محنت کشوں کے عالمی دن کے موقع پر دنیا کے بہت سے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی مزدوروں کے مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے اجتماعات اور مذاکروں وغیرہ کا انعقاد عمل میں آتا ہے ۔ تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ وطن عزیز میں ان کی بھاری اکثریت اب تک زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔حکومت نے جو لیبر قوانین بنارکھے بہت سے اداروں میں ان ہی پر عمل نہیں ہورہا جبکہ انہیں مزید بہتر بنانے اور مزدور کو معاشرے میں عزت و توقیر کا وہ مقام دلانے کیلئے جو محنت کی عظمت کے حقیقی اعتراف کا عکاس ہو ، ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ جنگ ڈیولپمنٹ رپورٹنگ سیل کے جاری کردہ جائزے کے مطابق پاکستان میں تقریباً58 فی صد محنت کش اس کم سے کم ماہانہ اجرت سے بھی محروم ہیں جس کا اعلان گزشتہ سال قومی بجٹ کے موقع پر کیا گیا تھا۔اوقات کار کے معاملے میں بھی قوانین کی خلاف ورزی عام ہے جن کے تحت ایک ہفتے میں اڑتالیس گھنٹے سے زیادہ کام نہیں لیا جاسکتا لیکن بیشتر اداروں میں محنت کش ایک ہفتے میں اسّی سے سو گھنٹے تک کام کرنے پر مجبور ہیں جبکہ انہیں اس کا کوئی اضافی معاوضہ بھی نہیں ملتا۔جائزے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں کہنے کو ستّر کے قریب لیبر قوانین اور نواسی قواعد و ضوابط موجود ہیں لیکن بالعموم نہ ان پر عمل نہیں کیا جاتا نہ ان کی خلاف ورزی کرنیوالوں سے کوئی باز پرس ہوتی ہے۔ پاکستان دنیا کے ان دس ملکوں میں چھٹے نمبر پر ہے جو محنت کشوں کے حقوق اوران کے ساتھ امتیازی سلوک کے تعلق سے بدترین سمجھے جاتے ہیں۔پاکستان دنیا کی دسویں بڑی لیبر فورس کا حامل ہے لیکن مزدوروں کو اتنا معاوضہ بھی نہیں ملتا جس سے تعلیم اور علاج معالجہ تو کجا ایک گھرانے کیلئے دو وقت کی روٹی کا انتظام بھی محال ہے۔حکومت نے کم سے کم تیرہ ہزار روپے ماہانہ اجرت مقرر کی ہے جو جائزے کے مطابق محض بیالیس فی صد محنت کشوں کو مل رہی ہے تاہم اس میں بھی چار پانچ افراد کے ایک گھرانے کی محض غذائی ضروریات اور گھر کے کرایے وغیرہ پر مشتمل بجٹ بنادینا کسی بڑے سے بڑے ماہر معاشیات کیلئے ممکن نہیں جبکہ بہت سے اداروں میں تو اب تک غیرماہر محنت کشوں کو پانچ سات ہزار روپے ماہانہ سے زیادہ اجرت نہیں ملتی۔اور یہ معاملہ صرف اس قسم کے کاموں تک محدود نہیں جو نچلے درجے کے سمجھے جاتے ہیں بلکہ دوسرے پیشوں میں بھی یہ بے انصافی عام ہے۔پاکستان میںخواتین محنت کشوں کی حالت زار مردوں سے کہیں زیادہ ابتر ہے۔ کم و بیش ڈیڑھ سال پہلے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ایشیاپییسفک ملکوں میں محنت کش خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک میں پاکستان سرفہرست ہے ۔رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خاتون محنت کش کو مرد مزدور کے مقابلے میں اوسطاًاڑتیس اعشاریہ پانچ فی صد کم اجرت ملتی ہے۔ تاہم محنت کشوں کا حال آج صرف پاکستان میں نہیںدنیا کے بہت سے ملکوں میں فوری طور پر قابل توجہ ہے۔بے روزگاری عالمی سطح پر جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ سال کے اختتام پر دنیا میں بیس کروڑ چالیس لاکھ افراد روزگار سے محروم تھے جبکہ آئندہ تین سال کے اندر دنیا میں بے روزگاروں کی تعداد اٹھائیس کروڑ تک جاپہنچے گی۔ اسپین کے ایک ممتاز تحقیقی ادارے کے مطابق دنیا کے 73 ملکوں میں محنت کشوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور معاوضے جیسے بنیادی حق میں بھی تفریق کی جاتی ہے۔پاکستان کو اپنے اسلامی تشخص کے حوالے سے مزدور وں کے حقوق کے معاملے میں بھی دنیا کیلئے مثال بننا چاہیے ، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی ’’الکاسب حبیب اللہ‘‘ کے مطابق محنت کش کو اس کا جائز مقام ملنا چاہیے، معاشرے میں پیشوں کی بنیاد پر اونچ نیچ کا تصور ختم ہونا چاہیے اور عزت و توقیر کا پیمانہ دولت اور طاقت کے بجائے صرف کردار کو بنایا جانا چاہئے اور محنت کشوں کیساتھ روا رکھی جانے والی ساری بے انصافیوں کا خاتمہ کرکے انہیں زندگی کی تمام بنیادی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جانی چاہئے۔