصول کر لیا جاتا ہے اور کرپشن کا ثبوت بھی دفن ہو جاتا ہے ۔ اگر کوئی اکاؤنٹ ہولڈر کرنٹ اکاؤنٹ کی طرح مختلف رقوم کی ادائیگی اور وصولی کرتا ہے تو اس مدت کے دوران اس کی معمولی رقم پر منافع لگا کر دے دیا جاتا ہے اور بڑی رقم کا منافع خود کھا لیا جاتا ہے ۔ شہریوں نے سپیشل اکاؤنٹ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا مطالبہ کیا ہے ''۔
یہ تو نظام بد کے پجاریوں کی مطلوبہ ٹیکنالوجی کے خلاف مزاحمت کی ایک خبر ہے ۔ ملک بھر میں ایسے سرکاری محکمے اور عوامی سروس کے نیم خود مختار ادارے سینکڑو ں کی تعداد میں ہیں جہاں پبلک ڈیلنگ اور اس کو ریکارڈ کر نے میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی اختیاریت میں بجٹ حائل نہیں( بلکہ یہ انتظامی اخراجات میں کمی کا باعث ہو) لیکن آئین نو سے خائف طرز کوہن پر اڑے ہوئے ۔ یہ مزاحمت بڑے چھوٹے بابو مل جل کر کرتے ہیں ۔ جو اس حد تک ہوتی ہے کہ جب نیک نیتی اور عوام دوست ارادوں سے نکلنے والی گڈ مینجمنٹ کے باعث کسی ادارے کا کمپیوٹرائزڈ ہونا ممکن ہو ہی جائے تو مافیا اس کی حوصلہ شکنی کے لیے سسٹم کے ''بار بار بریک ڈاؤن '' ہونے کا حربہ استعمال کرتا ہے ۔ آج کل بہت سمارٹ اور ٹرانسپیرنٹ ابتداء کر نے والے نادار کو بھی یہ مرض لگ گیا ہے ۔ یہ اور ایسے ان گنت حربے ہی تو ہیں کہ فقیر نے ای گورننس کی صدا لگا ئی ہے جو کم از کم حکمرانوں کے کان پر جوں رینگنے تک لگتی رہے گی ۔
چہروں پر سنجیدگی طاری کئے اور متفکر نظر آنے والے آج کے حکمران اور ان پرتیر برساتے سٹیٹس کو کے ہی سیاست دان دونوں سمجھنے کی کوشش کریں کہ جو تبدیلی پاکستان اور اس کے عوام کو مطلوب ہے ، وہ واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہے ۔ ایک کا تعلق ان تبدیلیوں سے ہے جو براہ راست مالی وسائل سے منسلک ہیں اور یہ بتدریج بر پا ہوں گی ۔ دوسری کا انحصار فقط صاحبان اقتدار کے رویے کی تبدیلی پر ہے ۔صرف حکمرانوں کاہی نہیں خود عوام کا بھی ۔ اس پربات تو اب ہونے لگی لیکن ہمارے جیسے معاشرے میں یہ بیمار حالت کا روایتی سماجی رویہ کیا بلا ہے؟ کیسے تشکیل پاتا او ر بڑھتا جاتا ہے؟ اور یہ جس معاشرے کا ہے وہ خود اور اس کی آنے والی نسلوں کے لیے کتنا تشویشناک ہے؟ پھر یہ کہ اس کی تبدیلی اور بیخ کنی کیونکر ممکن ہے؟ انشا اللہ اس پر جلد ،مسلسل اور تفصیلی بات ہوگی۔ حکمرانواور ووٹرو جاگتے رہنا۔
تازہ ترین