• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپوزیشن حکومت کو غلط ثابت کرنےکے لئے سرگرم ہے جبکہ حکومت اپوزیشن پر قومی خزانہ لوٹنے کے الزامات لگانے پر روزاول سے کمر بستہ ہے۔ دوہاتھیوں کی اس مفاد پرستانہ لڑائی میں عوام ہی چیونٹی کی طرح کچلے جارہے ہیں ۔اس لڑائی میں کبھی اہم ادارے نشانہ بنائے جاتے ہیں اور کبھی بیوروکریسی ۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان دونوں فریقوں میں سےسچا کون ہے لیکن یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ حکومت اپنے سیاسی مخالفین پر کوئی بھی الزام ثابت نہیں کرسکی، سوائے ان کو ذلیل وخوار کرنے کے۔ اور اس عمل پر قومی خزانے کا کتنا نقصانہوا، یہ الگ پہلو ہے ۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ ٹیلی ویژن چینلوں پر حکومتی اراکین بطور ثبوت جو کاغذات لہراتے ہیں وہ کہاں غائب ہوجاتے ہیں ۔ دوسری طرف اپوزیشن کی طرف سے حکومت کی مخالفت میں جو باتیں کی جاتی ہیںوہ بھی سب درست نہیں ہوتیں اورمحض تنقید برائے تنقید ہوتی ہے۔ لیکن کچھ باتیں روزروشن کی طرح ایسی عیاں ہیں کہ ان کا جواب حکومتی وزرااور ترجمانوں کے پاس بھی نہیں تو کوئی اور ان کو کیسے غلط ثابت کرسکتا ہے؟ البتہ حکومتی اراکین پھر بھی نہیں مانتے کہ کوا سفید نہیں ہے۔ مثال کے طور پر مہنگائی کو دیکھیں جس نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے اور بیروزگاری نے معاشرتی طور پر بگاڑ کی سنگین صورتحال پیدا کردی ہے۔ امن وامان کا مسئلہ اپنی جگہ ہے۔ حکومت موجودہ مہنگائی کی وجہ بھی سابقہ حکومتوں کے لوٹ مار کا وائرس بتاتی ہے۔ لیکن مہنگائی کی اس وبا کی ویکسین تین سالوں میں نہیں بناسکی۔ حکومت ایک کروڑ ملازمتیں دینے کے وعدے سے بھی مکرگئی ۔ اب معیشت کی بحالی کا نسخہ تعمیراتی کمپنیوں کے کاروبار سے تیار کرنے کے دعوے کیے جارہے ہیں۔ تجارت کی بربادی کا اندازہ کریں کہ برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کی شرح دوگنی ہے ۔یہی ایک اہم نکتہ ہے جس سے کسی ملک کی معیشت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ نئے وزیر خزانہ کی پریس کا نفرنس کو اگر سمجھا جائے تو وہ ایک چارج شیٹ ہے۔

بیوروکریسی کی جتنی بے توقیری موجودہ دور میں ہوئی شاید ہی کبھی ہوئی ہو البتہ سابق خادم اعلیٰ کھڑے کھڑے جس طرح سینئر افسران کو جونیئرز اور عوام کے سامنے ذلیل کرتے رہے موجودہ حکومت میں ابھی نوبت وہاں تک نہیں پہنچی ۔ہاں بیوروکریسی میں تبدیلیوں کے جھکڑ چلتے رہتے ہیں کہ تبدیلی ہی موجودہ حکومت کے منشور کا اہم نکتہ ہے۔ اپوزیشن نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑیاورحکومت کا ناطقہ بند کیا ہوا ہے۔ اس سارے گھن چکر میں عوام تو پس ہی رہے ہیں لیکن دونوں فریق حسب ضرورت اہم قومی اداروں پرحملہ آور ہوکر ملکی بقا اور وقار کوبھی خاطر میں نہیں لاتے ۔ قوم کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ اس ملک میں کیا ہورہا ہے۔ اور ہم کس سماجی،معاشی اور اخلاقی زوال کی طرف تیزی سےبھاگ رہے ہیں۔ ایسے حالات میں ہربندہ اپنے لئے ہی سوچتا ہے۔ ملکی اور قومی یکجہتی کے تقاضے اور باہم ربط واقدار کو پتہ نہیں ہم کہاں چھوڑ کر آگے دوڑ رہے ہیں۔ عجیب نفسانفسی کا دور دورہ ہے۔ ملاوٹ کرنیوالا جانتا ہے کہ اس بارے میں نبی کریمﷺ کاکیا فرمان ہے۔ ناپ تول میں کمی کرنیوالا ، ناقص اشیا کو دھوکے سے فروخت کرنیوالا بھی سب کچھ جانتا ہے۔جھوٹ بول کر روٹی کمانے کو آج ہوشیاری سمجھا جاتا ہے۔ قتلِ ناحق کو غیرت کے تقاضے کا نام دیاگیا ہے۔ غیبت اور بہتان کے تو الفاظ ہی معدوم ہوگئے۔ نئی نسل کوتو ان الفاظ کا پتہ ہی نہیں تو ان کے مطالب کا کیا معلوم ہوگا۔

کوئی مذہب کے نام پر، کوئی پیری مریدی کےنام پر(میں سب کی نہیں جعلسازوں کی بات کررہا ہوں) جعلی عامل، کوئی انعام نکلنے کے نام پر دوسروں کو لوٹتا ہے۔ دوسروں کی عزتوں سے کھیلنے کو مذہبی ومعاشرتی طور پر ایسے بدکرداربرا اور گناہ نہیں سمجھتے۔ کسی کے بچے اغوا کرکے اس معصوم سے بدفعلی اور پھر قتل کرنیوالے انسان نما بھیڑیے تو ہیں ہی، اب تو والدین خاص کر والد اپنے بچوں پر بدترین تشدد بلکہ قتل کرنے کو بھی گناہ اور جرم نہیں سمجھتے۔محبت کی شادیاں عام ہوچکی ہیں۔ لڑکا لڑکی والدین کی رضامندی کے بغیر عدالت یا کسی دوست کے گھر نکاح کرتے ہیں۔ اگرچہ مذہبی طور پر یہ ناجائز نہیں لیکن ہمارے معاشرےاور اقدار کے قطعی خلاف ہے اور اگر ایسی شادیوں کا انجام دیکھنا ہوتو کسی شہر کی فیملی کورٹ میں جاکر طلاق اور خلع کے کیسوں کا انبار اور اس میںروزبروزاضافے کی شرح دیکھ لیں۔نچلی عدالتوں میں دیوانی مقدمات کو دیکھ لیں کوئی ایک فریق دوسرے کا حق کھانے کے لئے مقدمہ دائر کرتا ہے اور پھر اس مقدمے کا فیصلہ اس کے پوتے پوتیوں کے دور میں آتا ہے۔ برداشت کا یہ عالم ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر جھگڑے اور قتل کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں۔ ایک گھر میں’’ اتفاق میں برکت ہے‘‘ کے فرمان کے برخلاف لڑائیاں بڑھ رہی ہیں کبھی کسی دنیاوی مفاد کے لئے کبھی انا اور ضد کی وجہ سے ایسی لڑائیوں کی وجہ سے کئی گھر اجڑ جاتے ہیں۔ سڑکوں پر، بازاروں میں معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے عام ہیں۔ بندہ بندے کا دشمن بنا ہوا ہے۔ سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنےاور ملازمت سے فارغ کراکے دوسرے کی روزی کو تنگ کرنے کوبھی گناہ نہیں سمجھا جاتا۔ یہ تو مختصر سی تفصیل تھی اور بھی بہت کچھ ہے لیکن تنگی داماں اجازت نہیں دیتی ۔لیکن خلاصہ یہ ہے کہ ان تمام باتوں کا اثر معاشرتی اقدار اور ملک پر پڑتا ہے۔ بے چینی واضطراب ہے اور ہم ہیں ۔پھر بھی ملکی ترقی کی باتیں کرتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ’’ انجام گلستاں کیا ہوگا‘‘۔ اب یہ سارا نظام تبدیل ہونے والا ہے اور جلد گلستاں میں بہار آجائے گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین