• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نومنتخب حکومت کو اس وقت سب سے بڑا چیلنج ملک میں انرجی کا بحران ہے، جس سے صنعت و معیشت بری طرح متاثر ہورہی ہے اور صنعتوں کے بند ہونے سے بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ واپڈا کے مطابق بجلی کے بحران کے بعد پانی کی قلت سنگین صورتحال اختیار کرسکتی ہے، جس کیلئے بلاتاخیر نئے ڈیمز کی تعمیر ناگزیر ہے۔ ملک میں 60 ہزار میگاواٹ ہائیڈل پاور بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے لیکن آبی ذخائر تعمیر کرنے کے بجائے یہ پانی سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے جو ایک قومی المیہ ہے۔ انرجی کے بحران سے وقتی طور پر نمٹنے کیلئے حکومت تیل سپلائی کرنے والی کمپنیوں کو کچھ پیسے ادا کردیتی ہے تاکہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کو کسی حد تک کم کیا جاسکے لیکن ان عارضی اقدامات سے بجلی کے بحران پر موثر اور مستقل بنیادوں پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔
ملک میں گرمی میں اضافے کے ساتھ بجلی کی طلب 16,600 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے لیکن ہمارے بجلی گھروں کی خاطر خواہ مینٹی نینس نہ ہونے کے باعث بجلی کی ان کی زیادہ سے زیادہ پیداوار 12,150 میگاواٹ ہے جس کی وجہ سے بجلی کی موجودہ طلب میں 4450 میگاواٹ کی کمی کا سامنا ہے۔ میں نے انرجی کے بحران پر کئی کالم تحریر کئے ہیں جن میں انرجی بحران کے اسباب کی نشاندہی کی ہے جن میں سرکولر ڈیٹ (گردشی قرضے)، بجلی کے نرخوں کی مد میں دی جانے والی حکومتی سبسڈی، بجلی کی چوری، کرپشن، ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں بدانتظامی، فرنس آئل سے مہنگی بجلی پیدا کرنا، پن بجلی اور متبادل توانائی سے کم بجلی کا حصول، ناقص پیداواری صلاحیت کے حامل بجلی گھر، ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن کے ناقابل برداشت نقصانات،واپڈا کے بلوں کی عدم وصولی جس کی بنیاد پر تیل سپلائی کرنے والی کمپنیوں کو بلوں کی عدم ادائیگی سے سرکولر ڈیٹ میں مسلسل اضافے کی وجہ سے ملک توانائی کے بحران سے دوچار ہے اور یقیناً یہ کسی حکومت کیلئے اتنا آسان نہیں ہے کہ قلیل مدت میں ان پر فوری طور پر قابو پایا جاسکے۔مجھے خوشی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے حلف لینے کے دوسرے ہی دن لاہور میں توانائی کے بحران کے حوالے سے ایک اہم اجلاس منعقد کیا جس میں اہم وفاقی وزراء، وزیراعلیٰ پنجاب اور وزارت پیٹرولیم اور پانی و بجلی کے اعلیٰ عہدیداران نے شرکت کی اور پنجاب سمیت ملک بھر میں جاری بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ اور پاور پلانٹس کی کارکردگی کے حوالے سے بریفنگ دی۔ اس اجلاس میں بجلی کے بحران سے نمٹنے کیلئے مختلف تجاویز اور سفارشات بھی دی گئیں اور اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ واپڈا اور وزارت پانی و بجلی کے محکمے میں سفارشی بنیاد پر نااہل لوگوں کو اہم عہدوں پر فائز کیا گیا لہٰذاحکومت نے چیئرمین واپڈا ، ایم ڈی پیپکو سمیت ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے افسران کو ہٹاکر اہل افسران کو لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اجلاس میں وزیراعظم نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ مختلف حکومتی محکموں اور دیگر کمپنیوں کے ذمہ واپڈا کے اربوں روپے کے بقایا جات کی وصولی جلد از جلد کرنے کیلئے سخت سے سخت اقدامات کئے جائیں اور بجلی چوری روکنے کیلئے سخت ترین اقدامات اٹھائے جائیں۔سستی بجلی کی فراہمی کیلئے تمام پاور ہاؤسز کو جلد از جلد کوئلے پر منتقل کیا جائے جس کیلئے 2 بلین ڈالر کی لاگت سے کوئلے سے 5000 میگاواٹ سستی بجلی (8 روپے فی یونٹ) پیدا کر نے کی تجویز ہے جبکہ بجلی کی موجودہ لاگت 14 روپے فی یونٹ ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ انڈیا میں 55% بجلی کوئلے سے پیدا کی جاتی ہے ۔ پولینڈ، جرمنی کے علاوہ ایشیا کی سب سے بڑی معیشت چین 73% بجلی کوئلے سے حاصل کرتا ہے جبکہ پاکستان جسے اللہ تعالیٰ نے 175 بلین ٹن کے (بلیک گولڈ) کوئلے کے ذخائر سے مالا مال کیا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں کوئلے سے بجلی کا حصول نہ ہونے کے برابر ہے۔
