• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند روز بعد ایم اے /ایم ایس سی کے امتحانات شروع ہونے والے ہیں۔(پاٹ ون اور پاٹ ٹو دونوں کے) اور چند روز بعد ہی مقدس مہینہ رمضان المبارک بھی آنے والا ہے۔ ان دنوں گرمی عروج پر اور لوڈشیڈنگ بھی عروج پر ہے۔ اس ملک کے باسی بڑے بدقسمت ہیں کہ گرمی پڑتی ہے تو شدید نوعیت کی اور بجلی کا بدترین بحران بھی انہی دنوں میں ہوتا ہے اور ہمارے ملک کے تقریباً تمام امتحانات بھی شدید موسموں میں آتے ہیں۔ آج تک کسی حکمران نے یہ سوچا کہ جون، جولائی میں امتحانات کے نظام کو تبدیل کرکے نومبر اور دسمیر میں لے جایا جائے۔ سردیوں میں راتیں بھی لمبی ہوتی ہیں، بجلی نہ بھی آئے تو کسی لیمپ ،مٹی کے دئیے ،کسی سولر لیمپ حتیٰ کہ موم بتی کی روشنی میں بیٹھ کر پڑھا جاسکتا ہے ۔گرمیوں میں بغیر بجلی کے رات کو پڑھنے کا تصور بھی محال ہے۔ کتنا کڑا امتحان ہے۔ ان سٹوڈنٹس کا جو اس شدید موسم میں امتحانات دے رہے ہیں، پھر رمضان المبارک میں روزہ رکھ کر امتحان دینا کوئی آسان کام نہیں۔لوگ یہ کہیں کہ صدیوں پہلے مسلمان روزے رکھ کر جنگیں بھی تو لڑا کرتے تھے ۔ارے بھائی صدیوں پہلے کے انسان کی صحت کا مقابلہ تم آج کے نوجوان سے کررہے ہو جس کو ذرا سردی ذرا گرمی لگ جائے تو بیمار پڑجاتا ہے۔ آخر کیوں نہیں ہم اس نظام کو تبدیل کرنے کے لئے کوئی منصوبہ بندی کرتے۔ دوسرے پنجاب یونیورسٹی نے طالبات کے سنٹرز ان کالجوں اور گھروں سے بہت دور بنا دیئے ہیں اور رکشے والے منہ مانگے کرایہ مانگتے ہیں، انہیں پتہ ہے کہ امتحا ن دینے تو ان لڑکیوں نے لازمی جانا ہے حالانکہ سنٹرز ان کے اپنے کالجوں میں بن سکتے ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کے دل میں نوجوانوں کے لئے بڑی محبت ہے تبھی تو انہوں نے انہیں لیپ ٹاپ اور سولر لیمپ دئیے۔ اب اگر وہ تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کے ساتھ میٹنگ کرکے بی اے/بی ایس سی ،ایم اے/ایم ایس سی کے امتحانات کا شیڈول اکتوبر سے جنوری تک کے درمیان کرلیں تو یقین کریں ہمارے سٹوڈنٹس کی تعلیمی کارکردگی کئی گنا بڑھ جائے گی۔ پی پی کی حکومت نے سوائے لوٹ مار کرنے کے کچھ نہیں کیا۔ جس طرح پی پی نے آخری آٹھ دن میں نو ارب روپے، اور جس طرح راجہ پرویز اشرف نے ا رکان اسمبلی کو47ارب روپے لٹائے وہ باعث افسوس اور باعث شرم ہے۔ کیا روز قیامت ان پیسوں کا حساب نہیں دینا ہوگا۔جس جس نے اس قوم کا پیسہ لوٹا ہے خدا کرے ان کی اولادوں کی نامعلوم بیماریوں پر خرچ ہوجائے۔ انہیں ایک پیسہ بھی عیاشی کرنے کے لئے نصیب نہ ہو۔ میاں صاحب امتحانات کا شیڈول کیلنڈر تبدیل کرکے لاکھوں سٹوڈنٹس کی دعائیں لیں۔ یہ کوئی مشکل اور ناممکن کام نہیں ،کر گزریں، دنیا یاد کرے گی۔
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پھر خبروں کی زد میں ہے۔ پچھلے تین چار برس سے پی آئی سی کسی نہ کسی حوالے سے خبروں میں ہے۔ کبھی جعلی ادویات کا سیکنڈل، کبھی پیس میکرز کی کمی کبھی غریب مریضوں کو آپریشن کے لئے لمبی لمبی تاریخیں اور پرائیویٹ مریضوں کے لئے ہر سہولت۔ یہ ادارہ جو سابق گورنر جیلانی کی ہدایت پر ڈاکٹرزبیر، کرنل سلیم، ڈاکٹر شہریار اور ڈاکٹر چیمہ نے بنایا تھا اور پھر اسی ادارے کو ایک مضبوط ستون بنانے میں یہاں کے کئی ڈاکٹروں نے حصہ لیا۔ وہ ڈاکٹرز آج بھی بڑی ایمانداری سے اپنے فرائض ادا کررہے ہیں،ادویات کے ری ایکشن کیس تاحال ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور اس کیس کے دو ملزمان نادر افروز اور شکیل کی ضمانت منسوخ کرکے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کردئیے ہیں اور عدالت نے آئندہ سماعت میں انہیں گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ادویات کے ری ایکشن کے نتیجے میں جو بے شمار لوگ مرگئے کیا ان کی زندگیاں ایک کھلونا تھیں ،کیا چند لاکھ دے کر ان خاندانوں کو زندگی بھر کا سہارا مل گیا؟ آخر اب تک اس کیس کی بڑی مچھلیوں کے خلاف ایکشن کیوں نہیں ہوا؟ اور اب کروڑوں روپے کا غیر معیاری دھاگہ، سٹیل واٹر دھات کے کلپس درآمد کرنے کا انکشاف ہوا ہے جس پر فوری طور پر ہسپتال انتظامیہ نے سینئر پروفیسرز پرمشتمل اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کردی ہے۔ قارئین کی معلومات کے لئے یہ عرض کردوں کہ دل کے آپریشنوں میں استعمال ہونے والے دھاگے کو بھی ادویات کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے اور اس کے استعمال کی بھی ایک تاریخ ہوتی ہے۔ تاریخ گزرنے کے بعد اسے استعمال نہیں کیا جاسکتااور قانون کے مطابق تاریخ گزر جانے کے بعد ایسی ادویات اور دھاگے کا استعمال کرنے والا مجرم ہوتا ہے اور غالباً اس کو سات سال قید کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔ کتنی دلچسپ اور مضحکہ خیز صورتحال ہے کہ یہ دھاگہ وہ صاحب پی آئی سی کو فراہم کررہے ہیں جو ماہر تعمیرات ہیں، ہمارے پی آئی سی کے بعض ڈاکٹرز بھی کتنے بھولے ہیں۔ ارے بھائی یہ بھی تو دل کی تعمیر کا کام ہے، شکر کریں اس نے سریا باندھنے والی سٹیل وائر آپ کو مہیا نہیں کردی ورنہ وہ آرکیٹکٹ اور اس کے حواری یہ بھی کہہ سکتے تھے بھائی دل کی سرجری کے بعد جب شریانوں، وریدوں وغیرہ اور سینے کو ٹانکے لگانے ہوتے ہیں تو اس کے لئے سریا باندھنے والی وائر سب سے بہترین اور مضبوط ہوتی ہے۔ آگے ہی بعض سرکاری ہسپتالوں میں آرتھوپیڈک سرجن ہڈیوں میں سوراخ کرنے کیلئے لکڑی میں سوراخ کرنے والی ڈرل مشینیں استعمال کر رہے ہیں۔ بہرحال جس سجن نے بھی دنیا کی نامور دھاگہ بنانے والی کمپنی سے دھاگہ لینا بند کراکے اپنے آرکیٹکٹ دوست کے ذمہ یہ کماؤ کام لگایا اللہ تعالیٰ روز حشر اس پر رحم فرمائے۔ اب پی آئی سی والے پھر اسی بین لاقوامی کمپنی سے دھاگہ لے رہے ہیں ،ارے بھائیو! جب وہ کمپنی معیاری دھاگہ دے رہی تھی تو پھر ماہر تعمیرات سے دھاگہ لینے کی کیا ضرورت تھی۔ اب کچھ زیادہ لکھیں گے تو کئی پردہ نشینوں کے نام آئیں گے یہ نہ ہو بعض دل کے ڈاکٹروں کو دل کی تکلیف ہوجائے۔ یہ دل کمبخت ہی بڑا برا ہے۔ عشق کرنے پر آئے تو تب انسان کو ذلیل کردیتا ہے جب لوٹ مار کرنے پہ آئے تو آخرت خراب کردیتا ہے اور آنکھوں پر لالچ کی ایسی پٹی باندھتا ہے کہ خود دل بے حس ہوجاتا ہے، ضمیر کو بھی مردہ کردیتا ہے۔ دل کے جو ڈاکٹربھی ا س گھناؤنے کاروبار میں ملوث ہیں ان سے ا تنا کہوں گا کہ اتنی دولت نہ ا کٹھی نہ کرو جو دل کی بیماریوں کا باعث بن جائے۔ آگے ہی دل کے دو ڈاکٹرمختلف اوردل کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ آخر میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف سے درخواست ہے کہ وہ پی آئی سی کے معاملات پر سختی کے ساتھ توجہ دیں۔ ایک مدت سے یہ ادارہ پہلے بھی ان کی حکومت کی بدنامی کا باعث بنا اور اب ایک مرتبہ پھر ان کی شہرت کو نقصان پہنچارہا ہے ۔اس ادارے کو میرٹ پر چلانے کے لئے میرٹ پر افراد لگائیں۔ بورڈ آف مینجمنٹ میں نازیبا الفاظ استعمال کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کرائیں اور ان میٹنگوں کی ٹیپ میاں صاحب آپ ذرا خود بھی سن لیں کہ بعض ممبران کس قسم کے کلمات ادا کرتے ہیں۔ یہاں پر دکھی لوگ آتے ہیں دل کا روگ لے کر آتے ہیں۔ ان دکھی لوگوں کی بددعاؤں سے بچیں کہیں یہ بددعائیں بعض ڈاکٹروں اوران کی اولادوں کو نہ لگ جائیں۔ میاں صاحب آپ درد دل رکھنے والے انسان ہیں خدارا ایسے ادارے جو لوگوں کو صحت دینے کے ضامن ہیں ان کے معاملات پر خود نظر رکھیں۔
تازہ ترین