• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوچا تو یہ تھا کہ سیاسی معاملات پر لاحاصل قلم آرائی کے بجائے عملی و فکری مباحث کے سمندر سے چند قطرے لے کر اپنی تشنگی دور کرنے کی کوشش کروں گا مگر دو اقساط کے بعد ہی پلٹنے کی نوبت آ گئی کیونکہ وسیب اور دھرتی کے تقاضے حائل ہو گئے ہیں۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا اوّلین فرض قومی یک جہتی کی اس خستہ حال عمارت کو سہارا دینا ہے جومحرومیوں اور پسماندگیوں کی دراڑوں سے کمزور پڑ چکی ہے۔ بلوچستان کے ضمن میں میاں صاحب نے جس حکمت و تدبر اور دور اندیشی کا مظاہرہ کیا، اس کا اعتراف نہ کرنا صحافتی بددیانتی اور پرلے درجے کی کم ظرفی ہو گی۔ وفاقی کابینہ کے حوالے سے ناقدین کا یہ اعتراض تونہایت بے جا ہے کہ تمام قریبی عہدوں پر پنجابیوں کو نمائندگی دی گئی ہے اور وفاقی کابینہ میں دیگر صوبوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ظاہر ہے انہیں مینڈیٹ پنجاب سے ملا باقی تینوں صوبوں سے ان کی کامیابی کا تناسب کم تھا۔ تو کیا اب وہ دیگر جماعتوں کو وزارتیں بانٹ دیں؟ لیکن دانستہ یا غیر دانستہ طور پر مسلم لیگ (ن) کے اکابرین پنجاب کا احساس محرومی بڑھاتے جا رہے ہیں۔ آپ اس جملے پر متعجب ہوں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ بلوچوں پختونوں اور سندھیوں سے کہیں زیادہ سوتیلا پن پنجاب کے مخصوص علاقوں میں روا رکھا جا رہا ہے جس طرح باقی صوبوں کی حق تلفی ہوتی چلی آئی ہے اسی طرح جنوبی پنجاب کو بھی ہر دور میں جائزحق سے محروم رکھا گیا جس کی بنیاد پر تلخیاں اس قدر بڑھیں کہ محرومی کا شکار لوگوں نے تخت لاہور کی پھبتی کسنا شروع کر دی۔ میں اختصار کے پیش نظر لاہور اور ملتان کا موازنہ نہیں کرنا چاہ رہا کیونکہ ”راجہ بھوج“ اور ”گنگو تیلی“ کا فرق سب کو معلوم ہے۔ توقعات کے برعکس مسلم لیگ (ن) جنوبی پنجاب سے بھرپور انداز میں کامیاب ہوئی تو جانوروں کے ساتھ ایک ہی جوہڑ پر پانی پیتے سوختہ سامانوں نے سوچا کہ اب یقیناً سوچ کا دھارار بدلے گا اور ان کے ساتھ روا رکھی جا رہی زیادتیوں اور ناانصافیوں کا ازالہ ہوگا لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ اگر میں خوشاب‘ میانوالی‘ بھکر‘ ڈی جی خان‘ راجن پور‘ لیہ‘ مظفر گڑھ‘ ملتان‘ خانیوال‘ وہاڑی‘ لودھراں‘ بہالپور اور رحیم یار خان کو جنوبی پنجاب کا حصہ سمجھوں تو ان 13 اضلاع سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار قومی اسمبلی کی 36 نشستوں پر کامیاب ہوئے۔
مسلم لیگ (ن) نے مجموعی طورپر قومی اسمبلی کی 104جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور اسے اقلیتوں کے کوٹے پر 6 جبکہ خواتین کے لئے مخصوص 33نشستیں ملیں اگر انصاف کے تقاضوں کو مدنظررکھا جاتا تو خواتین کے لئے مخصوص نشستوں میں سے ساڑھے تیرہ نشستیں جنوبی پنجاب کو دی جاتیں مگر اقلیتوں کے کوٹے پر جنوبی پنجاب کے حصے میں کوئی سیٹ نہ آئی اور خواتین کی مخصوص نشستوں پر بھی جنوبی پنجاب سے صرف 5 خواتین کو نمائندگی دی گئی۔ امتیاز کا یہ عالم ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی وہ 35 خواتین جو مخصوص نشستوں پر قومی اسمبلی میں آئیں ان میں سے 25 کا تعلق اسلام آباد‘ لاہور اور راولپنڈی سے ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جنوبی پنجاب کی محرومیاں دور کرنے کے لئے بھی ایثار کا رویہ اختیار کیا جاتا مگر جائز حق سے بھی محروم کر دیا گیا۔ جب پنجاب کی 21 رکنی کابینہ نے حلف اٹھایا تو ایک مرتبہ پھر حق تلفی کا شاندار مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ صرف لاہور کے حصے میں 6(بشمول وزیراعلیٰ پنجاب جن کے پاس 8وزارتوں کے قلمدان ہیں) صوبائی وزارتیں آئیں مگر پورے جنوبی پنجاب سے صرف 5 وزراء لئے گئے ملتان جہاں صوبائی اسمبلی کے 13 حلقے ہیں وہاں صرف ایک غیر اہم وزارت دی گئی اور اعجاز احمد نون جیسے با صلاحیت افراد کو نظرانداز کر دیا گیا۔ پنجاب کے 36 اضلاع میں سے 20 اضلاع ایسے ہیں جن کے منتخب نمائندوں کو کسی قابل نہیں سمجھا گیا اور تمام نوازشات صرف 16 اضلاع تک محدود رہیں۔ میں سردار ذوالفقار علی کھوسہ کے طرزِ سیاست کا ناقد رہا ہوں اور اپنے خیالات کا اظہار ”میٹرو بس“ کے حوالے سے لکھے گئے کالم میں برملا کہہ چکا ہوں مگر یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ان کی جماعت نے اپنے دیرینہ رفیق کو کیونکر دیوار سے لگا دیا؟ اگر ان کے بیٹوں نے پارٹی کی پشت میں چھرا گھونپا تو اس میں ان کا کیا قصور ہے ‘ وہ تو اپنے ناخلف بیٹے کے خلاف ڈٹ گئے اور ہر کڑے وقت میں اپنی قیادت کا ساتھ دیا۔وفاق میں بھی جنوبی پنجاب کو امتیازی سلوک کا سامنا رہا اور حصہ بقدر جثہ کا فارمولا بھی نہیں اپنایا گیا۔ 25رکنی وفاقی کابینہ میں وزارت عظمیٰ‘ اسپیکر قومی اسمبلی‘ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی‘ وزیراعظم کے مشیران اور معاونین خصوصی کو بھی شامل کر لیا جائے تو ان کلیدی عہدوں کی تعداد 32 بنتی ہے۔ مساوی نمائندی کی رو سے جنوبی پنجاب کے حصے میں 12 وزارتیں آتیں لیکن قرعہ فال صرف دو افراد کے نام نکلا‘ ملتان سے منجھے ہوئے پختہ کار پارلمنٹیرین سید جاوید علی شاہ کو وفاقی کابینہ میں نہ لئے جانے کی توجیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ انہوں نے (ن) لیگ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ اگر پرویز مشرف کی کابینہ سے سکندر حیات بوسن اور زاہد حامد کو مستعار لینے والی حکومت یہ عذر پیش کرے تو اسے مضحکہ خیز لطیفہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ وفاقی کابینہ لاہور سے براستہ جی ٹی روڈ چلتی ہوئی راولپنڈی پہنچتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے وزراء تیار کرنے کے لئے پیداواری یونٹ لاہور‘ شیخوپورہ‘ گوجرانوالہ ‘ سیالکوٹ اور نارووال میں ہی لگے ہوئے ہیں اور باقی پنجاب کے نوجوان محض اس قابل ہیں کہ انہیں کالی پیلی ٹیکسی دے دی جائے یا لیپ ٹاپ بانٹ دیئے جائیں۔جب جنوبی پنجاب کے لوگ ان ناانصافیوں کی نشاندہی کرتے ہیں تو نہایت بھونڈے انداز میں ایک ہی جواب ملتا ہے کہ لسانی و علاقائی تعصبات کی بات نہ کریں میرٹ کو فروغ دیں‘ ایسے عہدوں پر تعیناتی کوٹہ سسٹم کے تحت نہیں ہوتی‘ قابلیت اور اہلیت کو دیکھا جاتا ہے۔ اس متکبرانہ انداز پر پنجابی کی ایک ضرب المثل یاد آتی ہے کہ جیہدے گھر دانے‘ اوہدے کملے وی سیانے (جس کے گھر اناج ہو اس کے کم عقل بھی عقلمند شمار ہوتے ہیں)۔ جن لوگوں کا خیال ہے کہ قائدانہ اوصاف صرف وسطی اور بالائی پنجاب کے خمیر میں شامل ہیں اور جنوبی پنجاب کی سرزمین بانجھ ہے‘ وہ بنگلہ دیش اور پاکستان کا موازنہ کر کے دیکھ لیں۔ بنگالیوں کو بھی کوڑھ مغز‘ بددماغ‘سست الوجود‘ کاہل اور کام چور سمجھا جاتا تھا مگر سقوط ڈھاکہ کے بعد معلوم ہوا کہ ناٹے قد کے بنگالی طویل القامت اور خوبرو پنجابیوں سے زیادہ جفاکش اور با صلاحیت تھے۔ کل تک بلوچوں کو یہی کورا جواب دیا جاتا تھا کہ تم تو کوٹے کی پیداوار ہو‘ اگر ہمت ہے تو مقابلہ کرو اور میرٹ پر اپنی جگہ خود بنا لو۔ لیکن مسابقت کا اولین تقاضا تو یہ ہے کہ پہلے یکساں وسائل‘ یکساں مواقع فراہم کئے جائیں اور پھر اکھاڑے میں اتارا جائے مگر ٹاٹ اسکولوں میں بھینسوں کے ساتھ تعلیم پانے والے جنوبی پنجاب کے نوجوانوں کو ایچ ای سونینزاور راویئنز کے ساتھ مقابلے کے امتحان میں بٹھا کر نااہلی کا طعنہ دینا کہاں کا انصاف ہے۔ پھربھی اس دھرتی نے سیدعطا ء اللہ شاہ بخاری جیسے عالم دین اور جادو بیاں خطیب پیدا کئے اور نواب زادہ نصر اللہ خان جیسے بابائے جمہوریت کو جنم دیا۔ ملتان کا ایک دور افتادہ اور پسماندہ قصبہ ظریف شہید جومعروف سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی کے حوالے سے مشہور ہے اس چھوٹے سے قصبے نے کئی نامور افراد پیش کئے۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ شیر مسلم لیگ (ن) کا محض انتخابی نشان ہی ہے مگر افراط و تفریط کا عالم دیکھ کر تو یوں لگتا ہے جیسے واقعی جنگل کا قانون چل رہا ہے۔
تازہ ترین