• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بجٹ میں نئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پھرتیاں دیکھ کر حیران ہوں کہ وہ کیسے اتنی جلدی خود کو اور میاں نواز شریف کو ایک ایسے جال میں پھنسا گئے کہ اب نکلنا مشکل لگتا ہے۔ نئی حکومت کیلئے سب سے بڑا مسئلہ لوڈ شیڈنگ کا تھا اور ڈار صاحب نے بار بار یہ کہہ کر کہ 60دن میں وہ سرکلر قرضے یعنی گشتی چکر سے باہر آ چکے ہوں گے اور ایک دفعہ ایسا ہو گیا تو پھر ظاہر ہے لوڈ شیڈنگ کہاں رہے گی کیونکہ مسئلہ بجلی کی پیداوار تھا ہی نہیں۔مسئلہ تو پیسوں کا تھا اور آدھی سے زیادہ کمپنیاں اپنے جنریٹر چلا رہی تھیں۔ جیسے ہی انکو ادھار کی رقم ملے گی وہ مشینیں چلا دیں گی اور بجلی آ جانی چاہیے، مگر ڈار صاحب کو سوچنا چاہئے تھا کہ اس گردشی چکر میں بڑی بڑی کمپنیاں دوسروں کو ادائیگی اس لئے نہیں کر رہی تھیں کہ پیچھے سے ان کو ادھار کی رقم نہیں مل رہی تھی۔تو اب ڈار صاحب بجٹ سے یا کہیں سے 500ارب روپے لائیں گے۔ کہتے ہیں 250ارب تو لے آئے، اور ان سب کمپنیوں کو دیں تاکہ وہ باری باری اپنا ادھار چکتا کریں اور بجلی بنانا شروع کریں تو ایک طرح سے ڈار صاحب یہ بڑے بڑے مگر مچھوں کو 500ارب کی رشوت دیں گے تاکہ وہ اپنی بجلی کی فیکٹریاں چلائیں ۔ ایک دفعہ یہ چکر پورا ہو گیا تو پھر ہر کمپنی کو وقت پر ادائیگی کرنا ضروری ہو گا تاکہ پھر یہ پہیہ رک نہ جائے ۔یعنی گیس سے بجلی بنانے والے کمپنی کو گیس کی قیمت وقت پر ادا کرنا ہو گی، پھر جو بجلی بنے گی وہ صارفین کو دی جائے گی اور انہیں وقت پر بل دینا ہو گا۔ جو بجلی چوری ہو گئی وہ پھر ایک نیا کھاتا کھولے گی کہ اس کی قیمت کون چکائے گا۔ اور اب اگر ڈار صاحب 500ارب کہیں سے لے بھی آئے اور بغیر کسی بڑے چور کو پکڑے اور اس چکری چکر میں ڈال رہے تو یہ رقم واپس کیسے ہو گی کیا کوئی 500ارب کی امداد کرنے آ رہا ہے یا ادھار لیا جائے گا چاہے آنٹی آئی ایم ایف سے لیا جائے یا عربی ماموں سے، دینے والا تو اپنی شرطیں منوائے گا۔ IMFکی شرطیں تو اتنی سخت ہوں گی کہ ڈار صاحب کو دن میں تارے اور رات کو سورج نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ عربی ماموں بھی کچھ تو اصرار کریں گے خود نہیں تو بڑے ماموں امریکا کے کہنے پر یعنی ایران کی گیس لائن کو ذرا فرج میں رکھا جائے اور گوادر کو چین کے حوالے کرنے سے پہلے دوبارہ سوچا جائے۔ مگر ڈار صاحب تو نہ صرف گوادر کی بات کر گئے بلکہ وہ گوادر سے کاشغر تک بلٹ ٹرین بھی چلانے کا خواب دکھا گئے ۔ ایسی موٹر وے کا بھی منصوبہ انکے ذہن میں ہے کہ سڑک سیدھی گوادر سے چین پہنچ جائے ۔درمیان والے زیادہ شور نہ مچائیں تو بہتر ہو گا۔ ایران کی گیس لائن پر وہ بات نہیں کر رہے۔ اور تخیلات کی دنیا میں آنٹی IMFاور ماموں یا بڑے ماموں کہاں فٹ ہوتے ہیں۔تو ڈار صاحب کا پہلا ہدف 60دن میں 500ارب اکٹھے کرنا ہے۔ انہوں نے نواز شریف صاحب کو زیادہ وقت نہیں دیا ہے ۔60دن میں سے20یا25تو بجٹ پاس کرتے اور SROجاری کرتے ہی گزر جائیں گے۔
