• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پیپلز پارٹی بڑے بڑے امتحانوں اور بحرانوں سے گزری لیکن حالیہ بحران اس کی ”تاریخ کا سخت ترین امتحان اور بدترین بحران ہے جس کا اس بات سے قطعاً کوئی تعلق نہیں کہ ”چاروں صوبوں کی زنجیر سمٹ ا ور سکڑ کر سندھ تک محدود ہو گئی ہے کیونکہ یہ سب تو چلتا رہتا ہے اور یوں بھی اب ن لیگ کی ”باری“ ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے ”نقش قدم“ پر چلتے ہوئے خود بھی اپنی قسم کی پیپلزپارٹی میں تبدیل ہو جائے کہ کان نمک میں نمک ہی بن جانا ہوتا ہے۔
پیپلز پارٹی کا اصل بحران ہے قیادت کا بحران۔ یاد رہے میں نے جان بوجھ کر ، سوچ سمجھ کر ”فقدان“ نہیں ”بحران“ کا لفظ استعمال کیا ہے اور بحران یہ ہے کہ ”گلیشیئر“ سے ٹکرائے ہوئے اس ”ٹائٹینک“ کا ”کپتان“ کون ہو گا؟ یہ بات طے کہ آصف زرداری ایک سرپرست، رہبر، مشیراعلیٰ کا کردار تو بخوبی نبھا سکیں گے لیکن ”فرنٹ“ پر کسی اور کو ہونا ہو گا اور یہ ”کسی“ کون ہے؟ یہی وہ ملین بلکہ بلین ڈالر سوال ہے جس کا جواب پارٹی کے مستقبل کا تعین کرے گا۔ موروثیت کے مارے ہوئے ہم جیسے مریض معاشرہ میں بنیادی بات یہ ہے کہ بھٹو کا یہ خون آلود ورثہ منتقل کس کو ہوتا ہے کہ ایک طرف بھٹو کا نواسا اور نواسیاں ہیں تو دوسری طرف پوتا اور پوتی جن کی جھلک بھی ابھی تک عوام نے نہیں دیکھی، سوائے فاطمہ بھٹو کی شاعری اور چند اخباری مضامین کے۔
ادھر بلاول کے بارے میں یہ افواہ زبان زد عام ہے کہ اس نوجوان کو سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں اور اس کھیل میں اس کی جس قدر ”دلچسپی“ اب تک سامنے آئی ہے وہ سراسر ”دھکا شاہی“ اور ”اباگیری“ کا نتیجہ ہے تو میرے نزدیک کوئی آدمی کسی بھی میدان میں تب تک عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکتا جب تک اس میں اس کا دل ”موجود نہ ہو کہ جہاں دل نہیں ہوتا وہاں دماغ بھی نہیں ہوتا اور جس کام سے دل اور دماغ دونوں ہی غیر حاضر ہوں وہاں کامیابی کبھی حاضری نہیں دیتی۔ بلاول کو اگر سیاست میں دلچسپی نہیں تو پھر اسے اس دھندے میں دھکیلنا خود اس پر بھی ظلم ہو گا اور سیاست پر بھی۔ بچپن سے سنتے آئے ایک انگریزی محاورہ کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ ”آپ اونٹ کو دریا تک تو لے جا سکتے ہیں لیکن زبردستی اسے پانی نہیں پلا سکتے“۔ آپ زبردستی کسی کے منہ میں نوالا تو ٹھونس سکتے ہیں لیکن چبانا اور نگلنا تو اس نے خود ہی ہو گا۔ رہ گئیں صاحبزادیاں آصفہ اور بخت آور تو ان کے آگے بھی سوالیہ نشان ہے، خاص طور پر اک ایسی فضا میں جہاں انتخابی مہم بھی عملاً پیپلز پارٹی کیلئے ناممکن بنا دی گئی، یہ علیحدہ موضوع ہے کہ مہم چلاتے بھی تو نتیجہ ایسا ہی نکلتا۔
