• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روٹی، کپڑا، مکان، روشنی، پانی اور علم کی منتظر قوم کیلئے حیرت انگیز خوش خبری مجھ تک پہنچی ہے۔ اپنے جیسے کروڑوں بہن بھائیوں کی بھلائی کی خاطر یہ خوش خبری حاصل کرنے کے لئے مجھے منوں دال پسوا کر پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔ دال میں کافی کنکر تھے۔ لہٰذا پسوانے سے پہلے چن چن کر دال سے کنکر نکالے گئے تھے تاکہ خوش خبری بغیر کسی بدمزگی کے آپ تک پہنچے۔ نوالہ چباتے ہوئے اگر دانت کے نیچے کنکر آ جائے تو کھانے کا مزہ کرکرا ہو جاتا ہے۔ خوش خبری میں اگر ذرہ برابر شک کی گنجائش ہوتی تو میں خود اس خوش خبری کو شرارت سمجھ کر مسترد کر دیتا اور آپ کو کبھی نہیں سناتا۔ اسے شوشہ سمجھ کر درگزر کر دیتا۔ مگر بھائیو اور بہنو بین الاقوامی سطح پر چھان بین کرنے کے بعد میں نے تصدیق کر لی ہے کہ خوش خبری میں قطعی کسی شک کی گنجائش نہیں ہے یہ خوش خبری سچ ہے اور سچ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آپ اس خوش خبری پر آنکھیں بند کر کے آپ یقین کر سکتے ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ تقریباً پندرہ برس پہلے میاں نواز شریف ہیوی مینڈیٹ لے کر دوسری مرتبہ ملک کے وزیراعظم بنے تھے۔ تب انہوں نے بلوچستان میں ایک پہاڑ پر ایٹم بم داغ دیا تھا۔ ہو سکتا ہے وہ ایٹم بم تھا! مجھے ٹھیک سے یاد نہیں۔ جس چیز نے پہاڑ کے پرخچے اڑا دیئے تھے وہ ایٹمی چیز تھی۔ وہ Weapon of mass destruction یعنی بہت بڑے پیمانے پر تباہی مچانے والا کوئی ہتھیار تھا۔ ایسا ہی ایک ایک ایٹم بم امریکہ نے جاپان کے دو شہروں ہیرو شیما اور ناگاساکی پر گرائے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں شہر راکھ کا ڈھیر ہوگئے تھے۔ لاکھوں مرد، عورتیں اور بچے اجل کا شکار ہوگئے تھے۔ دنیا دنگ رہ گئی تھی۔ اس واقع کا مہینہ تھا اگست اور سن تھا 1945۔ معرکہ کا سبب تھا دوسری جنگ عظیم۔ جس پہاڑ پر ایٹمی دھماکہ کیا گیا تھا اس پہاڑ کا نام شاید چاغی تھا۔ دھماکہ کرنے سے پہلے تصدیق کر لی گئی تھی کہ پہاڑ پر کوئی گاؤں یا خانہ بدوشوں کی بستی نہیں تھی۔ تصدیق کرنے کے بعد دھماکہ کیا گیا تھا انسانی جاں کا نقصان نہیں ہوا تھا۔ ایٹمی دھماکہ میں کتنے چرند اور پرند مارے گئے تھے؟ کوئی نہیں جانتا۔ کیا وہاں نباتات، درخت اور جڑی بوٹیوں کے پودے تھے جن سے دوائیں بنتی ہیں؟ کوئی نہیں جانتا۔ یہ جو بلوچستان میں پچھلے سڑسٹھ برسوں سے بے چینی پائی جاتی ہے وہ بے مقصد اور بے معنی نہیں ہے۔ بلوچستان کے پہاڑوں میں معدنیات، نایاب پتھر اور نگینوں اور قیمتی دھات، تانبے، چاندی اور سونے کے لامحدود ذخائر ہیں۔ گیس اور تیل کے ذخائر ہیں۔ کہتے ہیں کہ انہی پہاڑوں میں یورینیم بھی ہے جو ایٹمی توانائی کا جوہر ہے جس سے ایٹم بم بھی بنائے جا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوٹ کھسوٹ، چھینا جھپٹی اور استعمال کرنے والے طاقتور ملکوں کی نگاہیں بلوچستان پر جمی ہوئی ہیں۔ بلوچستان میں جو آگ لگی ہوئی ہے وہ انہی ممالک کی لگائی ہوئی ہے۔ اس قدر قدرتی وسائل سے مالا مال پاکستان کا اور کوئی صوبہ نہیں ہے۔ سب سے زیادہ دولت مند صوبے میں غربت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔
