• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں مرگی کے 20 لاکھ مریض ،ہر ہزار میں سے 7 بچے مرض میں مبتلا، میرخلیل الرحمٰن سوسائٹی کاسیمینار

کراچی (رپورٹ :بابرعلی اعوان )ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مرگی کے 20 لاکھ مریض ہیں جبکہ ہر ہزار میں سے 7 بچے اس مرض میں مبتلا ہیں۔ مرگی ہونے کی کئی وجوہات ہیں، پیدائشی نقص، دوران حمل پیچیدگی، شدید انفیکشن، گہری چوٹ لگنے یا دماغ کو نقصان پہنچنے سے مرگی ہو سکتی ہے۔ بچوں کی مرگی بڑوں سے مختلف ہوتی ہے اس کی کئی علامات ہیں۔ ان خیالات کا اظہارقومی ادارہ صحت برائے اطفال کے ڈائریکٹر پروفیسر سید جمال رضا، ڈاکٹر شازیہ کلثوم ،ڈاکٹر عاطف سعید انجم ،ڈاکٹر مشعل خان اورپروفیسر خالد محمود نے میر خلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی(جنگ گروپ آف نیوز پیپرز) ، قومی ادارہ صحت برائے اطفال اور ایبٹ لیبارٹریز پاکستان لمیٹڈ کے زیر اہتمام ’’مرگی قابل علاج مرض ہے‘‘ کے موضوع پر منعقدہ عوامی آگہی سیمینار سے خطاب کے دوران کیا۔سیمینار کی نظامت کے فرائض میر خلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی (جنگ گروپ آف نیوز پیپرز) کے چیئرمین واصف ناگی نے سرانجام دیئے۔پروفیسر سید جمال رضا نے کہا کہ مرگی سے متعلق ہمارے معاشرے میں بہت سی توہمات اورغلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ لوگ مرگی کے نام سےخوفزدہ ہوجاتے ہیں حالانکہ یہ ایک قابل علاج مرض ہے اور مریض نارمل زندگی گزار سکتاہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 20لاکھ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔ بچوں میں ہر ہزار میں سے 7بچے اس مرض میں مبتلاہوتےہیں اورملک میں صرف 30فیصد مریض اس کا علاج کراتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ باقی 70فیصد مریض بھی اس بیماری کا علاج کرائیں اور صحت مند زندگی گزاریں۔ ڈاکٹر شازیہ کلثوم نے کہا کہ دنیا بھر میں 8فیصدلوگ مرگی میں مبتلا ہیں اوردنیا میں مرگی کے مریضوں کا 5فیصد حصہ پاکستان میں ہے جن کی تعداد 20لاکھ ہے ۔ 50سے 60فیصد مرگی بچپن سے ہی شروع ہوتی ہے۔ مرگی سے متاثرہ بچوں میں لڑکوں کی تعداد زیادہ ہے۔بچوں میں مرگی کی علامات کئی ہیں۔اگر بچہ پڑھائی میں کمزور ہو اور بیٹھے بیٹھے سن ہو جائے، چھوٹے بچے کی آنکھیں اگر ایک جگہ ٹک جائیں اور ہونٹ بار بار ہلانے اور گھمانے لگے، آنکھوں میں اندھیرا چھاجائے اور کانوں میں سیٹیاں بجنے لگیں تو انہیں مرگی ہو سکتی ہے۔ تاہم بچوں میں مرگی جلد ختم بھی ہو جاتی ہے۔ اگر بچے کو دورہ پڑے تو اس کو کروٹ پر لٹایا جائے، کچھ کھارہا ہو تو منہ سے نکال لیا جائے اور دورہ 3منٹ سے بڑھ جائے تو جلد اسپتال منتقل کیا جانا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مرگی کا علاج دواؤں سے کیا جاتا ہے، تعلیم دی جاتی ہے کہ مرگی کو کیسے کنٹرول کیا جائے، مرگی شدید نوعیت کی ہو تو مخصوص غذائیں بھی دی جاتی ہیں جبکہ حد سے زیادہ شدت میں آپریشن بھی کیا جاتاہے۔ انہوں نے بتایا کہ مرگی کے 66فیصد مریضوں کا علاج وہ لوگ کرتے ہیں جو مستند ڈاکٹر یا ماہر نہیں ہوتے۔ پاکستان میں مریضوں کی بڑی تعداد گاؤں اور دیہاتوں میں رہتی ہے۔ دیہاتوں میں رہنے والے مریضوں کا صرف 8فیصد حصہ اس بیماری کا علاج کراتا ہے۔ اس سلسلے میں ہیلتھ ورکرز اور مریضوں کو آگہی دی جائے۔ ڈاکٹر عاطف سعید انجم نے کہا کہ مرگی کے مرض سے پوری فیملی متاثر ہوتی ہے دورہ پڑنے پر خاند ان کے لوگ خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ دوروں اور مرگی کی تشخیص کرنا مشکل نہیں تاہم اس کا علاج کرنا ، انہیں روکنااور مریض کو بحال کرنا مشکل کام ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مرگی کے مرض میں مبتلا بچوں کو بہت زیادہ اداس ، بہت زیادہ خوش ، بور ہونے، اکیلے پن اور نیند کی کمی سے بچایا جائے کیونکہ ان سے بچوں کو دورے پڑ سکتے ہیں۔ تیز لائٹ، برقی قمقموں، تیز آواز، ڈھول، شہنائیوں اور تیز روشنی والی ٹی اسکرین سے بھی مرگی میں مبتلا بچوں کو دور رکھا جائے کیونکہ اس سے دوروں میں شدت آسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوا نہ لینے، زیادہ لینےیا وقت پر نہ لینے سے بھی دورے پڑ سکتے ہیں تاہم احتیاط سے دوروں کو روکا جاسکتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مرض میں مبتلا بچوں کو معالج کے مشورے کے بعد حفاظتی ٹیکے ضرور لگوانے چاہئیںکیونکہ ٹیکہ نہ لگوانے سے بچہ دیگر بیماریوں میں مبتلا ہو سکتا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ مرگی کے مرض میں مبتلا بچہ نارمل بچوں کی طرح کھیل سکتاہے تاہم کھیل کے دوران اس کی نگرانی ضرور کی جائےاورسوئمنگ اور ایسے کھیلوں سے روکا جائے جن میں چوٹ لگنے کا خدشہ ہو ۔ ان کا کہنا تھا کہ مرگی کے دوروں کے دوران بچہ گردونواح سے لاعلم اور اچانک گم صم ہو جاتا ہے اس لئے والدین کو چاہیے کہ اسکول میں پڑھنے والے بچوں کے اساتذہ اور اسکول انتظامیہ کو ضرور آگاہ کیا جائے۔ ڈاکٹر مشعل خان نے کہا کہ اکثر لوگ مرگی کو مرض نہیں مانتے ان کا اصرار ہوتا ہے کہ مریض کوجن چڑھ گیا ہےاور جعلی پیر وں کے پاس لے جاتے ہیں جو تشدد تک کرتے ہیں۔ ان کا کہناتھا کہ بچوں کو عموماً تیز بخار میں جھٹکے لگتے ہیں جو مرگی کے نہیں ہوتے ۔ جو جھٹکے مسلسل لگ رہے ہوں لمبے عرصےتک ہوں وہ مرگی ہو سکتی ہے ۔ مرگی کے دورے کا دورانیہ عموماً مختصر ہوتا ہے ۔ جوتا سنگھانے سے مرگی کا دورہ ختم نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھاکہ پاکستان میں بچے ابھی تک اسپتالوں کی بجائے گھروں میںپیدا ہوتے ہیں دائیاں اور بڑی عورتیں ناف کو غلط طریقے سے کاٹتی ہیں جس سے تشنج ہوجاتا ہے اکثر و بیشتر بچہ ذہنی معذور ہو جاتا ہےاس لئے گھروں کی بجائے اسپتالوں میں گائناکولوجسٹ سے ڈیلیوری اور معائنہ کرایا جائے۔ پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ اگر کسی بچے کو مرگی ہے تو اس کے والدین کو اسے قبول کرنا چاہیے۔ہم جب تک مرگی کو قبول نہیں کریں گے۔اس کا درست علاج نہیں کرایا جائے گا۔ مرگی کے مریضوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ وہ دنیا میں اکیلے نہیں ہیں لاکھوں افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔ دنیا میں بڑے بڑے نامور افراد مرگی کے مریض تھے جن میں نیوٹن ، نیپولین بوناپاٹ، وین گوپ و دیگر شامل ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک قابل علاج مرض ہے علاج کے ذریعے اچھے اور احسن طریقے سے زندگی گزاری جاسکتی ہے ۔ واصف ناگی نے کہا کہ آج کا سیمینار مرگی سے آگاہی کیلئےمنعقد کرایا گیا تاکہ غلط فہمیوں کو دور کیا جاسکے۔ میر خلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی ( جنگ گروپ آف نیوز پیپرز )اس طرح کے سیمینار کا وقتاً فوقتاً انعقاد کراتی رہتی ہے تاکہ عوام صحت کے مسائل سے متعلق آگاہی حاصل کر سکیں اور خود کو بیماریوں سے محفوظ رکھ سکیں کیونکہ ایک صحت مند گھرانہ ہی صحت مند معاشرہ کی بنیاد رکھتا ہے۔ اس موقع پر ماہرین نے شرکا کے سوالات کے جواب بھی دیئے۔
تازہ ترین