• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آفتابِ علم و عرفاں،حضرت مولانا وحید الدین خاںؒ ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد دہلی سے اُس ملک عدم تشریف لے گئے ہیں جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں لوٹ سکتا۔21 اپریل 2021،8 رمضان المبارک بروز بدھ انڈین ٹائم کے مطابق رات پونے دس بجے کورونا کے باعث حضرت مولانا اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ مولانا سے بڑی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں لیکن یہ حسرت ہی رہی کہ دو چار ہفتے امن و سلامتی کے روحانی مرکز میں مولانا کے ساتھ گزارے جائیں کئی مرتبہ پروگرام بنا پھر رہ گیا۔

2006میں سیفما ڈیلی گیشن کے ساتھ دہلی اور حیدر آباد دکن جانے کا موقع ملا تو دیگر سرگرمیوں کو چھوڑ کر مولانا کے آستانہ عالیہ پر حاضری کیلئے تیار ہو گیا کیونکہ ناچیز کی ہند یاترا کا اصل مدعا ہی مولانا سے ملاقات تھا اور اُنہیں اس سلسلے میں آگاہ کر رکھا تھا۔ جس وقت میں مولانا کی رہائش گاہ پر پہنچا، وہ آرام کے لئے بالائی منزل پر تشریف لے جا چکے تھے۔ اطلاع ہونے پر وہیں بلا لیا، مولانا سے یہ ملاقات زندگی کا بہترین اثاثہ ہے۔ یہ انمول لمحات کبھی بھول نہیں سکتا۔ اُن سے ملاقات کے دوران جو باتیں ہوئیں وہ اگرچہ روایتی مولویانہ اسلوب و موقف سے ہٹ کر تھیں مگر ’’راز حیات‘‘ ہی نہیں ’’حاصل زندگی‘‘ کہی جا سکتی ہیں۔ درویش کے لئے حضرت مولانا، سر سید ثانی کی حیثیت رکھتے تھے۔ ملاقات کے دوران انہیں سرسید کے ساتھ اپنا انٹرویو پیش کیا تو کچھ دیر اس کے مندرجات پڑھتے ہوئے گویا ہوئے ’’لگتا ہے آپ حال ہی میں سرسید سے مل کر آئے ہیں‘‘ پھر بولے: ’’کیا یہ پرچہ مجھے عنایت ہو سکتا ہے‘‘؟ عرض کی مولانا یہ تو لایا ہی آپ کے لئے ہوں، مسکرا کر بولے چلیں ٹھیک ہے۔

2004میں درویش کی پہلی کتاب ’’اسلامی تہذیب بمقابلہ مغربی تہذیب‘‘ حریف یا حلیف؟ شائع ہوئی۔ اس کا دیباچہ لکھوانے کے لئے مسودہ حضرت مولانا کے پاس دہلی بھیجا تھا، فون پر بات ہوئی تو بولے ’’میں نے تمام مسودہ حرف بہ حرف پڑھا ہے، اس پر دیباچے کی کتنی گنجائش ہے؟‘‘۔ عرض کی، مولانا ڈھیر ساری گنجائش ہے۔ آپ وضاحت سے لکھیے تب مولانا نے جو کچھ لکھا، وہ ان کی یادگار تحریروں میں سے ایک ہے۔ مولانا کی تحریروں پر بات کی جائے تو وہ ایک سے بڑھ کر ایک ہیں، ان کی خالص الہیات کو ایک جانب رکھ دیا جائے پھر بھی شعور کو جلا بخشنے والے افکار منفرد ہیں، جیسے کوئی مولانا نہیں ماہر نفسیات بول رہا ہو۔ بلاشبہ بہت سے لوگ ان سے اس بنا پر محبت کرتے ہوں گے کہ انہوں نے قرآنی تفسیر، احادیث اور بالخصوص سیرت پر بھرپور کام کیا لیکن ساتھ ہی ایسے افراد کی بھی کمی نہیں ہو گی، جو ان کی اس ساری کاوش کو غصے سے دیکھتے ہوں گے کہ انہوں نے سوچوں کے نئے دریچے کیوں وا کیے؟ اس طرح فقہی مباحث میں انہوں نے جس خوبصورتی سے عصری و زمانی تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا ہے یہ انہی کا شعوری مرتبہ، حوصلہ و جگرا تھا۔ ہندوستان میں یکبارگی تین طلاقوں کے مسئلہ پر لوک سبھا سے لے کر قانونی و عوامی کٹہروں تک جو بھی مباحثے ہوئے، مولانا نے کمال فراست اور خوبصورتی سے روایت کو پورے استدلال کے ساتھ نہ صرف راہِ اعتدال دکھائی بلکہ حقوقِ نسواں کی پاسداری بھی کی۔

مذہبیت کو قائم و دائم رکھتے ہوئے آپ کیسے لبرل، سیکولر اور سوسائٹی کے لئے کارآمد انسان بن سکتے ہیں؟ اس رمز کو جس خوبصورتی سے مولانا صاحب نے کھولا ہے فی زمانہ شاید ہی کوئی دوسرا اس نوع کا کارنامہ سرانجام دے سکے۔ مولانا نے زندگی بھر منافرت و اجنبیت کی دیواریں توڑیں اور محبت و اپنائیت کے پل تعمیر کئے۔ انہوں نے ہندو مسلم کے درمیان کھودی گئی گہری کھائی کو پاٹنے کی کاوش ہی نہیں فرمائی مغرب اور عالم اسلام میں موجود فکری دوئی کو مٹانے کے لئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی وہ زندگی بھر مدر ٹریسا، رسل اور ٹیگور کی مانند محبتیں بانٹتے رہے۔ درویش نے ایک مرتبہ آرٹیکل لکھا تھا ’’دورِ حاضر کی پانچ بڑی شخصیات‘‘، مولانا ان میں سے ایک تھے۔ مسلمانوں میں ان کا کام اور مقام سرسیدؒ، سید علی طنطاوی اور ڈاکٹر طہٰ حسین جیسے بڑے مفکروں سے کم نہیں تھا۔ آج وہ گئے ہیں اور یقیناً انہوں نے جانا ہی تھا تو وہ قلبی طمانیت سے گئے ہیں اور اس قول کی مطابقت میں گئے ہیں کہ ’’میرے سامنے کسی کی برائی نہ کرو تاکہ میں دنیا سے جائوں تو میرا دل کسی سے کھٹا نہ ہو‘‘۔ ان کی آخری دریافت قابلِ ملاحظہ ہے ’’اس دنیا میں سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ انسان دنیا کا سفر اس طرح کرے کہ اس کے دل میں کسی کے خلاف ذرہ برابربھی کوئی منفی خیال نہ ہو۔ اس سے بڑی کوئی کامیابی نہیں کہ انسان دنیا سے اس طرح جائے کہ اس کا ذہن پوری طرح مثبت ہو۔ اس میں سب سے بڑی اچھائی مثبت فکر ہے اور سب سے بڑی برائی منفی سوچ ہے۔ یہی میری آخری دریافت ہے‘‘۔ میں مولانا کی انسان نواز فکر و سوچ کو سلام پیش کرتا ہوں۔

تازہ ترین