پھر اگر وعدے وعیدوں کے بعد500ارب آ بھی گئے تو وہ ان چکری چکر والوں میں فوراً بٹ جائیں گے اب نیا چکر یہ شروع ہو گا کہ بجلی تو بننے لگے لگی مگر کس قیمت پر بکے گی تاکہ بنانے والا بجلی کے ساتھ کچھ مال پانی بھی بنائے اور ادھار بھی ادا کرے۔ قیمت تو لوگوں کو دینی ہو گی اور یہ لوگ کون ہیں۔ 18کروڑ میں سے ڈیڑھ کروڑ تو میاں صاحب کے ووٹر ہیں باقی سڑکوں پر ہوں گے کہ بجلی کے نرخ ان کے بجٹ میں فٹ ہی نہیں ہوں گے۔ اور پھر ڈار صاحب نے تنخواہ بھی نہیں بڑھائی ،مگر دو دن میں ہی گھٹنے ٹیک دیئے ،اب بند ملیں اور فیکٹریاں دوبارہ شروع کرنے اور لوگوں کو ملازمت دینے میں تو وقت لگے گا۔ معیشت کا پہیہ دوبارہ چلانے میں مہینے اور سال درکار ہیں تو ایک دفعہ 500ارب دینے سے کام نہیں چلے گا۔ دوچار مہینے کے بعد یہ چکری چکر پھر سر اٹھائے گا اور 200یا300ارب پھر ڈار صاحب کو آنٹی یا ماموں یا بڑے ماموں سے لینے ہوں گے۔ جب تک پہلے 500کی شرائط کا نتیجہ بھی نظر آنے لگے گا اور اگر آنٹی خوش نہیں تو میاں صاحب کی مشکل اور ماموں بگڑ گئے تو اور بڑی مصیبت اور اس دوران لوگ بگڑ گئے تو عمران خان اور دوسرے حزب اختلاف والوں کے مزے۔ تو میاں صاحب کو ڈار صاحب نے اتنی جلدی اس چکری چکر میں کیوں پھنسایا۔
ویسے ڈار صاحب کے بارے میں تو یہ سب کو معلوم ہی ہے کہ وہ اور بے نظیر بھٹو اور اب زرداری صاحب دبئی کے اعلیٰ ترین پوش علاقے میں ہمسائے ہیں اور زرداری تو کئی دفعہ ڈار صاحب کو یہ کہہ کر بلاتے ہیں کہ ن لیگ میں یہ ہماری نمائندگی کرتے ہیں بلکہ ان کو تو عبوری وزیر عظم بنانے پر بھی زرداری تیار تھے۔ امید تھی کہ کچھ دن تو ڈار صاحب نواز شریف کی حکومت کو ہنی مون کے مزے اڑانے دیں گے اور پھر اگر حالات قابو میں نہ آئے تو نتیجہ تو میاں صاحب نے بھگتنا ہے۔ میاں صاحب تو بڑی اصول پرستی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں مگر اصول اپنی جگہ قانون پر عملدرآمد بھی تو ریاست کا سب سے بڑا اصول ہے۔ اور عدالتیں تو قانون نافذ کرانے کو بیٹھی ہیں۔ ڈار صاحب اربوں خرچ کر کے چکری کلچر ختم کریں گے مگر درمیان میں لوگوں نے اپنے چکر دوبارہ چلانے شروع کر دیئے تو پھر قانون کا ڈنڈا کون کس کے خلاف چلائے گا ۔ ایک دفعہ یہ سرکل ٹوٹا اور پہیہ رکا تو دنوں کی بات ہو گی اور لوڈ شیڈنگ دوبارہ حاضر کیونکہ وجہ تو لوگ ہیں نہ کہ پیداواری صلاحیت یا مشینیں اور ان لوگوں میں جو میاں صاحب کی حکومت سے کسی اور وجہ سے ناراض ہیں، وہ اپنا غصہ بجلی کی پیداوار کم کر کے یا بند کر کے نکالیں گے۔ یہ بلیک میلنگ کا چکری چکر تو ڈار صاحب اور میاں صاحب کی سیاسی اور حکومتی جڑوں میں بیٹھ جائے گا۔ اچھا تو یہ ہوتا کہ ساری بجلی میاں صاحب قومیا لیتے مگر اب اس کے لئے قانون کی حاکمیت اور دبدبہ بٹھانے کی اشد اور فوری ضرورت ہو گی، اور میاں صاحب کو اعلان کرنا ہو گا کہ اگر دوبارہ کسی نے اس گشتی قرضے کے چکر کو کھڑا کیا تو سخت سزا دی جائے گی مگر کاروباری وزیر اعظم نواز شریف سے کسی کاروباری کمپنی یا شخص کو جیل میں ڈالنے یا سزا دینے کی امید نہیں کی جا سکتی ۔ تو بہتر ہے کہ ان چوروں کو پکڑ کر مثالیں قائم کریں جن کی چوری ثابت ہو چکی ہے، اس کام کیلئے نواز شریف یہ الزام اپنے سر نہ لیں۔ اداروں میں ایسے لوگ لگائیں جو بڑے سے بڑے چور سے دبیں نہ گھبرائیں ۔ سیاسی چور تو بہت ہی خطرناک ہوتے ہیں اور بالکل نہیں گھبراتے۔ اب راجا اشرف ہی کو دیکھ لیں آخری دس دنوں میں ہر قانون کی ایسی تیسی کرتے ہوئے ،نو ارب روپے الیکشن لڑنے کیلئے بانٹ دیئے، یہ کہہ کر جس میں ہمت ہے پکڑ لے۔ ہمت تو نواز شریف کو دکھانی ہی پڑے گی مگر ان کے پاس راستہ ہے کہ شعیب سڈل کی طرح کے دبنگ 1 اور دبنگ 2ٹائپ کے نہ بکنے اور نہ جھکنے والے لوگوں کو لگائیں اور پھر ان کے ہاتھ نہ روکیں ۔قانون کا ڈر اگر بحال نہ ہوا تو ڈار صاحب ہر دوسرے مہینے چکری چکر کے چکر میں چکرا رہے ہونگے۔ اور میاں صاحب کا سر بھی گھوم رہا ہو گا ۔ لوگ سڑکوں پر نواز شریف کی حکومت کی شان میں گستاخیاں کرنے پر مجبور ہوں گے۔ لوگ تو گھاس کھانے ابھی سے نکل آئے ہیں۔ میاں صاحب نے شیر بن کر شیروں کے پنجرے میں چھلانگ تو لگا دی ہے مگر ڈنڈا بھی اپنے پاس مضبوط رکھنا ہو گا۔ اور اگر انہوں نے اعتزاز احسن جیسے لوگوں کے مشورے سننا اور ماننا شروع کر دیئے تو اللہ ہی انکی حفاظت کرے۔ یہ اعتزاز صاحب خود کو ایک ہیرو سے زیرو بنا کر اور زرداری کے فرنٹ مین بن کر اب فرماتے ہیں کہ نواز شریف کو بھی اسی طرح کی حکومت کرنی چاہئے جیسے زرداری صاحب کی یعنی مفاہمت کی، صرف اس پالیسی ہی سے نواز شریف اپنی مدت پوری کر سکیں گے۔ کیا خوب مشورہ ہے ،مدت نہ ہو ئی عدّت ہو گئی کہ پوری کرنا ضروری ہے کہیں ہونے والے بچے کی ولدیت پر شک و شبہ نہ ہونے پائے۔ مزا تو پی پی پی نے چکھ لیا مگر جناب احسن صاحب اب بھی کہتے ہیں انکی پارٹی ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے، وہ کیسے یہ انہوں نے نہیں بتایا مگر یہ ضرور کہا کہ ہم دوستوں والی حزب اختلاف نہیں ہوں گے جیسے میاں صاحب ایک فرینڈلی اپوزیشن تھے مگر میاں صاحب کو مفاہمت ضرور کرنی چاہئے۔ اور سیاسی خودکشی کر لینی چاہئے یعنی انکا مطلب ہے کسی پی پی پی کے چور ڈاکو کو میاں صاحب نہ پکڑیں اور جو ا رب کھرب وہ کھا پی گئے، معاف کر دیں خود میاں صاحب اربوں کے مسئلے حل کریں، چاہے آنٹی سے لیں یا ماموں سے مگر ہم سے نہ مانگیں اور ہم ان کی ایسی تیسی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ اب اس کو اگر سٹھیانا نہیں کہتے تو پھر وہ کس چڑیا کا نام ہے۔
تازہ ترین