• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نئی حکومت نے اپنا پہلا بجٹ پیش کر کے عوام کو حیرت میں ڈال دیا ہے ۔ عوام اس موقع پر کچھ ریلیف ملنے کی توقع کر رہے تھے اس لئے موجودہ بجٹ انہیں اپنی امیدوں اور توقعات کے مطابق نظر آرہا نہیں ہے۔جہاں تک کسی مسلمان ملک میں ٹیکسوں کے نفاذ کا تعلق ہے تو اس بات تذکرہ کرنابے جا نہ ہوگا کہ اسلام میں شروع ہی سے ٹیکس وصول کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ البتہ زکوٰ ة کا نظام ہے اس لئے خلیج کی تمام مسلمان ریاستوں اور ملکوں میں آج بھی کوئی ٹیکس یعنی انکم ٹیکس ، سیلز ٹیکس ، ایکسائز ٹیکس یا جی ایس ٹی نافذ نہیں ہے بلکہ یہ حکومتیں غریبوں کیلئے تعلیم ، علاج معالجے ، فلاح و بہبود کی سہولتیں خود اپنے ذرائع سے فراہم کرتی ہیں۔ آمد و رفت کیلئے سڑکیں اور تفریح کیلئے باغات اور بچوں کیلئے تفریح کے مواقع مفت فراہم کئے جاتے ہیں۔ متحدہ ہندوستان میں سب سے پہلے ٹیکسوں کا نظام انگریزوں نے 1857ءء میں ہندوستان فتح کرنے کے بعد نافذ کیا تاکہ وہ حکومت برطانیہ کیلئے اپنے اپنے فتح کئے گئے ممالک سے ٹیکس وصول کر کے برطانیہ کے عوام کی فلاح و بہود کیلئے خرچ کر سکیں۔کیا ہمارے ملک میں یہ آسائشیں موجود ہیں ؟ جب ہندوستان آزاد ہوا تو یہ نظام جس میں اس وقت صرف انکم ٹیکس اور دولت ٹیکس تھا وہ ہمارے نظام کا حصہ بن گیا۔ پھر آہستہ آہستہ اس میں دوسرے ٹیکس شامل ہوتے گئے ۔ بلدیاتی سطح پر آکٹرائے اور ضلع ٹیکس ، صوبائی سطح پر تعلیم اور دیگر صوبائی ٹیکس اور مرکزی سطح پر انکم ٹیکس، دولت ٹیکس ، ایکسائز ٹیکس اور سیلز ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں۔ یہ سب ہماری حکومتوں کی کارگزاری تھی۔مغربی ممالک میں یہ ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں مگر ان ٹیکسوں سے وصول ہونے والی رقم واپس عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کر دی جاتی ہے یعنی مفت تعلیم ، بہترین ٹرانسپورٹ ، علاج معالجہ ، بے روزگاری الاوٴنس ، فلاح و بہبود اور پھر بڑھاپے میں بلا تخصیص پنشن کی شکل میں ادا کی جاتی ہے ۔ مغربی ممالک میں فیکٹری سے نکلنے والے مال پر کسی بھی قسم کا ٹیکس نہیں ہے بلکہ اگر آپ فیکٹریاں لگائیں گے تو حکومت بجلی، گیس اور ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کرتی ہے اور بینک معمولی سود پر یعنی 5فیصد پر قرضہ فراہم کرتے ہیں اور صرف آخری یعنی صارف سے 7 فیصد تک جی ایس ٹی جس کو وہاں وی اے ٹی کہا جاتا ہے خریدار سے وصول کرتے ہیں وہ بھی عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کر دیا جاتا ہے ۔جبکہ ہمارے ہاں زکوٰة کے ساتھ ساتھ تمام سطحوں پر ٹیکس وصول کرنے کا نظام ہے جس میں نہ صرف فیکٹریوں سے سیلز ٹیکس اور ایکسائزٹیکس وصول کیا جاتا ہے بلکہ امپورٹ پر ،بندر گاہ پر بھی یہ ٹیکس پہلے ہی وصول کر لیا جاتا ہے جس کا اثر براہ راست صارف پر پڑتا ہے ۔ کیونکہ قیمت فروخت میں یہ ٹیکس شامل کر لیا جاتا ہے تو پھر دوبارہ اسی صارف سے جی ایس ٹی کے نام پر ٹیکس لینے کا کوئی بھی جواز نہیں ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ جی ایس ٹی ، آئی ایم ایف والے نہیں مانتے تو جناب آئی ایم ایف والوں سے کہیں کہ سیلز ٹیکس یا جی ایس ٹی تمام مغربی ممالک میں صارفین سے ڈائریکٹ وصول کیا جاتا ہے ۔ہمارے ہاں پیداواری سطح پر دوبارہ وصول کر لیا جاتا ہے اس طرح ہر پاکستانی درحقیقت 100فیصد ٹیکس دیتا ہے ۔ اب میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں ، پی پی پی حکومت نے اپنے 5سالہ دور میں صرف ایک فیصد جی ایس ٹی بڑھا کر 16فیصد کر دیا تھا ۔ مسلم لیگ (ن ) کی حکومت نے پہلے ہی ہفتے یہ ٹیکس مزید ایک فیصد بڑھا کر 17فیصد کر دیا جبکہ وزیر اعظم نے تو اپنی تقریروں میں جی ایس ٹی کی مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ میں حکومت میں آکر اسے ختم کر دونگا۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جی ایس ٹی اس کے خالق امریکہ میں صرف 6 فیصد اور کینیڈا میں 7فیصد ہے ۔ کیا ہم کینیڈا اور امریکہ سے زیادہ امیر ملک ہیں اور یہ ٹیکس بھی خریدار کے ذمہ ہوتا ہے نہ کہ فیکٹری مالکان کے ذمہ۔پھر کہا جاتا ہے کہ ایک فیصد سے کوئی فرق نہیں پڑے گا وہ بھی غلط ہے ایک فیصد خام مال پر سے بڑھتے بڑھتے یہ 4فیصد تک مال کی تیاری تک پہنچ جاتا ہے ۔ پھر اسے کے بعد مالکان ، دوکاندار ، ڈسٹری بیوٹروں کا منافع جمع کریں تو یہ بڑھتے بڑھتے 10فیصد تک جا پہنچے گا۔اگر حکومت نے بیوروکریسی کے مشوروں پر عمل جاری رکھا تو لوڈ شیڈنگ ، گیس ،بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، پیٹرول،ڈیزل،تیل اور اس کی مصنوعات کے اضافے سے ٹرانسپورٹ پر عوام پر کرایوں کا بار پڑنے سے حکومت کیلئے ہرگزکسی نیک نامی کا باعث نہیں بنے گا ۔ ۔مجھے اُمید ہے کہ وزیر اعظم صاحب جو خود صنعتکار ہیں ان معاملوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ، بجٹ میں ضروری ترامیم کروا کر عوام کو مطمئن کرینگے۔
ایک دوسرا اہم نکتہ جو تاجروں ، صنعتکاروں ، ڈاکٹروں ، انجینئروں میں بری طرح کھلتا ہے کہ ہماری 80فیصد اسمبلی ممبران کے قومی این ٹی این نمبر نہیں ہیں۔ ان کی اکثریت زمینداروں ، جاگیرداروں ، وڈیروں،چوہدریوں پر مشتمل ہے اس لئے ملک میں زرعی ٹیکس نافذ کرنے پر آج تک توجہ نہیں دی گئی ۔اگر ہمارے ہاں بھی زرعی ٹیکس کے نفاذ پر توجہ دی جائے تو ہمارے ہاں بھی ٹیکسوں کا نظام راہ راست پر آسکتا ہے جو تاریخ میں قابل رشک عمل سمجھا جائے گا۔ بھارت میں فرسودہ جاگیرداری نظام 1949ءء میں ہی ختم کر دیا گیا تھا اسی وجہ سے وہاں آج تک جمہوریت قائم و دائم ہے اور کوئی آمر وہاں نہیں آسکا۔یہ اطلاعات باعث تشویش ہیں کہ عنقریب 30ہزار پاکستانی ورکرز جو سعودی عرب میں سالہا سال سے محنت مزدوری کررہے تھے وہ اب وہاں سے وطن واپسی پر مجبور ہو جائیں گے کیونکہ ان کے اقامے ختم ہو چکے ہیں۔ سعودی عرب میں پاکستانی سفارتخانے نے اب تک ان کیلئے کچھ نہیں کیا جبکہ بھارت کے وزیر خارجہ سلمان خورشید نے 2ماہ میں بھارتی مزدوروں وہاں نکالنے کے عمل کو رکوا دیا ۔ اس طرح 75ہزار بھارتی ورکرز دوبارہ اپنے کاموں پر لگا دیئے گئے ۔ لیکن اس کے لئے ہم کیا کر رہے ہیں۔
تازہ ترین