قارئین! میں گزشتہ کالموں میں تحریر کرتا آیا ہوں کہ فرنس آئل سے پیدا کی جانے والی مہنگی بجلی پر وفاقی حکومت کو روزانہ ایک ارب روپے دینا پڑ رہے ہیں۔ واپڈا کی بہت زیادہ ٹرانسمیشن ڈسٹری بیوشن نقصانات (چوری)، صارفین سے بجلی کے بلوں کی عدم وصولی، کرپشن اور ادارے کی خراب گورننس اور کارکردگی کی وجہ سے واپڈا کے نقصانات 293 ارب روپے سے بڑھ کر 450 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں لیکن پلاننگ کمیشن کا تخمینہ ہے کہ پاور سیکٹر کا یہ خسارہ رواں مالی سال کے اختتام تک 592 ارب روپے اور مجموعی ملکی سرکولر ڈیٹ جو 2006ء میں 111.26 ارب روپے تھے 42% سالانہ اضافے سے بڑھ کر 2012ء تک872.41 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ 2006ء میں یہ قرضے111.26 ارب روپے، 2007ء میں 144.99 ارب روپے، 2008ء میں 161.21 ارب روپے، 2009ء میں 235.65ارب روپے، 2010ء میں 365.66 ارب روپے، 2011ء میں 537.53 ارب روپے اور 2012-13ء میں 872.41 ارب روپے جو ہماری جی ڈی پی کا 4% بنتا ہے کی خطرناک حد تک پہنچ سکتے ہیں۔پاور سیکٹر کے 592 ارب روپے کے خسارے میں 277 ارب روپے (47%) ٹی اینڈ ڈی نقصانات اور بجلی کی چوری، حکومتی سبسڈی 215 ارب روپے(36%) اور فیول ایڈجسٹمنٹ 100 ارب روپے (17%) شامل ہیں۔ پلاننگ کمیشن نے اس بڑھتے ہوئے سرکولر ڈیٹ کا سبب اداروں کی خراب گورننس، بجلی اور فیول کی قیمتوں کا غلط تعین، بجلی کے بلوں کی عدم وصولی، وزارت خزانہ کی طرف سے سبسڈی کی ادائیگی میں تاخیر اور وزارت پانی و بجلی کی ناقص منصوبہ بندی بتایا ہے۔ یو ایس ایڈ اور پلاننگ کمیشن نے اپنی مشترکہ رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ حکومت کو گزشتہ 5 سالوں میں پاور سیکٹر اور سرکولر ڈیٹ کی وجہ سے تقریباً 10% جی ڈی پی کا نقصان ہوا ہے یعنی ملکی گروتھ میں ہر سال 2% کمی ہوئی ہے۔
پاکستان کا انرجی مکس نہایت مہنگا ہے۔ملک میں فرنس آئل سے تقریباً 64% (21.04 روپے فی یونٹ) اور ہائیڈرو سے 33% بجلی پیدا کی جاتی ہے جبکہ متبادل توانائی سے سستی بجلی کی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے ہماری بجلی کی اوسط پیداواری لاگت زیادہ ہے۔بجلی کے نرخوں کو نہ بڑھانے کے عوض حکومت نے 2008ء سے 2013ء تک واپڈا کو 1.4 کھرب روپے کی سبسڈی دی ہے جو ہمارا قومی خزانہ کسی طرح برداشت نہیں کرسکتا۔ موجودہ بجلی کی فی یونٹ لاگت 14.70 روپے ہے جبکہ حکومت صارفین سے 8.81 روپے وصول کررہی ہے اور اس طرح حکومت 5.9 روپے سبسڈی دے رہی ہے جو مجموعی طور پر 250 ارب روپے سالانہ بنتی ہے۔
انرجی اجلاس میں اہم سفارشات پیش کی گئیں کہ بلوں کی بہتر وصولی کیلئے بجلی صارفین کیلئے پری پیڈ بلنگ سسٹم متعارف کرایا جائے، ہائیڈرو سولر، ہوا، سول نیوکلیئر انرجی، بگاس اور بائیوگیس سے بجلی کے پیداواری منصوبوں کو ترجیح دی جائے۔ 5 سالوں میں قدرتی گیس کی موجودہ پیداوار 4.33 ارب مکعب فٹ کو بڑھاکر 5.12 ارب مکعب فٹ تک لایا جائے جس کیلئے 5 سالوں میں تیل اور گیس کی تلاش کیلئے کھودے جانے والے کنوؤں کی تعداد کو سالانہ 100 سے بڑھاکر 130 کیا جائے گا۔ گیس کے بحران کے خاتمے تک نئے سی این جی اسٹیشنز کے قیام پر پابندی ہوگی، حکومت نے بجٹ میں 60 دن میں 503 ارب روپے کے گردشی قرضوں کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے جس میں 126 ارب روپے OGDC اور PPL کے بونڈز کے اجراء سے، 177 ارب روپے حکومتی اداروں کے قرضوں کی وصولی، 100 ارب روپے بجلی کے نرخوں میں 2.5 روپے فی یونٹ اضافہ کرکے حاصل کئے جائیں گے۔ بجلی پیدا کرنے والی 28نجی کمپنیوں IPPs کو 30 جون تک 250ارب روپے ادا کرنے سے بند پاور ہاؤسز 1500 میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کرنے کے قابل ہوجائیں گے جس سے ماہ رمضان میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی متوقع ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ وفاقی وزیر پلاننگ احسن اقبال نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو قومی اہمیت کا منصوبہ قرار دیتے ہوئے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا اعادہ کیا ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے بجٹ کے فوراً بعد ملکی معیشت کی بحالی کیلئے ویژن 2018ء پیش کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ان اقدامات پر صحیح معنوں میں عملدرآمد سے انرجی کے موجودہ بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
تازہ ترین