• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: کونسلر حنیف راجہ گلاسگو
ایک عرصے کے بعد امت مسلمہ کے بارے میں اچھی خبر ملی ہے ،ایک تازہ ہوا کا جھونکا آیا ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان نے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش ظاہر کی ہے۔ دونوں مسلم ممالک کے درمیان عرصے سے ایک پراکسی جنگ جاری تھی جس نے امت مسلمہ کو گروپس میں تقسیم کر رکھا تھا۔ یمن، شام، عراق، لبنان اور دیگر ممالک میں دونوں بڑے فرقوں کے درمیان نفرت بڑھ رہی تھی اور اتنا نقصان شاید غیروں نے امت مسلمہ کو نہ پہنچایا ہو جتنا کہ ان دونوں کی آپس کی مخالفت کی وجہ سے ہو رہا تھا۔ اب تو گزشتہ چند برسوں سے دونوں کے درمیان سفارتی تعلقات بھی منقطع ہو چکے تھے، چار سالوں کے بعد دونوں کے درمیان پہلا براہ راست رابطہ قابل تحسین ہے۔ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمان ایک خدا، ایک رسول، ایک قرآن کو مانتے ہیں کسی بھی بڑے مذہب یا گروپس میں فروعی اختلافات ہونا معمول کی بات ہے۔ دنیا کے تمام بڑے مذاہب میں بے شمار فرقے ہیں لیکن ان اختلافات کو دشمنی کا رنگ دے دینا کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان دونوں ممالک یعنی ایران اور سعودیہ کے درمیان آپس میں صلح کرانے کی سب سے پہلے کوشش پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کی تھی، اس سلسلہ میں چند سفارتی سرگرمیاں بھی ہوئی تھیں جس سے برف پگھلی۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں بہتری نہ صرف پاکستان امت مسلمہ بلکہ پورے خطے کے مفاد میں ہے۔ یورپ نے 400 سال کی لڑائیوں کے بعد یہ سبق سیکھا ہے کہ لڑائی سے سوائے تباہی کے کچھ نہیں ملتا، امریکہ کی ترقی کا راز اس کی 51 ریاستوں کا اتحاد ہے۔ اسی طرز پر یورپ بھی مزید متحد ہو رہا ہے یہی نکتہ امت مسلمہ کے حکمرانوں کو بھی سمجھنا ہوگا۔ اب بین الاقوامی حالت بھی کچھ ایسے بنے ہیں جو کہ دونوں ممالک کے درمیان دوستی کے لئے سازگار ہیں۔ ایران کی اندرونی سیاسی اور معاشی صورتحال بہت حد تک خراب ہے اور اس کے زیادہ عرصے تک جاری رہنے کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ سعودی عرب بھی حوثی باغیوں کے حملوں کی وجہ سے خاصا پریشان ہے دونوں ممالک کی تیل کی آمدنی بھی کم ہو رہی ہے۔ سعودیہ مستقبل میں جو معاشی تبدیلیاں لانے کا ارادہ رکھتا ہے اس کے لئے اسے امن کی ضرورت ہے نیز سعودی عرب کو نئے امریکی صدر جوبائیڈن کی طرف سے ٹرمپ کی طرح کی حمایت بھی میسر نہ ہوگی۔ امت مسلمہ کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے بے پناہ وسائل سے نوازا ہے اگر ان کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو پوری امت کی پسماندگی کو دور کیا جا سکتا ہے۔ ہم اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پوری دنیا میں دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ ہے بغیر سوچے سمجھے الزام کا پہلا نشانہ مسلمان بنتے ہیں، اگر یہ متحد ہوں ایک طاقت ہوں تو ان پر الزام دھرنے والے سو بار پہلے سوچیں گے۔ اسلام کے مطابق تمام مسلمان ایک جسم ہیں ان میں رنگ نسل، علاقے کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس وقت دنیا میں ہر مقام پر مسلمان مظلوم ہیں اور چند افراد کی غلطیوں کا ذمہ دار پوری امت مسلمہ کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ کشمیر، فلسطین، یمن، شام، عراق، بوسنیا، برما اس کی چند مثالیں ہیں۔ OIC بے جان نظر آتی ہے اس کو دوبارہ متحرک کرنے کی ضرورت ہے اگر مسلم ممالک آپس میں ہی دست گریباں رہے تو یہ شاید زندہ تورہیں لیکن ان کی حیثیت ایک بے جان لاشے سے زیادہ نہ ہوگی اور صرف ذلت و رسوائی ان کا مقدر رہے گی۔ 
تازہ ترین