• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موجودہ بجٹ پیش ہوتے ہی مختلف طبقہ ہائے فکر کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے اور یہ ردعمل دو تین شقوں کے حوالے سے ہے۔ ایک سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور دوسرا عام استعمال کی اشیاء پر مزید ٹیکس لاگو کرنے کے بارے میں ہے۔ دراصل یہ سارا احتجاج لوگوں کا میاں نواز شریف سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لینے کے باعث ہے لیکن اس وقت فوری خوشحالی کے خواب کی تعبیر کے بجائے پاکستان کی معاشی صورتحال کے مطابق امیدیں وابستہ کرنی چاہئیں۔ ملک جس دلدل میں گر چکا ہے، سب سے بڑا مسئلہ اسے وہاں سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں کے دوران جس طریقے سے ملکی وسائل ذاتی مفادات کی نذر ہوئے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور جس حالت میں گزشتہ حکومت نے ملک کو چھوڑا تھا اس کے باعث کسی بھی جماعت کیلئے حکومت سنبھالنا ایک چیلنج تھا کیوں کہ وسائل اور مسائل میں بہت فرق ہے۔ ایسی صورتحال میں حکومت کے پاس آمدنی کے تین طریقے ہو سکتے تھے جس کے ذریعے وہ رقم اکٹھی کر کے ملک کو چلا سکے۔ ان میں سب سے پہلا طریقہ تو یہ تھا کہ اپنی آزادی اور خود مختاری کا سودا کر کے دیارِ غیر سے بھیک مانگ کر معاملات حل کرنے کی کوشش کی جائے اور ایسا جب بھی کیا جاتا ہے تو اس کے عوض بہت ساری شرائط پر بھی دستخط کرنے پڑتے ہیں اور آہستہ آہستہ آزاد ملک اپنی مکمل خود مختاری کھو کر غلام بن کر رہ جاتے ہیں۔ بظاہر وہ آزاد ملک کہلاتے ہیں مگر ان کے فیصلے ان کے ہاتھ میں نہیں ہوتے۔ پاکستان کو بھی اس وقت ایسی حالت تک پہنچا دیا گیا ہے کہ ہماری آزادی کا بہت سارا حصہ غیروں کے ہاتھ رہن رکھا ہوا ہے۔ ہم ہر معاملے میں ان کے دست ِ نگر بن کر رہ گئے ہیں بلکہ اس ملک میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو پیدائش کے وقت قرضے کا بوجھ تحفے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ وہ قرضہ جو اس نے یا اس کے خاندان نے کبھی نہیں لیا۔ دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا تھا کہ گزشتہ حکومت کی طرح زیادہ سے زیادہ نوٹ چھاپ کر اخراجات کرتے رہیں، تنخواہ بڑھا کر شاباش حاصل کریں اور لوگوں کو بظاہر ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کریں لیکن اس طریقے میں مشکل یہ تھی کہ یہ افراطِ زر کو بڑھانے اور روپے کی قدر مزید کم کرنے کا باعث بن سکتا تھا کیوں کہ جب معیشت مضبوط نہ ہو تو مہنگائی مزید بڑھتی ہے۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو ایک وقت آئے گا جب ہم نوٹوں کا تھیلا لے کر بازار جائیں گے اور وہاں سے ایک چھٹانک دال خرید کر لائیں گے۔
تیسرا طریقہ یہ ہو سکتا تھا کہ لوگوں کی آمدنی پر ٹیکس کے ذریعے رقم حاصل کی جائے اور ملکی معیشت کو بہتر کیا جائے۔ اس حکومت نے یہی طریقہ کار اختیار کیا کہ نہ بھیک پر گزارا کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی نوٹ چھاپ کر افراطِ زر بڑھانے کا رسک لیا بلکہ ٹیکس کے ذریعے ملکی معاملات کو روٹین کی ڈگر پر لانے کی کاوش کی کیوں کہ یہی وہ طریقہ تھا جو ملکی خود مختاری اور ملکی معیشت کی استواری کے لئے سب سے زیادہ قابل قبول تھا لیکن یہاں یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہئے کہ کچھ ملک ٹیکسوں کے ذریعے اکٹھی ہونے والی رقم ملکی ترقی کے بجائے اپنے اللے تللوں پر خرچ کر دیتے ہیں لیکن یہاں تو سرکار نے پہلے ہی وزیراعظم سمیت تمام وزارتوں کے خفیہ فنڈ ختم کر دیئے ہیں۔ ماضی میں وزیراعظم اور ہر وزیر کو کچھ صوابدیدی فنڈز کی سہولت حاصل تھی جنہیں وہ اپنی مرضی سے استعمال کرتے تھے۔ وزیراعظم کے پاس یہ فنڈز لامحدود ہوتے تھے۔ پرویز اشرف صاحب نے مختصر مدت میں ان فنڈز کی مد میں 47/ارب روپے خرچ کئے۔ عموماً ان فنڈز کا غلط استعمال ہوتا تھا اور یہ زیادہ تر ذاتی فائدے اور اثر و رسوخ کے لئے استعمال ہوتے تھے کیوں کہ بجٹ میں ان کا ذکر نہیں ہوتا۔ پہلی دفعہ نہ صرف یہ تمام فنڈ اور اختیارات ختم کر دیئے گئے ہیں بلکہ وزیراعظم اور دیگر وزراء کے اخراجات تیس فیصد کم کر دیئے گئے ہیں اور یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے لیکن ہم چھوٹی باتوں پر واویلا کرنے والی قوم ہیں، بڑی باتوں پر ہماری توجہ نہیں جاتی یا ہمیں دیکھنے ہی نہیں دیا جاتا۔ اس طرح صدر، وزیراعظم، گورنر، وزیر اعلیٰ اور آرمی چیف کو یہ بھی اختیار حاصل تھا کہ ذاتی استعمال کے لئے ڈیوٹی فری گاڑی امپورٹ کر سکتے تھے جس کے باعث ملک کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا تھا۔ میاں نواز شریف نے اپنے دوسرے دور میں گورنر اور چیف منسٹر کے یہ اختیارات ختم کر دیئے تھے جنہیں بعد میں مشرف نے2005ء میں پھر منظور کر لیا۔ آج پھر یہ استحقاق ختم کر دیا گیا ہے جو کہ بہت خوش آئند ہے۔
ترقی یافتہ ملکوں میں لوگ ٹیکس ادا کرنے پر نہیں لڑتے بلکہ ٹیکسوں کے استعمال پر احتجاج کرتے ہیں۔ ہمیں بھی حکومت کی کارکردگی پر گہری نظر رکھتے ہوئے ٹیکسوں کے صحیح استعمال پر توجہ مبذول کرنی ہے اور اگر یہاں کوئی گڑ بڑ ہو تو پھر احتجاج ہمارا حق بنتا ہے ورنہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑا واویلا کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اس وقت پاکستان کی جو حالت ہے اس میں تو تنخواہ کا بحال رہنا ہی مشکل ہے۔ ہمیں اپنے ملک کی سلامتی اور خود مختاری عزیز ہونی چاہئے۔ اگر ملک ترقی کی راہ پر چل نکلے گا تو خوشحالی ہمارا مقدر بنے گی اور اس کے لئے یہ چھوٹی سی قربانی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ وزیراعظم نے اپنی طرف سے پہل کر دی ہے اب ہماری باری ہے۔ ہم نے ایک ذمہ دار قوم ہونے کا ثبوت دینا ہے اور ملک کو اس مشکل صورتحال سے نکالنا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ دی جانے والی سبسڈی کو بھی ختم کر دے اور ہزاروں ایکڑ زمین کے مالکوں پر بھی ٹیکس لاگو کرے کیوں کہ لوگوں کے ذہن میں یہ شکوک نہیں ہونے چاہئیں کہ کچھ لوگ ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں اور صرف سرکاری ملازمین سے ہی ڈنڈے کے زور پر ٹیکس حاصل کیا جاتا ہے۔ سرکاری ملازموں کی تنخواہ بڑھانا ایک روایت بن چکی ہے اور اگر دیکھا جائے تو اس ملک میں سب سے زیادہ پسنے والا طبقہ تنخواہ دار طبقہ ہی ہے۔ ایسے میں ٹیکس بڑھنے کے ساتھ ان کی روزمرہ زندگی پر بھی شدید اثرات مرتب ہوں گے کیوں کہ ہر سرکاری ملازم گریڈ 20 یا 22کا ملازم نہیں ہوتا اور اگر حکومت یہ چاہتی ہے کہ سرکاری ملازمین دیانتداری سے اپنے فرائض سرانجام دیں تو ان کے بارے میں ضرور سوچنا ہو گا کیوں کہ سرکاری ملازمین جانتے ہیں کہ ملک پر ایک منتخب وزیراعظم کی حکومت ہے جو ڈکٹیٹر کی طرح عوام کو مُکا دکھا کر اپنی طاقت سے اپنے فیصلے مسلط کرنے کے بجائے عوامی دباؤ کو مثبت انداز میں برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے لائحہ عمل میں عوامی سوچ اور مفاد کے مطابق تبدیلی کرنے کی جرأت رکھتا ہے۔ ہمیں اپنی آزادی اور خود مختاری کے عوض ایک سو سولہ روپے والی چیز ایک سو سترہ روپے میں خریدنے میں کوئی عار نہیں کیوں کہ یہ تو وہ قوم ہے جو بھوکا رہ کر بھی اپنے قرضے اتارنے کی سکت رکھتی ہے۔ صرف سرکار کی طرف سے نیک نیتی اور اخلاص کے جذبے کا یقین چاہتی ہے۔
تازہ ترین