• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پیرس کے ایک تھنک ٹینک کے مشیر فرانکوئس ہیبرگ نے انٹرنیشنل اخبار میں شائع شدہ (8 جون 2013ء) ایک مضمون میں کہا ہے کہ روس نے امریکہ و برطانیہ کو دو سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود شام میں بشارالاسد کی حکومت گرانے میں کامیاب نہیں ہونے دیا، وہاں روس کی پالیسی کامیابی سے ہمکنار ہورہی ہے اور مغرب کے تجزیہ نگار عملی اقدامات میں ان کی ناکامی کا منہ دیکھ رہے ہیں۔ روس کی ملٹری، سیاسی اور سفارتی حمایت کا یہ حال ہے کہ شام کی آمرانہ حکومت سے چھٹکارا ممکن نہیں ہوسکا، اس لئے کہ روس نے اقوام متحدہ کے نظام کو عضوِ معطل بنا کر رکھ دیا ہے۔“ افغانستان کی شکست 2010ء میں واضح ہوئی تھی اور ہنری کسنجر نے 2011ء میں یہ اعتراف کیا تھا کہ امریکہ افغانستان میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اس سے پہلے جرمنی اور خود اُن کے عہدیداران یہ اعتراف کرچکے تھے۔ اسی طرح اب شام میں امریکی شکست کا اظہار شروع ہوچکا ہے۔یہ درست ہے کہ روس نے امریکہ کی شام میں مداخلت کے موقع پر کہا تھا کہ ضروری ہوگیا ہے کہ امریکہ کے بڑھتے ہوئے قدم روکے جائیں، جو ایک جگہ سے دوسری جگہ اپنی تباہ کاریوں کے ساتھ آگے بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ عرب بہار کے جلو میں انہوں نے تیونس، مصر، یمن اور لیبیا میں خون بہایا۔ وہاں تبدیلیاں رونما ہوئیں اور ظالمانہ طریقے سے معمر قذافی کی حکومت گرائی گئی، اس کو جس بے دردی اور غیرانسانی طریقہ سے مارا گیا اُس کا ردعمل ہوا اور امریکہ کو اس کا مزا چھکنا پڑا جب اُن کے سفیر کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ اسی لئے امریکہ نے شام میں براہ راست مداخلت نہیں کی۔ اگر چہ امریکہ ہر جگہ مداخلت کرنا اپنا حق سمجھتا ہے اور پورے مشرق وسطیٰ کے نقشے کو تبدیل کرنے کا ازخود منصوبہ بنائے بیٹھا ہے، جو یونون، کرنل پیٹر رالف منصوبہ یا جوبائیڈن یا ”مکمل صفایا“ نامی منصوبہ کے تحت کیا جانا ہے، شام کو تین چھوٹے چھوٹے ممالک میں، عراق کو تین ممالک میں، لبنان کو چار اور مصر کو دو ممالک میں تقسیم کرنا مقصود ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ایران اور پاکستان کو بھی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تبدیل کرنا چاہتا ہے جو ملک امریکہ کی راہ میں حائل ہوا، جو اُس کے ناپاک عزائم کے سامنے کھڑا ہو اُس کو وہ زیر زبر کردینا چاہتے ہیں۔ اب عظیم تر بلوچستان کا فلیتہ لگا چکے ہیں۔ بارودی سرنگیں آزادی کی آرمی بنا کر لگا دی ہیں، اسی طرح ایران میں بھی مداخلت کا سلسلہ جاری ہے، چنانچہ شام کے معاملے میں پاکستان نے بھی ایران جیسا موقف اختیار کیا اور شامی حکومت کو امریکی طریقے سے ہٹانے کی مخالفت کی اور اس لئے بھی کہ شام کے بعد امریکہ پاکستان اور ایران کو تختہ مشق بنانے کی تیاری کررہا ہے مگر ابھی وہ شام میں الجھا ہوا ہے۔ شام میں روس نے یہ کہا تھا کہ امریکہ کے دُنیا کو تباہ کرنے والے بڑھتے قدم کو روکنے کے لئے سوائے جنگ کے ہر طریقہ استعمال کرے گا۔ سو وہ کررہا ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض مسلم اور عرب ممالک امریکی مداخلت کا ساتھ دے رہے ہیں جس کے منفی اثرات خود اُن کے ممالک پر پڑنا شروع ہوگئے ہیں۔ اب یہ ہوا کہ مصر کے تحریر اسکوائر کی طرح ترکی کے تقسیم اسکوائر پر حکومت کے خلاف مظاہرے ہونا شروع ہوگئے ہیں، خود ترکی کا ایک حصہ کردستان کو دینے کا منصوبہ بھی امریکہ بنائے بیٹھا ہے، ایسی صورت میں بھی اس کے ملک میں بغاوت ہوسکتی ہے، اس کے علاوہ ترکی میں وزیراعظم طیب اردگان اور صدر عبداللہ گل کے درمیان جو سیاسی کشمکش جاری ہے، وہ اس کو کسی مہم جوئی کی اجازت نہیں دیتی۔ پھر مصر کی امریکی منصوبہ میں شمولیت اس لئے بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ وہاں اخوان المسلمین کی حکومت ہے۔ وہ امریکہ کا ساتھ دے رہے ہیں نہ اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ کے معاہدہ کو ترک کرتے ہیں اورامریکہ کے ساتھ سر سے سر بھی جوڑے بیٹھے ہیں۔ قطر کی حالت تو ایسی ہے کہ گویا اس پر امریکہ نے قبضہ کر رکھا ہو۔ بعض عرب ممالک کے بارے میں ہم کچھ کہنا نہیں چاہتے۔ یہ درست ہے کہ وہ ایران سے خائف ہوسکتے ہیں مگر اُن کو خائف ہونے کی ضرورت اس لئے نہیں ہے کہ سارے اسلامی ممالک ان کی پشت پناہ ہوں گے اور پھر ایران اور بعض عرب ممالک کے درمیان تناوٴ بھی امریکی ساختہ ہے۔ اصل میں یہ کوئی خطرہ موجود ہی نہیں ہے کہ ایران اس خطے میں اپنی بالادستی قائم کرلے گا۔ امریکہ کو خطے سے دور رکھنا ضروری ہے اس لئے خطہ کے ممالک آپس میں نہ الجھیں تو امریکہ کو اپنی شرارتیں کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔
ساری دُنیا کے مفاد میں یہ ضرور ہے کہ جب امریکہ شام میں کامیاب نہیں ہوسکا تو شام میں خون خرابہ رُکے اور انسانی المیہ کے معرض وجود میں آنے سے پہلے اس مسئلے کا حل تلاش کرلیا جائے اور کوئی ایسی حکومت برسراقتدار آجائے جو سب کے لئے قابل قبول ہو اور امریکہ کی کامیابی کا تصور نہ اجاگر ہو۔ اسی لئے روس نے سارے ممالک کی ایک کانفرنس بلائی جس میں شام بھی حصہ لے رہا ہے۔ امریکہ اور مغرب روس کو ڈرا رہے ہیں کہ جو جہادی شام میں حصہ لے رہے ہیں وہ تربیت پا کر مغرب اور خود روس کے علاقون تک پھیل جائیں گے اور پوری دُنیا کو عدم استحکام کا شکار کردیں گے۔ یہ ممکن تو ہے مگر ایسا کرنے کا اُن کا کوئی ارادہ اس لئے نہیں ہوسکتا ہے کہ جہادی صرف ایک مقصد کے لئے جمع ہوتے اور پھر بکھر جاتے ہیں۔ اس لئے روس کو اس خوف سے ڈرانا درست نہیں ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ خود شام میں بشارالاسد کے خلاف جو گروپ جدوجہد کررہے ہیں، ان کے صدر نے صلح کی پیشکش کی تھی تو امریکی مدد سے کھڑی شامی لبریشن آرمی نے اُن کو غدار قرار دے کر معاملہ الجھا دیا ۔ فرانس کے دانش ور فرانکوئس ہیبرگ کا یہ مشورہ صائب ہے کہ امریکہ اور مغرب، شامی باغیوں کو مسلح اور اُن کو مالی امداد نہ دیں ورنہ وہ توانا ہو کر خود مغرب پر ٹوٹ پڑیں گے مگر امریکہ اگر نہ سمجھنا چاہے تو اُس کو کون سمجھائے۔ خون بہانا اُس کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے، مسلمانوں کا خون تو اس نے اتنا ارزں سمجھ رکھا ہے کہ الامان و الحفیظ۔ افغانستان میں شکست کے بعد اب وہ شام میں شکست کا منہ دیکھنے جارہا ہے۔
تازہ ترین