• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حال ہی میں پی ٹی آئی حکومت نے گزشتہ ڈھائی سال میں چوتھا وزیر خزانہ مقرر کیا ہے۔ اس سے پہلے 3وزیر خزانہ تبدیل کئے گئے ہیں جن میں اسد عمر، عبدالحفیظ شیخ اور حماد اظہر شامل ہیں اور اب شوکت ترین کو یہ منصب دیا گیا ہے۔ شوکت ترین ایک سینئر بینکر ہیں اور 1997 میں نواز شریف حکومت کے کہنے پر پاکستان آئے اور حبیب بینک کی کامیاب تنظیم نو کی جس کے نتیجے میں حبیب بینک 230 ملین ڈالر کے خسارے سے 30ملین ڈالر منافع میں آگیا۔ وزیراعظم شوکت عزیز کی حکومت میں انہیں دو مرتبہ کراچی اسٹاک ایکسچینج کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور حکومت میں سندھ سے سینیٹر منتخب ہونے کے بعد 2008میں وزیر خزانہ مقرر ہوئے لیکن فروری 2010 میں اپنے بینک کا کاروبار بڑھانے کیلئے وزیر خزانہ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ شوکت ترین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے صوبوں کے ساتھ مل کر قومی مالیاتی کمیشن (NFC) ایوارڈ تشکیل دیا جس میں صوبوں کے وسائل کا حصہ بڑھایا گیا جس کی وجہ سے وفاق کے پاس اخراجات کیلئے اب رقم کم رہ جاتی ہے جس کے باعث این ایف سی ایوارڈ میں ترمیم کی باتیں کی جارہی ہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت نے اپنی اقتصادی ٹیم میں اس وقت تبدیلیاں کی ہیں جب پاکستان اگلے مالی سال کیلئے قومی بجٹ کی تیاری اور آئی ایم ایف کی طرف سے تجویز کردہ معاشی و مالیاتی اصلاحات پر عملدرآمد حکومت کیلئے سخت امتحان ثابت ہورہا ہے۔ عمران خان نے جب حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ 5.8فیصد سالانہ تھی لیکن گزشتہ سال جی ڈی پی گروتھ کم ہوکر منفی 0.4فیصد ہوگئی جبکہ رواں مالی سال حکومت کا معاشی گروتھ کا ہدف 3فیصد ہے تاہم آئی ایم ایف کے مطابق 2020-21 میں پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ 1.5فیصد اور ورلڈ بینک نے پاکستان کی رواں مالی سال جی ڈی پی گروتھ 1.3فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔ معاشی گروتھ بہترکرنے کیلئے شوکت ترین کو وزیر خزانہ بنانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کو اب یہ احساس ہوچکا ہے کہ اُس نے گزشتہ ڈھائی سالوں میں اصلاحات کے نام پر گروتھ میں کمی اور معیشت میں سکڑائو پیدا کیا ہے جس کے نتیجے میں بیروزگاری اور مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے لہٰذا حکمراں جماعت باقی مدت میں اپنی غلطی ٹھیک کرکے تیز معاشی گروتھ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ نئے وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کیلئے آئندہ برسوں میں 6سے 7فیصد جی ڈی پی گروتھ حاصل کرنا ہوگی۔انکے مطابق وفاقی حکومت نے گزشتہ دو سالوں میں ترقیاتی کاموںپربہت کم خرچ کیا۔ اس کے علاوہ وہ تیز معاشی گروتھ کیلئے سی پیک کا پورا استعمال کرینگے جس میں اسپیشل اکنامک زونز میں چین سے صنعتوں کی منتقلی شامل ہے۔ میں نئے وزیر خزانہ کی ایکسپورٹ گروتھ کے ذریعے بلند جی ڈی پی گروتھ حاصل کرنے کی حکمت عملی سے اتفاق کرتا ہوں۔ نئے وزیر خزانہ کو درپیش چیلنجوں میں بڑھتے ہوئے بیرونی قرضے ہیں جو 115ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں اور حکومت کو2020-21 میں 25 ارب ڈالر اور2021-22 میں 23ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنے کے ساتھ زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر کو بھی مستحکم رکھنا ہے۔ اس کے علاوہ 4200ارب روپے کے ریکارڈ گردشی قرضوں اور خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں اسٹیل ملز، پی آئی اے اور واپڈا کی نجکاری کرنے کے بجائے حکومت نے ان اداروں پر گزشتہ 2سالوں میں قومی خزانے سے ایک ہزار ارب روپے جھونک دیئے۔ حکومت نے ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے ایکسپورٹرز کو جون 2021تک بجلی اور گیس کے نرخوں کا رعایتی پیکیج دیا تھا جس سے ایکسپورٹس میں اضافہ دیکھنے میں آیا لیکن آئی ایم ایف کو یہ مراعاتی پیکیج قبول نہیں جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل پالیسی کا اعلان رکا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں، میں مشیر تجارت عبدالرزاق دائود کی کاوشوں کو سراہتا ہوں۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کی معاشی صورتحال کو 4بڑے خطرات ہیں۔ کورونا کی تیسری خطرناک لہر کی وجہ سے عالمی غیر یقینی معاشی صورتحال جس سے پاکستان کی جی ڈی پی، ایکسپورٹس اور ترسیلات زر متاثر ہوسکتی ہیں۔ دوسرا ناقابلِ برداشت حد تک قرضوں میں اضافہ اور ان کی ادائیگیاں، تیسرا FATF کے ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے آئی ایم ایف کے پروگرام پر پڑنے والے منفی اثرات جن سے نئے قرضوں کے حصول اور سرمایہ کاری میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔ چوتھا تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور ملک کی سیاسی صورتحال ہے لہٰذانئے وزیر خزانہ کو نہایت مشکل چیلنجوں کا سامنا ہے لیکن شوکت ترین کی جارحانہ شخصیت اور وزیراعظم کا اعتماد دیکھتے ہوئے اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے سخت پروگرام میں رہتے ہوئے ملک کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے اور ملکی معیشت بحال کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

تازہ ترین