بلوچستان کا وہ پہاڑ جس پر ایٹمی دھماکہ کیاگیا اس میں کیا تھا؟ سونا،چاندی، ہیرے، جواہر؟ کیا تھا؟ کوئی نہیں جانتا۔ لوگ سمجھ رہے تھے کہ ایٹمی دھماکے کے بعد پہاڑ پھٹ پڑے گا۔ اور ہر طرف سونا، چاندی، ہیرے اور جواہر بکھر جائیں گے۔ لوگ ہیرے جواہر سے جھولیاں بھر لیں گے۔ چاندی اور سونے سے بوریاں بھر کر گدھوں اور خچروں پر لاد کر لے جائیں گے! لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ دھماکے کی جوہری توانائی نے پہاڑ کو اندر سے جلا کر کھوکھلا کر دیا۔ اگر پہاڑ میں معدنیات اور قیمتی پتھر اور نگینے تھے تو وہ مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہوں گے۔ ان دنوں میں اسلام آباد کے بن باس میں تھا۔ ہر طرف رواں ہی رواں دکھائی دیتے تھے۔ مجھے سیتاکی فکر نہیں تھی۔ مجھے اس لئے سیتا کی فکر نہیں تھی کہ میں رام نہیں تھا میرے پاس سیتا نہیں تھی۔ میرے پاس گیتا نہیں تھی۔ رام نے بن باس میں چودہ برس گزارے تھے۔ اور میں نے اسلام آباد کے بن باس میں اٹھائیس برس گزارے تھے اور وہ بھی سیتا کے بغیر۔ اسلام آباد کے بن باس میں ایک اور بھی بن باسی میری طرح مارا مارا پھرتا تھا۔وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ جیولوجسٹ تھا۔ اس کا نام تھا ستار میمن، جیولوجسٹ تھا جیولوجسٹ پہاڑوں، پتھروں، معدنیات،قیمتی پتھروں، دھات وغیرہ کی کھوج کے سائنسدان ہوتے ہیں۔ جیولوجی کے محکمہ میں سینئر عہدہ پر کام کرتا تھا۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ دھماکے سے پہلے جیولوجی محکمہ سے کسی قسم کا مشورہ نہیں لیا گیا تھا۔
دھماکے کے دوسرے روز کراچی سے بچو بھائی کا فون آیا تھا۔ بچو بھائی نے کہا تھا۔ ”ایٹمی ہتھیار اور بم پہاڑوں پر برسانے کیلئے نہیں بنائے جاتے۔ تم حکومت کے کسی معتبر کل پرزے سے پوچھنا کہ ایٹم بم تو انسانوں پر برسانے کیلئے بنائے جاتے ہیں۔ ایک پہاڑ پر ایٹمی دھماکہ کرنے سے کیسے اندازہ ہوا کہ اسی طرح کا دھماکہ اگر دشمن کے کسی شہر پر کیا جائے تو اس دھماکہ سے کتنے لاکھ مرد، عورتیں اور بچے ایک منٹ میں مارے جائیں گے۔“
اس سلسلے میں جب بھی میں نے حکو مت کے کسی کل پرزے سے بات کرنے کی کوشش کی، وہ مجھے مٹھائی کھاتے ہوئے ملا۔ حکومت کے کل پرزوں کے منہ میں لڈو، گلاب جامن اور پیڑے ٹھونسے ہوئے ہوتے تھے اور وہ ایٹمی دھماکے کے بارے میں بول نہیں سکتے تھے۔
عقل مند آدمی ایک ہی تجربہ سے بہت کچھ سیکھ لیتا ہے۔ اربوں روپے کی لاگت سے بنائے گئے بم پہاڑوں پر نہیں برسائے جاتے۔ اس سے بموں کی تباہ کاریوں کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ گل و گلزار اور ہنستے بستے شہر پر گرانے کے بعد بم کی تباہ کاری کا تصدیق شدہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دھماکے کرنا میاں صاحب کا شوق ہے۔ ہیوی مینڈیٹ لے کر تیسری مرتبہ وزیر بننے کے بعد میاں صاحب نے ایک مرتبہ پھر ایسا ہی دھماکہ کرنے کی ٹھان لی ہے۔ پہلی غلطی سے سبق حاصل کرنے کے بعد اس مرتبہ میاں صاحب پہاڑ، سمندر یا ریگستان پر بم نہیں گرائیں گے۔ اس مرتبہ میاں صاحب بم پاکستان پر گرائیں گے۔ اس بم کے گرتے ہی بڈھوں کے سفید بال کالے ہو جائیں گے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کے منہ میں موتی جیسے دانتوں کی بتیسی لگ جائیگی۔ ان کے چہرے کی جھریاں غائب ہو جائیں گی۔ وہ دوبارہ جوان بلکہ نوجوان ہو جائیں گے۔ بند اسکول کھل جائیں گے۔ اسپتال میں چاق و چوبند نرسیں اور ڈاکٹر مریضوں کی دیکھ بھال کریں گے۔ بیروزگاروں کو روزگار، بھوکوں کو روٹی، پیاسوں کو پانی اور خانہ بدوشوں کو گھر مل جائیں گے۔ اعلیٰ تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی میں پاکستان دنیا کے صف اول کے ممالک میں شامل ہو جائیگا۔ داداگیری، چھینا جھپٹی، سینہ زوری، مافیا گیری، دھاندلی، رشوت خوری، قتل و غارت گری کے کلچر کا خاتمہ ہو جائیگا۔ لوگوں کو کھوئی ہوئی عزت نفس مل جائے گی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کا گرین پاسپورٹ دیکھ کر غیرملکی ہوائی اڈوں پر کوئی آپ کو بھکاری اور دہشت گرد نہیں سمجھے گا۔
تازہ ترین