• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ کالم لکھنے سے ایک دن پہلے کوئٹہ میں جو کچھ ہوا اور جس طرح خواتین یونیورسٹی کی بس میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکے اور بولان میڈیکل کمپلیکس میں خودکش حملے میں ڈپٹی کمشنر سمیت 14 معصوم طالبات کے جاں بحق ہونے والے واقعہ کے نتیجے میں دل خون کے آنسو بہا رہا ہے‘ شاید سارے ملک میں یہ کیفیت ہو۔ اطلاعات کے مطابق لشکر جھنگوی نامی تنظیم نے اس شرمناک واقعہ کی ذمہ درای قبول کی ہے‘ یہ لوگ مسلمان تو کیا انسان کہلانے کے بھی قابل نہیں‘ یہ تو وحشی ہیں‘ ان کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہئے جو خونخوار جانوروں کے ساتھ ہوتا ہے‘ ہونا تو یہی چاہئے تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف‘ صدر آصف علی زرداری‘ عمران خان سمیت ساری سیاستی جماعتوں کی قیادت کی طرف سے آج کے دن اس خونخوار واقعہ کے خلاف ملک بھر میں یوم سیاہ منایا جاتا‘ مگر افسوس ایسا نہیں ہوا‘ فقط بلوچستان میں یوم احتجاج منایا جارہا ہے‘ عوام کی نظریں مذہبی جماعتوں اور خاص طور پر وزیر اعظم نواز شریف اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف اٹھی ہوئی ہیں کہ اب ان کا ردعمل کیا ہوتا ہے‘ کیا اب وہ سب مل کر ان انتہا پسند تنظیموں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن شروع کرنا چاہیں گے‘ یا اب بھی وہ یہ شرط رکھیں گے کہ پہلے ڈرون حملے بند کیے جائیں‘ بیشک ڈرون حملے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے‘ مگر کیا ڈرون حملوں کی مخالفت کے ساتھ ساتھ ان وحشیوں کے خلاف آپریشن شروع نہیں کیا جاسکتا ۔؟ علاوہ ازیں پاکستان کی حدود میں موجود بیرون ملک عناصر جو عالمی دہشت گرد ہیں اور جو انتہائی جدید اسلحہ سے لیس ہیں کا خاتمہ پاکستان کی ریاست کی ذمہ داری نہیں ہے ۔؟ اس کے بعد ہم ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے چھوٹے بڑے سیاسی واقعات کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ ایک بات ریکارڈ پر لانا بہت ضروری ہے کہ پیپلز پارٹی جو فی الحال سندھ تک محدود ہوکر رہ گئی ہے کی قیادت نے ماضی سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا‘ سندھ کی 5,6 رکنی کابینہ کی طرف سے حلف اٹھانے کے 10-12 دن گذرنے کے بعد ابھی تک دو وزراء کے علاوہ باقی وزیروں کو کوئی محکمہ الاٹ نہیں کیا جاسکا‘ اسے کیا کہا جائے۔؟ ”اہلیت کی انتہا“ یا جس طرح سیاسی حلقوں میں اطلاعات گردش کررہی ہیں کہ محکمہ الاٹ نہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ اکثر وزراء ایسے محکمے چاہتے ہیں جو سونے کی کان ثابت ہوں۔ اگر یہ بات درست ہے تو جتنا افسوس کیا جائے اتنا کم ہے۔ علاوہ ازیں جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں اس دن پی پی ایک ایسے مشن پر ہے جسے سندھ کے لوگ پسند نہیں کرتے‘ اگر یہ مشن کامیاب ہوتا ہے اور جس کے کامیاب ہونے کے قوی امکانات ہیں کیونکہ سندھ کے ”سابق وائسرے“ کی جوڑ توڑ کے نتیجے میں یہ سب کچھ ہورہا ہے تو امکانات ہیں کہ سندھ کے عوام اور پی پی کے درمیان فاصلے بہت بڑھ جائیں گے‘ سندھ کی فکر رکھنے والے مبصرین کو اندیشہ ہے کہ اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو سندھ میں ایک بڑا سیاسی خلا پیدا ہوجائے گا‘ ایک خیال یہ تھا کہ اگر یہ سیاسی خلا پیدا ہوتا ہے تو سندھ کی قوم پرست قوتیں اس خلا کو پر کرسکتی ہیں مگر خود سندھ کی قوم پرست تنظیموں کی جو اندرونی کہانیاں سامنے آرہی ہیں ان کے مدنظر یہ تنظیمیں اگر اپنا وجود برقرار رکھ سکیں تو بڑی بات ہے‘ تو پھر یہ سیاسی خلا کون سی سیاسی قوت بھر سکتی ہے‘ انتخابات کے بعد کچھ سیاسی مبصرین کا خیال تھا کہ یہ خلا کسی حد تک مسلم لیگ نواز بھرسکتی ہے مگر نواز لیگ کی طرف سے سندھ کے بارے میں جو بے اعتنائی اختیار کی گئی اس کے مدنظر سندھ کے اندر نواز لیگ اور خاص طور پر نواز شریف سے وابستہ ٹوٹی پھوٹی توقعات ختم ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں‘ تو پھر سندھ کے لوگ کس کے ساتھ جائیں گے۔؟ واقعی یہ ایک سوال ہے‘ اگر یہ تجزئیے درست ثابت ہوتے ہیں تو سمجھنا چاہئے کہ فی الحال سندھ کے لوگ دوراہے پر کھڑے ہوئے ہیں‘ ایسی حالت میں سندھ کے لوگوں کو شاید کسی خاص رخ میں کوئی اہم اور دشوار سفر شروع کرنا پڑے‘ سندھ اور چھوٹے صوبوں کے بارے میں مسلم لیگ نواز کی بے اعتنائی کی ایک اور مثال سامنے آئی ہے‘ آئین کے آرٹیکل (1)156 کے تحت وزیر اعظم کے مشورے پر صدر کو قومی اقتصادی کونسل تشکیل دینی ہوتی ہے‘ اس آرٹیکل کی ذیلی شقوں کے تحت وزیر اعظم چار وفاقی وزراء کو کونسل کے ممبر نامزد کرنے ہوتے ہیں‘ پاکستان چونکہ ایک وفاق ہے لہٰذا چاروں وفاقی وزراء کا تعلق چار مختلف صوبوں سے ہوتا رہا ہے‘ گذشتہ پی پی کی حکومت میں بھی کونسل میں ہر صوبے سے تعلق رکھنے والا وفاقی وزیر کونسل کا ممبر تھا مگر اس بار وزیر اعظم نواز شریف نے فقط ایک چھوٹے صوبے سندھ سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر غلام مرتضیٰ جتوئی کو کونسل کے ممبر کے طور پر نامزد کیا جبکہ باقی تینوں ممبر پنجاب سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزراء ہیں‘ مرتضیٰ جتوئی کے بارے میں شک ہے کہ وہ سندھ کے کیس کی وکالت کرسکیں گے‘ یہ سب کچھ دیکھ کرمجھے اپنے پچھلے ایک کالم کا یہ جملہ دوبارہ یہاں شائع کرنا پڑرہا ہے کہ ”راج کریگا پنجاب“ دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ جب وفاق اور صوبوں کے ترقیاتی پروگرام اور دیگر معاشی پالیسیاں منظوری کیلئے این ای سی میں پیش کی جاتی ہیں تو اس سے پہلے یہ سارے پلان اینوئل پلان کوآرڈینیشن کمیٹی میں پیش کیے جاتے ہیں تاکہ این ای سی میں یہ پلان لئے جانے سے پہلے اس فورم پر مرکز اور صوبوں کے نمائندے مختلف تجاویز کی روشنی میں انہیں آخری شکل دے سکیں۔ ماضی میں ہمیشہ ایسا ہوتا آیا ہے‘ مگر اس بار ایسا کیوں نہیں کیا گیا۔؟ کیا جلد بازی میں ایسا ہوا ہے یا یہ بھی صوبوں کے ساتھ بے اعتنائی والی پالیسی کا ایک حصہ ہے۔؟ نئی حکومت کے اس روئیے کو پہلا فاؤل قرار دیا جارہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق این ای سی کے اجلاس کے بعد سندھ حکومت نے شکایت کی ہے کہ این ای سی کے اجلاس میں سندھ کے تین اہم ترقیاتی منصوبوں کی منظوری نہیں دی گئی‘ فی الحال اس سلسلے میں ان منصوبوں کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں‘ اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو یہ سندھ کے ساتھ پہلی ناانصافی قرار پاسکتی ہے۔ سیاسی مبصرین ان اطلاعات کا بھی مذاق اڑا رہے ہیں کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کسی اضافے کا اعلان نہیں کیا گیا مگر جب ملک بھر سے اور اسمبلی کے اندر سے دباؤ پڑا تو تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کا اعلان کردیا گیا مگر محنت کش حیران ہیں کہ اجرتوں میں اضافے کے سلسلے میں سب سے پہلا حق ان کا تھا مگر ان کو تو حقارت سے نظر انداز کردیا گیا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس حکومت کو بزنس کلاس کی حمایتی حکومت کہا جارہا ہے۔ بات یہاں تک نہیں رکی مگر ایک اور بڑا بلنڈر کیا گیا‘ بجٹ میں پیٹرولیم اشیاء پر جی ایس ٹی میں اضافہ کردیا گیا‘ اس فیصلے کا تو خود سپریم کورٹ نے نوٹس لیا ہے‘ ویسے بھی ساری دنیا میں بجٹ پیش کیے جاتے وقت جن ٹیکسوں کا اعلان کیا جاتا ہے ان پر عمل اس وقت ہوتا ہے جب بجٹ کی پارلیمنٹ میں ان ٹیکسوں کی منظوری دی جاتی ہے۔ ابھی تو بجٹ پاس ہونا ہے اور اس کے بعد فنانس بل پاس ہونا ہے اس کے بعد ہی ایسے ٹیکس کے نفاذ کو قانونی جواز ملتا ہے مگر اس بار بجٹ پیش ہوتے ہی اوگرا کی بیورو کریسی نے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا اور مختلف اداروں نے جی ایس ٹی وصول کرنا بھی شروع کردیا‘ یہ بھی جلد بازی کا نتیجہ ہے‘ اناڑی پن ہے یا وزیر خزانہ جو ایک اچھے کیریئر کے مالک ہیں ان کو اور وزیرا عظم کو ناکام کرنے کی کوئی سازش ہے۔ یہ سب کچھ وزارت خزانہ اور منصوبہ بندی کمیشن کا شاخسانہ نظر آتا ہے‘ اگر پلاننگ کمیشن پر ہی ایک نظر ڈالی جائے تو یہ قطعی طور پر ایک وفاقی ادارہ نظر نہیں آتا‘ اس وقت منصوبہ بندی کمیشن میں تین ممبران کا تعلق پنجاب سے‘ دو کا تعلق کے پی صوبے سے اور ایک کا تعلق بلوچستان سے ہے جبکہ پلاننگ کمیشن میں سندھ کا کوئی ممبر نہیں ہے‘ مگر یہ نواز شریف حکومت کا قصور نہیں ہے‘ یہ نظام صدر آصف علی زرداری کی حکومت کا نافذ کردہ ہے‘ امید ہے کہ میاں صاحب اس طرف توجہ دیں گے اور نہ صرف پلاننگ کمیشن بلکہ سارے وفاقی اداروں میں تمام صوبوں کو نمائندگی جائے گی‘ گزشتہ حکومت کے آخری چند ماہ کے دوران کے پی صوبے نے سی سی آئی کے اجلاس میں تجویز پیش کی تھی کہ سارے وفاقی اداروں میں صوبوں کو کم سے کم 40 فیصد نمائندگی دی جائے‘ اس تجویز کی حمایت کرنے والوں میں سب سے پیش پیش پنجاب تھا جبکہ بلوچستان اور سندھ نے بھی اس تجویز کی حمایت کی تھی‘ امید ہے کہ سی سی آئی کے پہلے اجلاس میں اس تجویز کو منظور کرکے اس پر من و عن عمل کیا جائے گا۔
تازہ ترین