• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان مسلم لیگ(ن) کے اقتصادی منشور کی روشنی میں وفاقی وزیر خزانہ، اقتصادی امور اور نجکاری محمد اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی اورسینٹ میں نئے مالی سال کے بجٹ کااعلان کردیا ہے۔ اس بجٹ کا پاکستانی عوام اور آئی ایم ایف سمیت بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے حکام اور امریکہ، یورپ سمیت مختلف ممالک کے ڈیپلومیٹس کو بھی انتظار تھا۔ حیران کن حد تک بھارتی حکام بھی اس بجٹ کے منتظر تھے۔ وہ اس لئے کہ1990ء میں میاں نواز شریف کی پہلی حکومت کے دور میں جن اقتصادی اصلاحات کا اعلان کیا گیا تھا۔ بعد میں اس وقت کے بھارتی وزیر خزانہ اور وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے انہی اصلاحات کے پس منظر اور اقدامات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی معیشت کو پہلی بار ”آزادی“ دینے کا آغاز کیا تھا۔ اس کے بعد کئی سال تک کی معیشت کی سالانہ ترقی کی شرح 8فیصد سے9فیصد تک رہی جو کہ اب کچھ کم ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں یہ شرح7سے8فیصد سے کم ہو کر اب عملاً ایک سے ڈیڑھ فیصد رہ گئی ہے جبکہ سرکاری اعداد و شمار کے حوالے سے یہ3فیصد کے آس پاس ہے۔ نئے مالی سال کے بجٹ کے لئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار ا ور ان کی فنانس اور ایف بی آر کی ٹیم نے کافی محنت کی ہے،اس لئے بین الاقوامی اداروں کی طرف سے نئی حکومت کو تعاون کے مثبت سگنل ملنا شروع ہوگئے ہیں۔ اب بال پاکستان کی کورٹ میں ہے کہ ہمارے حکام قومی سلامتی اور خود مختاری کا تحفظ کیسے رکھتے ہیں اور عالمی اداروں کی مختلف شرائط سے کیسے جان چھڑاتے ہیں۔ اس وقت تونئے بجٹ میں دستاویزی معیشت کی طرف قدم بڑھانے کی پالیسی کو مثبت قرار دیا گیا ہے۔ اس اقدام پر عملدرآمد کا آغاز وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق کے دور میں1986-87ء میں کیا گیا تھا لیکن ہماری بزنس کمیونٹی نے ان اقدامات کومسترد کردیا تھا۔ بہرحال اب میاں نواز شریف کی حکومت نے اپنی ہی ووٹر برادری کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے ایک سے زیادہ اقدامات کئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بجٹ کی منظوری کے وقت کیا کچھ ا قدامات پر نظر ثانی تو نہیں کرلی جاتی یا پھر حکومت تاجروں اور بزنس مینوں کے دباؤ میں تو نہیں آجاتی۔ نئے بجٹ کے کئی مثبت پہلو ہیں تو کئی پریشان کن بھی ہیں۔
ہمارے ملک میں سرکاری ملازمین کی تعداد20سے22لاکھ کے درمیان ہے۔ اس میں 14 سے 15 لاکھ ملازمین صوبوں میں اور باقی وفاقی اداروں میں ہیں۔ ماضی میں تو انہیں روایتی طور پر15فیصد سے 20 فیصد تنخواہ میں اضافہ مل جاتا تھا۔ اس اضافہ کا بوجھ وفاقی حکومت برداشت کیا کرتی تھی۔ اب اگر ہمارے مالی حالات اتنے ہی خراب تھے تو وفاق کو چاہئے تھا کہ وہ سرکاری ملازمین کو مطمئن کرنے کے لئے ان کی تنخواہوں میں اضافہ تو کردیا جاتا لیکن صوبوں سے کہا جاتا کہ وہ قومی مالیاتی کمیشن کے محاصل میں ملنے والے وسائل میں سے وہ خود یہ اضافی اخراجات برداشت کرلیتے۔ اس سے حکومت کے لئے مستقبل میں پیدا ہونے والے کئی مسائل حل ہوسکتے تھے۔ دوسرا وزیر اعظم میاں نواز شریف اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اس حوالے سے خود بھی احکامات جاری کرسکتے ہیں جبکہ ماضی قریب میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی وزارت خزانہ کی تجویز سے زیادہ شرح کا فیصلہ کرکے ایک روایت قائم کرچکے ہیں۔ کمزور معیشت والے ممالک میں ایسے اقدامات مجبوری میں کرنا پڑتے ہیں لیکن ایسے فیصلے کردینے چاہئے۔ بجٹ میں بڑی مہارت کے ساتھ202ارب روپے سے زائد کے ٹیکسوں کی اضافی آمدنی کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ اس حوالے سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ بجٹ ہمارے عوام کو چار پانچ ماہ کے بعد ہی سمجھ آئیگا۔ اس سلسلہ میں کیپٹل ٹاک میں میزبان حامد میر کے استفسار پر ہمارا ہی جواب تھا، اس حوالے سے بعد میں ایک بین الاقوامی ادارے کے دوست نے واشنگٹن ڈی سی سے فون پر پوچھا تھا کہ کہیں اس سے مراد منی بجٹ تو نہیں ہے تو انہیں بتایا کہ اس کا فیصلہ تو حکومت اور آپ کے اداروں نے کرنا ہے۔ عوام بے چارے تو انہیں برداشت کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کے دوران پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ہمیں محمد اسحاق ڈار کا1997-98کے آخری دنوں میں شائع ہونے والا ایک مضمون یاد آگیا جس کا عنوان ”بحران سے امید“ تھا۔From crisis to hopeوہ اس وقت بھی پیپلز پارٹی کی طرف سے معیشت کی تباہی کے حقائق بیان کررہے تھے اور 12جون کو بھی وہ پیپلز پارٹی ہی کے حالیہ پانچ سالہ دور کے معاشی بدانتظامی حالات کا نقشہ بیان کررہے تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت پیپلز پارٹی کی سربراہی وزیر اعظم مسز بینظیر بھٹو کے پاس تھی اور اب کی بار صدر آصف علی زرداری کو یہ باتیں سننے کو مل رہی تھیں۔ نئے بجٹ میں توانائی کے بحران کے حل کے لئے 258ارب روپے تو رکھے گئے ہیں اور نئے آبی ذخائر بنانے کا اعلان بھی شامل ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس وسائل کا بندوبست کیا مرحلہ وار بجلی کے ٹیرف میں اضافہ سے تو نہیں کیا جائیگا۔ دوسرا نئے آبی ذخائر کے لئے ایک اعلیٰ واٹر کمیشن محترم شمس الملک کی سربراہی میں بنادیا جاتا تو اس سے توانائی کے بحران سے تنگ عوام کو کچھ تسلی ہوسکتی تھی۔ تو شاید اب کالا باغ ڈیم اور دوسرے بڑے ڈیمز بن سکتے ہیں اور عوام کو مہنگی سے مہنگی نہیں سستی بجلی مل سکتی ہے۔ اس سے حکومت مخالف جماعت بھی دباؤ میں آسکتی تھیں۔ بجٹ میں50لاکھ سے70 لاکھ تنخواہ والے افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا اقدام اچھا ہے مگر اس میں تو800-700افراد آتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے لاتعداد امیر طبقے موجود ہیں جنہیں امید کی جاسکتی ہے کہ دستاویزی معیشت کے نظام کو موثر بنا کر کبھی نہ کبھی ٹیکس نیٹ میں لایا جاسکے گا۔ مجموعی طور پر یہ سب کا بجٹ ہے اس میں سب کو کچھ نہ کچھ ملا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ بجٹ کے بعد مہنگائی کا جو نیا ریلا آئیگا اسے بہتر گورننس کے ذریعے کیسے روکا جاسکے گا۔ اصل امتحان حکومت کا بجٹ کے بعد ہی ہے کہ عوام کیسے مطمئن ہوتے ہیں اور انہیں حکومتی اقدامات پر عملدرآمد سے کب تسلی ہوتی ہے۔
یہاں یہ بات قارئین کی دلچسپی کے لئے بتانا ضروری ہے کہ نئی ٹیکس تجاویز میں زیادہ تر تجاویز اور اقدامات 2009/10اور اس کے بعد بھی سابق حکومت کو دی جاتی رہی ہیں مگر اس حکومت نے ان پر عملدرآمد سے گریز کیا تاہم موجودہ حکومت نے معیشت کو مجموعی طور پر صحیح سمت میں رکھنے کے لئے ایک اچھے اقدامات کا آغاز تو کیا بس اب ضرورت ہے کہ حکومت جی ایس ٹی پر ایک فیصد اضافی ٹیکس پر نظر ثانی کرے تو اس سے انہیں سیاسی طور پر کافی فوائد اور معاشی طور پر عوام کو کچھ تسلی ہوسکتی ہے۔
تازہ ترین