• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”سرکاری گاڑی، ہیلی کاپٹر اور دیگر چیزیں ذاتی استعمال میں نہ لینے کا اعلان کرتا ہوں“۔ یہ الفاظ وفاقی وزریر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ ایک بڑے اور اہم عہدے پر متمکن شخص نے سادگی کو فروغ دینے اور سرکاری خزانے کو ذاتی استعمال نہ کرنے کا عہد کیا ہے۔ ہم مسلمان ہیں، ہمارا اسلام تو سادگی کی دعوت دیتا ہے۔ کوئی بھی اچھی چیز ہمیشہ ”اوپر“ سے شروع ہوتی ہے۔ سرکاری خزانہ قومی امانت ہے۔ اس کو عوام کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کیا جاتا ہے۔ امریکہ سے لے کر بھارت تک کے ممالک میں سرکاری خزانے پر انتہائی سخت اور کڑی نگرانی ہے۔ امریکہ کے سابق صدر ریگن کی بیوی وائٹ ہاؤس کے پردے تبدیل کرنا چاہتی تھی۔ ایوان صدر سے اخراجات کی پیشگی منظوری کے لئے سمری جب ایوان نمائندگان میں گئی تو ایوان نے خرچ کی منظوری دینے سے انکار کردیا کہ موجودہ پردوں کو تبدیل کرنے کی منظوری کا مطلب عوام کے پیسوں کا ضیاع ہوگا۔ چنانچہ ریگن کی ساری مدت صدارت ان پرانے پردوں میں گزری حالانکہ نئے پردوں پر خرچ کا تخمینہ صرف ساٹھ ہزار ڈالر تھا جو اس معاشرے میں انتہائی کم شمار ہوتا ہے۔ بھارت کے من موہن سنگھ کی بیٹی اپنی ہم جماعت لڑکی کی اس درخواست پر کہ ”مجھے فلاں سوال کا جواب فیکس کردو“۔ یہ کہہ کر معذرت کرلیتی ہے”وزیراعظم ہاؤس میں فیکس مشین سرکاری ہے، اس کا پرائیویٹ استعمال امانت میں خیانت ہوگا“۔ مجھے کسی یورپی ملک کے میئر کے حالات پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ بیان کرنے والے نے آنکھوں دیکھاحال بیان کیا جب اس کے ناظم آئے تو تنِ تنہا تھے۔ آس پاس سے کوئی آواز بلند ہوئی نہ ہی آداب اور نہ کوئی چاپلوسی و خوشامدانہ جملے۔ صرف ایک بیگ ان کے پاس تھا جس کو وہ خود ہی اُٹھائے ہوئے تھے، اسی میں ان کا سارا سامان بھی تھا۔ کوئی خادم ساتھ نہیں تھا اور گارڈ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عام ٹرین ہی میں سوار ہوکر آئے تھے۔ نہ کوئی نیلی روشنی والے سائرن، نہ ہٹو بچو کا شوروغل اور نہ ہی کوئی لینے آیا۔ اسٹیشن پر اُتر کر عام مسافروں کے ہجوم میں کھو گئے۔ بغیر سفارش اور بغیر وقت لئے ہر شخص بہ سہولت مل کر اپنا مسئلہ بتاسکتا تھا۔ وہ عام شہریوں کی طرح گھوم پھر رہے تھے۔ عام ہوٹل میں ہی کھا پی رہے تھے اور کھلی کچہری ہورہی تھی۔ پیراگوئے کا صدر ہو یا امریکی… یہ سادگی اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے ان ممالک میں عوام خوشحال ہوتے ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ سرکاری خزانے کو ”خالہ جی کا باڑا“ سمجھ رکھا ہے۔ قومی املاک کا اندھا استعمال ہے حالانکہ ہمارے حکمران اس عمر بن خطاب کے نام لیوا ہیں جن کے پاس بسا اوقات دو کپڑے بھی نہیں ہوتے تھے۔ ایک دفعہ نماز میں دیر ہوگئی۔ آپ نے پیغام بھجوایا ”میرے پاس اس وقت ایک ہی جوڑا ہے اور وہ سوکھ رہا ہے۔ کچھ دیر میں خشک ہوجائے گا تو پھر آکر امامت کراؤں گا۔ کچھ دیر انتظار کریں“۔ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت میں عدل و انصاف کا بہترین نظام قائم کرنے کے باوجود آپ خوفِ خدا سے لرزتے رہتے اور کہتے”اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مرجاتا ہے تو قیامت کے دن عمر سے پوچھ ہوگی“۔ ہمارے وزیر مشیر اس عمر بن عبدالعزیز کی حکمرانی کو اپنے لئے آئیڈیل کیوں نہیں بناتے جن کے دورِ حکومت میں کوئی غریب نہیں تھا۔ کوئی صدقہ کا مال لینے والا تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتا تھا۔ اس کے باوجود سرکاری خزانے سے اپنے لئے کوئی سہولت نہ لی۔ وطن عزیز کے کئی سیاستدان سرکاری خزانے سے اربوں روپے یوں ہڑپ کرگئے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ بعض نے ”قومی مفاہمت“ کی آڑ میں بلیک منی کو وائٹ کروالیا اور بعض نے ”کچھ لو کچھ دو“ کی پالیسی اپناکر قومی خزانے پر ہاتھ صاف کیا مگر ملک کا کوئی ایسا ادارہ نہیں جو ان کو قانون کے دائرے میں لائے۔ سرکاری سطح پر اقربا پروری ہے۔ بے ضابطگی ہے۔ بے جا اخراجات ہیں۔ بدترین خیانت ہے۔ کام چوری ہے۔ کرپشن ہے۔ بدعنوانی ہے۔ ظلم وناانصافی ہے، اسمگلنگ، ہیروئن، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، ڈاکہ زنی، ریپ، اغوا، ٹیکس چوری، قتل وغارت ہے۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ ارتکازِ دولت ہے۔ سود، جوا، سٹہ، قمار ہے۔ اس نظام کا منطقی نتیجہ یہی ہے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ سال بہ سال،تاریخ وار اعدادوشمار نکال کر دیکھ لیں۔ ہر سال بلکہ ہر اگلے دن غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔حالات خراب ہی ہوتے جارہے ہیں۔ جب ایسے ہوجائیں تو پھر انقلاب آنے میں دیر نہیں لگتی۔
معاشرے میں غربت، ناانصافی، مہنگائی اور طبقاتی تفریق کے نتیجے میں امیر اور غریب میں خلیج اس قدر بڑھتی جا رہی ہے کہ غریب، غریب تر اور امیر امیر تر ہو رہا ہے۔ سرکاری سطح پر غریب اور امیر کے لئے پیمانے الگ الگ ہیں۔ اگر غریب شخص بینک کا قرض مجبوری کی وجہ سے ادا نہ کرسکے تو اس کی ساری جائیداد ضبط کرکے اسے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے اور جاگیرداروں کے اربوں کھربوں کے قرض بیک جنبش قلم معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ کراچی میں بینک سے چھوٹے قرضے حاصل کرنے والے افراد کی خودکشیاں زیادہ پرانی بات نہیں۔ امیر اور غریب کے درمیان تفاوت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے اگر مقتدر و مالدار لوگ لوٹ کھسوٹ کر کے جیلوں میں بھی جائیں تو وہاں کے مناظر بھی عشرت کدوں سے کم نہیں ہوتے۔ بعض مقتدر لوگ پینے کیلئے بھی پیرس سے منرل واٹر منگواتے ہیں جبکہ غریب مریض کو علاج کیلئے دو ٹکے کی گولی بھی دستیاب نہیں ہوتی اور وزیر کی محض دو دن کی چائے کا بِل چھبیس چھبیس ہزار آتا ہے۔ غریب کی مردہ بچی کیلئے کفن تک نہیں اور مقتدر لوگ پانچ پانچ لاکھ کا سوٹ پہنتے ہیں۔ غریب کیلئے جھونپڑی اور خیمہ تک نہیں جبکہ حکمرانوں کے لئے اربوں کھربوں سے قلعہ نما بنگلے تعمیر ہوتے رہے۔ سرکاری خرچ پر تین تین سو لوگوں کو مفت عمرے کرائے جاتے رہے۔ اپنی حفاظت کیلئے سرکاری خزانے سے آٹھ آٹھ ارب سے باڑیں اور دیواریں بنوائی جاتی رہیں۔ہمارے جتنے حکمران آئے ان میں سے کسی نے بھی سادگی کو اپنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ جیسے جیسے ملک آگے بڑھتا گیا ہمارے حکمرانوں کے اندازِ حکمرانی میں سادگی کے بجائے نمودونمائش اور تعیشات میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ صورتحال یہ رہی کہ ہمارے وزراء کا جہاں سے گزر ہوتا اس راستے پر پولیس کی نفری، سرکاری گاڑیوں کی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں۔ ان حالات میں حکومتی ایوانوں سے اُٹھنے والی چوہدری نثار کی آواز، عہدِ رفتہ کی ہوا کا تازہ جھونکا معلوم ہوتا ہے۔ اللہ کرے کہ وہ اس پر عمل پیرا ہوکر مثال قائم کریں!
تازہ ترین