• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبردادخان
مغربی یورپ کے ممالک کے علاوہ لوگوں کی اکثریت اپنے آپ کو مالی طور پر بہتر کرنے کے لئے سیاست کا راستہ اختیار کرتی ہے تاکہ جائز کم اور زیادہ ناجائز طریقوں سے دولت کے انبار اکھٹے کر لیں تاکہ آنی والی نسلیں مالی مشکلات سے بچی رہیں۔ ہر معاشرہ میں انہی بنیادوں پر قائم یہ طبقات بالآخر ریاستی نظام پر اس حد تک چھا جاتے ہیں کہ جس طرف دیکھو خواہ وہ ملکی معیشت ہو، عدلیہ ہو، بلدیاتی نظام ہو، ریاستی سلامتی انفراسٹرکچر ہو ہر طرف یہی خاندان قبضہ جمائے ملتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ عام لوگ تسلیم کرلیتے ہیں کہ ایسا نظام نہ ہی بدلا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کے بدلنے کی کوشش ہونی چاہئے اور جہاں پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے سیاستدانوں نے معاملات کو بدلنے کی کوشش کی ہے انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاکستان کی ناتجربہ کار سیاسی جماعت کو اقتدار تو مل گیا مگر اس کو درپیش چیلنجز اتنے بڑے ہیں کہ وزیراعظم اپنی نیک مقصدیت کے باوجود ڈیلیور نہیں کر پارہے۔ وہاں کی اقتداری سیاست کی طاقتوری ان کے ذہن پر بھی بھاری انداز میں چھائی ہوئی ہے کہ وہ بھی مغربی اقتدار اور دولت کو اکھٹا کر دینے کی غلطی کو کئی بار دہراتے دیکھے جا رہے ہیں۔ لندن کے مہنگے علاقوں میں بیشتر جائیدادیں کاروباری افراد اور اداروں کی ملکیت ہیں اور ان میں بہت ہی کم ایسے ہیں جو وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ موجودہ وزیراعظم اپنی تنخواہ سے فلیٹ ڈیکوریشن نہیں کروا سکتے۔ بات واپس اسی جگہ آ رکتی ہے کہ ہماری دنیا اور مغربی دنیا میں لوگ مختلف اہداف کو سامنے رکھ کر سیاست میں قدم رکھتے ہیں۔ پچھلے چند ہفتوں سے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے مالی امور میڈیا میں زیربحث ہیں۔ بورس کی سالانہ تنخواہ 157,5000 پونڈ کے قریب ہے۔ نیشنل انشورنس اور ٹیکس ادا کرنے کے بعد ان کے پاس تقریباً 95,000 پونڈ بچ جاتے ہیں۔ ان کی پارٹنر مس سمنڈز گراس کی تنخواہ 70,000 پونڈ ہے۔ اس جوڑے کو اپنی رہائش گاہ کے اخراجات کے حوالہ سے بھی معقول رقم ادا کرنی پڑتی ہے ان کے ایک سالہ بیٹے ولفرڈ کی دیکھ بھال کرنے والی خاتون کو تقریباً 2 ہزار پونڈ مہینہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ دو مئی کے اخبار The Sunday Time کے مطابق جب حال ہی میں اس خاندان کو اپنے فلیٹ کی ڈیکوریشن کیلئے بھاری فنڈز اکھٹے کرنے پڑے۔ تب انہیں احساس ہوا کہ ان کے پاس پورے پیسے نہیں ہیں کہ بل ادا کردیا جائے۔ بعض اندازوں کے مطابق ری ڈیکوریشن بل 200,000پونڈ کے لگ بھگ ہے۔ بالآخر کن مالدار ٹوریز نے یہ بل ادا کرنے میں بورس کی مدد کی۔ معاملات کی حقیقت کا تاحال تعین نہیں ہوسکا۔ برٹش عوام وزیراعظم سے بہتر رہنمائی کی توقع کرتے ہیں۔ ریاستی احتسابی نظام اتنا منظم ہے کہ تین مختلف انکواریاں اپنا کام شروع کرچکی ہیں کہ دیکھا جائے کہ پارلیمانی اور ریاستی قوانین و ضوابط کی کہیں خلاف ورزیاں تو نہیں ہوئیں اور اگرکہیں ایسے شواہد ملتے ہیں تو تمام محکمے اپنے مختلف اقدامات اٹھانے میں آزاد ہیں۔ ان انکوائریز کے نتیجہ میں وزیراعظم بورس کی جواب طلبی بھی ہوسکتی ہے اور ان کو ایوانوں سے معطل بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح وزیراعظم کی سیاسی اور ذاتی زندگی کو مزید کھول کر عوام کو موقع دے رہا ہے کہ وہ دیکھیں کہ کیا بورس جانسن وزیراعظم بننے یا رہنے کیلئے موزوں شخص ہے، ایک سابق لیڈرشپ موقع پر مائیکل گوو ایم پی نے آخری وقت پر بورس کی حمایت کرنے سے اس لئے انکار کردیا تھا کہ وہ اسے لیڈرشپ منصب کیلئے اہل نہیں سمجھتے تھے اور تھریسامے ایم پی اس وقت جماعت کی قائد منتخب ہوگئیں، مائیکل گوو آج کیبنٹ آفس منسٹر ہیں۔ کپتان کو بھی حکمرانی کے حوالہ سے مشکلات کا سامنا ہے جن سے ان کو چھٹکارا نہیں مل رہا۔ بورس اور وزیراعظم عمران خان دونوں غیر روایتی سیاستدان ہیں جنہیں عوام کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کے فن پر عبور حاصل ہے۔ مخالفین کے بقول پاکستانی قوم عمران خان کے ’’سحر‘‘ سے نہیں نکل پارہی یہی بورس کی 2019ء کے انتخابات میں بھاری کامیابی پر بھی کہا جاسکتا ہے۔ جو سفارتکار یا صحافی برٹش پرائم منسٹر کو اچھے انداز میں جانتے ہیں کہتے ہیں کہ وہ اکثر معاملات میں احتیاط نہیں برتتے اور ان کی نہ ہی سیاسی اور نہ ہی ذاتی زندگی نظم و ضبط کی مثال ہیں جس کی حالیہ مثال ان کے فلیٹ ڈیکوریشن کے معاملات ہیں۔ وزیراعظم جانسن کے سابق مشیر ڈومنک کمنگز نے ایک سے زیادہ مرتبہ لاک ڈائون قوانین توڑے مگر ہر موقع پر وزیراعظم نے اسے تحفظ دیا۔ آج وہی سابق مشیر فلیٹ ڈیکوریشن معاملات کو غیر قانونی ناسمجھی اور بہت کچھ کہہ رہا ہے۔ یہاں بھی بورس کی فرد شناسی اہلیت پر سوال اٹھتے ہیں چند ہفتے قبل ایک ٹوری سپورٹنگ تجزیہ کار نے اس ہفتہ ہونے والے برٹش کونسل انتخابات اور اسکاٹش پارلیمنٹ کو بورس کیلئے دو اہم چیلنجز لکھا تھا۔حالیہ دنوں کی منفی میڈیا رپورٹس نےبورس مقبولیت کو زیادہ نقصان نہیں پہنچایا۔ اسکاٹ لینڈ میں اسکاٹش پارٹی کی برتری ایک حقیقت کے طور پر تسلیم شدہ ہے۔ دوسری پوزیشن کیلئے دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان سخت مقابلہ کی توقع ہے۔ اگلے چند دنوں میں لاک ڈائون سختیاں مزید کم ہونے جارہی ہیں جس سے ٹوری پارٹی کیلئے لوگوں کے اچھے جذبات بڑھتے رہیں گے۔ کمزور معاشروں میں کم وقت میں دیرینہ طے شدہ سیاسی اور معاشرتی پیرامیٹرز بدلنے کسی جماعت کی خواہش تو ہوسکتی ہے مگر حقیقی تبدیلی لانا ممکن نہیں۔ پی ٹی آئی کو باقی اڑھائی سالوں میں اپنی ایسی ترجیحات آگے بڑھانے کیلئے کام کرنا چاہئے جن سے کمزور طبقات کو ممکن حد تک ریلیف مل سکے۔ اس کے لئے اگر وسائل مستقبل کے پراجیکٹس سےبھی لینے پڑ جائیں تو اجتناب نہ کیا جائے۔ زراعت میں بہتری کے اقدامات جن سے گائوں کی زندگی بہتر ہو، روزمرہ اشیاء کی قیمتوں پر کنٹرول کا نظام بہتر کرنا، ہسپتالوں میں علاج معالجے کی بہتر سہولیات ایسے اقدامات ہیں جن سے عوامی ضروریات بھی پوری ہونگی اور آپ پر قوم کا اعتماد بھی بڑھے گا۔
تازہ ترین