اس مختصر سی تمہید کے بعد چلتے ہیں چند لوگوں کی ان کوششوں کی طرف کہ موجودہ نسل کے بکھرے ہوئے بھٹو خاندان کو پارٹی کے مستقبل کی خاطر متحد کیا جائے تو یہاں نجانے کیوں مجھے عظیم فاتح سکندر اعظم یاد آتا ہے جو بھری جوانی میں اک پرانے زہریلے زخم کے نتیجہ میں بستر مرگ پر تھا جب کسی نے پوچھا…
”سکندر! اتنی وسیع و عریض عظیم الشان سلطنت کس کے لئے چھوڑے جا رہے ہو“؟
سکندر مسکرایا اور پھر مضبوط لیکن مدھم سی آواز میں یہ تاریخی جملہ بولا:
”طاقت ور ترین کیلئے“۔
لیکن اب زمانے بدل گئے ہیں اور اندھی طاقت کے ساتھ ساتھ دور تک دیکھ سکنے والی بصارت و بصیرت نے بھی اپنے لئے جگہ بنا لی ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ بھٹو خاندان کو متحد کرنے کی کوششوں میں مصروف لوگ اور جنہیں متحد کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، یہ سب حوصلہ اور ہوش مندی کا ثبوت دیں گے۔
اس کالم کا محرک دراصل یہ اخباری خبر ہے کہ
”تمام تر اختلافات کو پس پشت ڈال کر بھٹو خاندان کو متحد کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی بہو غنویٰ بھٹو بضد ہیں کہ پارٹی کے اصل وارث مرتضی بھٹو کے بچے ہیں (جیسے یہ کوئی پرچون کی دکان ہو) اور آصف زرداری کو فوری طور پر پارٹی کی قیادت فاطمہ بھٹو کے سپرد کر دینی چاہئے۔ یہ بے لچک رویہ سیاست کے علاوہ کچھ بھی ہو سکتا ہے جبکہ بزرگوں کی کوشش یہ ہے کہ پارٹی قیادت دونوں خاندانوں کے بچوں کو سونپ دی جائے پھر اللہ اور عوام… خالق و مخلوق جس پر مہربان ہو جائے۔ افسوس کہ اب تک اخباری خبروں اور افواہوں کی حد تک غنویٰ بھٹو کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی اور ان کی سوئی اس بات پر اٹکی ہوئی ہے کہ آصف زرداری مختلف وضاحتیں پیش کریں کہ ان کے تحفظات کا تدارک ہو سکے۔پنجابی کا ایک محاورہ ہے جس کا حوالہ دینا مناسب نہیں، غنویٰ بھٹو خاتون ہیں، اس ملک و معاشرے کے مزاج سے بھی ناآشنا اور سیاسی طور پر بھی مکمل طور پر ناتجربہ کار سو سارا بوجھ عملاً ”مفاہمت فیم“ آصف زرداری کے سر پر آ پڑا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دنیا بھر کے ساتھ ”مفاہمت“ کا مظاہرہ کرنے والا یہ شخص خاندان کے اندر مفاہمت کیلئے کتنی گہرائی، گیرائی، تدبر، حکمت اور بصیرت کا مظاہرہ کرتا ہے کیونکہ یہ مجھ جیسوں کا بھی مسئلہ ہے جنہوں نے ہمیشہ ”دو پارٹی سسٹم“ کی بھرپور مخالفت کرتے ہوئے ہمیشہ کسی ”تیسری قوت“ کے خواب دیکھے کہ یہی ملک اور عوام کے لئے بہتر ہے، ورنہ ”دو سیاسی اجارہ دار“ تو عوام سے لے کر اپنے ورکرز تک کو بلیک میل کرتے ہیں۔ سب کے پاس تیسر اآپشن ضروری ہے او اگر پیپلز پارٹی کمزور پڑتی ہے تو عوام بیچارے پھر سے ”دوپاٹن کے بیچ“ اسی طرح پستے رہیں گے، آئیڈیل صورت یہی ہے کہ پی پی پی، ن لیگ اور پی ٹی آئی… تینوں گھوڑے میدان میں رہیں کہ ”وکٹری سٹینڈ“ پر بھی تین پوزیشنز ہی ہوتی ہیں۔
تازہ ترین