• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حال ہی میں ہمارے سینئر رپورٹر احمد نورانی کو ایک کیس کے سلسلے میں ایک ماتحت عدالت کے سامنے پیش ہونے کا اتفاق ہوا۔ واپسی پر وہ اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو بتا رہے تھے کہ نچلی عدالتوں میں کس قدر کرپشن ہے۔ نورانی کے مطابق بھری عدالت میں جج صاحب کی موجودگی میں لوگ آتے ہیں اور وہاں موجود ایک عدالتی اہلکار کی مٹھی میں چند سو کے نوٹ پکڑاتے ہیں اور اپنے کام نکلواتے ہیں ۔نہ جانے جج صاحب کو یہ سب دکھائی دیتا تھا یا نہیں مگر عدالت میں موجود دوسرے افراد کے سامنے یہ سب کھلے عام ہو رہا تھا۔نورانی کے مطابق یہ سب دیکھ کر وہ دنگ رہ گیا۔ مگر وہ لوگ جن کا کورٹ کچہری میں جانا روز کا معمول ہے اُن کے لیے یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ ریڈر کو پیسے کِھلا کر اپنی مرضی کی تاریخ ڈلوا لینا، پیسوں کی وصولی پر فیصلوں، سٹے آرڈرز اور دوسری دستاویزات کی نقول کی فراہمی یہ سب کچھ نچلی عدالتوں میں پیش ہونے والوں کے لیے معمول کی بات ہے۔سپریم کورٹ کے وکیل سلیمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ یقیناً نچلی عدالتوں میں کرپشن ہے مگر عدالتی اہلکاروں کی طرف سے پیسہ وصول کرنے کو وہ (عدالتی اہلکار) بخشیش کے طور پر لیتے ہیں۔ راجہ صاحب کا کہنا ہے کہ اس کرپشن کا تعلق متعلقہ عدالت کے انتظامی معاملات سے تو ہوتا ہے مگر جوڈیشل معاملات سے نہیں ہوتا۔ فیصلوں سے متعلق کرپشن جس میں جج کی شمولیت لازمی ہوتی ہے، کے لیے دوسرے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ راجہ صاحب کے مطابق نچلی عدالتوں میں اچھے اور ایماندار جج بھی ہیں اور کرپٹ بھی مگر پاکستان کے عدالتی نظام کا سب سے بڑا مسئلہ کیسوں کا لمبا چلنا اور فیصلوں میں بے پناہ تاخیر ہے۔اسلام آباد کے ایک وکیل عامر عبداللہ عباسی کے مطابق نچلی عدالتوں کی بیوروکریسی میں کرپشن ایک حقیقت ہے ۔ متعلقہ جج اگر اپنے ماتحت عملہ پر سخت نظر رکھے توکرپشن پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ عامر عباسی کے مطا بق حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے ماتحت عدالتوں کی مانیٹرنگ اور چھاپوں کا سلسلہ شروع کیا جس سے کرپشن میں کمی واقع ہوئی ہے۔ عامر کے مطابق سخت مانٹرنگ ،نقول اور دوسرے دستاویزات کی فراہمی کے لیے شفاف نظام کے قیام اور نفاذ سے ان عدالتوں میں کرپشن کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
اعلیٰ عدالتوں میں تو گنے چنے لوگوں کا جانا ہوتا ہے۔ عام لوگوں کا اصل واسطہ نچلی عدالتوں سے پڑتا ہے جہاں انصاف کا اصول ایک انتہائی کٹھن اور تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے۔ جہاں قبضہ مافیا، کرپٹ، نوسرباز اور دھوکے باز کیسوں پر کیس کر کے معاملات کو الجھاتے ہیں۔ بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سارا نظام پسے ہوئے سادہ لوح، مظلوم، دھوکہ کھانے اور لٹنے والوں کے لیے نہیں بلکہ ظالم، لٹیروں اور جرائم پیشہ افراد کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے۔ ابھی کل ہی ایک ضلعی ڈی سی او نے مجھے فون کر کے افسوس کا اظہار کیا کہ 80 ارب روپیہ مالیت کی سرکاری زمین کے مبینہ قبضہ کے خلاف زمین کی نشاندھی کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سول جج کی ایک عدالت نے حکم امتناعی جاری کر دیا۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کی روشنی میں متعلقہ ڈی سی او نے متعلقہ پارٹیوں کو نشاندھی کا نوٹس جاری کیا تھامگر اب ایک بار پھر معاملہ ایک سے ایک بڑی عدالت سے ہوتا ہوا پھر سپریم کورٹ جائے گا مگر کیا کوئی ایسا نظام ہے جو متعلقہ جج سے پوچھ سکے کہ اُس نے کیسے اعلٰی ترین عدالت کے فیصلہ پر عملدرآمد کو روک دیا۔
عدالتی معاملات واضح اور غیر مبہم ہونے چاہییں تا کہ عدالتی فیصلوں پر فوری عمل کیا جا سکے اور کوئی رکاوٹ پیدا کرنے کی جرأت نہ کرے۔ یہاں تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ اپنے جائز حقوق کے حصول اور انصاف کی فراہمی کے لیے اپنی پوری پوری زندگی عدالتوں کے چکرلگانے میں ضائع کر دیتے ہیں۔ کتنے لوگ سپریم کورٹ تک فیصلے اپنے حق میں کروا لائے مگر پھر بھی انہیں اُن کے حقوق نہیں ملے۔انصاف کی جلد فراہمی کا نعرہ تو ہر سیاسی جماعت اور ہر حکومت لگاتی ہے۔ سپریم جوڈیشل کمیٹی نے بھی 2009 میں جاری کی جانے والی اپنی پالیسی میں انصاف کی جلد فراہمی کے لیے ضروری ہدایات جاری کیں مگر معاملات اب بھی دگر گوں ہیں اورجن کیسوں کے فیصلے ہفتوں اور مہینوں میں ہونے چاہییں، وہ سالوں میں ہو رہے ہیں۔ یہاں جھوٹا کیس کر کے دوسروں کی جائدادوں پر قبضہ کر لیا جاتا ہے، لوگوں کے کاروبار کو تباہ کر دیا جاتا ہے، ذاتی عناد اور دشمنی میں اپنے مخالف کو عدالت اور کچہری کے چکر لگوانے کی سزا دی جاتی ہے مگر ہمارا نظام جھوٹے کیس کرنے والوں کو نشان عبرت نہیں بناتا۔ اگر جھوٹے کیس کرنے والوں کو ہمارا قانون اور عدالتیں نشان عبرت بنائیں تو مجھے یقین ہے کہ عدالتوں کے سامنے زیر التوا کیسوں کی ایک بڑی تعداد کم ہو جائے گی۔ اس سارے بگاڑ میں وکلاء کا بھی ایک اہم کردار ہے جو بہت سے کیسوں میں انصاف کی فراہمی میں تعاون کی بجائے اس میں رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں۔ اگر کسی شہری کا کسی وکیل سے جھگڑا یا کوئی اور معاملہ ہو جائے اور کیس عدالت کے سامنے چلا جائے تو بیچارے شہری کو وکیل کے حصول میں انتہائی مشکل ہوتی ہے کیوں کہ ایک unwritten agreement کے مطابق ایسے تنازعات میں وکیل، وکیل کا ساتھ دے گا چاہے ظلم کسی کی طرف سے بھی ہو۔ ان معاملات اورنچلی عدالتوں میں فوری انصاف کے حصول کے لیے حکومت، اعلیٰ عدلیہ اور وکلاء کو مل بیٹھ کر ایک جامع حکمت عملی بنانی ہو گی تا کہ بلاامتیاز سب کے لیے فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔ موجودہ چیف جسٹس نے عدلیہ کی آزادی، آئین کی پاسداری، کرپشن کے خاتمے اور قانون کی حکمرانی کے لیے ایک تاریخ رقم کی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وہ اپنے آخری چھ ماہ میں ماتحت عدالتوں میں جامع اصلاحات کے ذریعے فوری انصاف کے خواب کو شرمندہ تعبیر کریں تا کہ عام پاکستانی کے لیے عدالت جانا ایک تکلیف دہ عمل کی بجائے جلد انصاف کی فراہمی کا ایک خوشگوار ذریعہ ہو۔
تازہ ترین