• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر انگریزی نہ ہوتی تو ہم اشرافیہ کے لوگ دم گھٹ کر مر جاتے۔ آپ دیسی اسکولوں کے پڑھے ہوئے لوگ کھلم کھلا گالم گلوچ کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے دل کا غبار ہلکا کرتے ہیں، ہمارا پرابلم یہ ہے کہ ہمارے گھر اور جن تعلیمی اداروں میں ہم نے تعلیم حاصل کی وہاں کا ماحول انتہائی شائستہ تھا۔ پھر ہم جس سروس میں گئے مجال ہے ہم نے وہاں کسی کی زبان سے ماں بہن کی گالی سنی ہو۔ ایسا نہیں کہ ہم گالی نہیں دیتے، یہ بات آپ کی سوچ کے مطابق کر رہا ہوں، ہم بغیر غصے کے محاورتاً ایسے انگریزی الفاظ استعمال کرتے ہیں جن کا آپ اپنی دیسی زبان اردو میں ترجمہ کریں تو آپ اسے گالی قرار دیں گے لیکن مغرب کی اشرافیہ اور ہماری اشرافیہ یہ الفاظ اپنی گفتگو میں بلاتکلف استعمال کرتی ہے۔ ان ممالک کے وزرائے اعظم اور بڑے سے بڑے عہدے پر متمکن افراد اپنی گفتگو میں گالی کا استعمال جس خوبصورتی سے کرتے ہیں، اس پر رشک آتا ہے۔ میں جب امریکہ میں تھا، ایک نیگرو سے میرا جھگڑا ہو گیا۔ وہ سخت غصے کی حالت میں تھا، اس کے باوجود اس نے مجھے مخاطب کر کے صرف اتنا کہا ’’یو ما، فا‘‘ نیگروز کا ایکسنٹ مختلف ہوتا ہے چنانچہ فوری طور پر مجھے سمجھ نہیں آئی لیکن جب سمجھ آئی تو مجھے غصہ آنے کی بجائے اس پر بھی رشک آیا کہ کتنی اعلیٰ زبان میں اس نے مجھے گالی دی ہے، یہی گالی اگر مجھے کوئی پاکستانی اردو یا پنجابی میں دے تو میں برداشت نہ کر سکوں۔

صرف یہی نہیں بلکہ بعض اوقات تو یہ لوگ زبان پر کوئی لفظ بھی نہیں لاتے مگر سب کچھ کہہ دیتے ہیں۔ میں اپنے دوست مالک کی کار میں اس کے ساتھ کہیں جا رہا تھا، اس نے کار بڑے خطرناک طریقے سے ایک لڑکی کی کار سے کراس کی، جس پر اس حسینہ نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور کار کا شیشہ کھول کر کچھ کہنے کی بجائے صرف اپنے ہاتھ کی درمیان والی انگلی کھڑی کر کے اسے دکھائی، جس پر مالک گاڑی اس کے قریب لے گیا اور شیشہ کھول کر بلند ترین آواز میں پوچھا پرومِس؟ (وعدہ) جس پر اس حسینہ کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری، اب میں آپ دیسی لوگوں کو کیا بتائوں کہ درمیان والی انگلی کھڑی کر کے کسی کو دکھانا گالی کی کون سی قسم ہے اور اس کے جواب میں مالک کا کہنا کہ بات پکی ہے نا، کس قدر بلیغ ہے؟

سچی بات پوچھیں تو خود میرے اندر بھی ایک دیسی آدمی چھپ کر سہما ہوا بیٹھا ہے۔ چونکہ میں اشرافیہ کا حصہ ہوں یعنی شیدا جینٹری میں پھنس گیا ہے، چنانچہ لاہور کے تھیٹروں میں جو مزاحیہ ڈرامے دکھائے جاتے ہیں اور جس مزاح پر ہماری اشرافیہ فحاشی کا الزام بھی لگاتی ہے، کبھی کبھی مجھ ایسے مہذب انسان کو بھی اپنی طرف کھینچتے ہیں اور میں کبھی کبھار منہ سر لپیٹ کر دیکھنے بھی چلا جاتا ہوں کہ اگر مجھے اشرافیہ کے کسی رکن نے ہال کے اندر جاتے دیکھ لیا تو مجھے انہی ’’لچّے لفنگوں‘‘ میں شمار کیا جانے لگے گا جو ہال میں دھوتی، پتلون، پاجامے اور کچھ بنیان میں بیٹھے ڈرامے کے دوران قہقہے لگاتے ہیں اور ذومعنی جملوں پر تالیاں بجا کر اداکار کو بھرپور خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں حالانکہ میں امریکہ میں بھی مزاحیہ تھیٹر دیکھتا رہا ہوں، ان ڈراموں کے ایک ایک جملے میں آپ کے ذہن کے مطابق فحاشیوں کا میلہ لگا ہوتا ہے، مجال ہے وہ ذہن پر گراں گزریں کیونکہ یہ سب کچھ انگریزی میں ہو رہا ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ اسٹیج پلیز یو ٹیوب اور دوسرے ذرائع سے ہماری اشرافیہ دیکھتی ہے اور ان اداکاروں پر صدقے واری ہوتی چلی جاتی ہے۔ کوئی ایک بات ہو تو اس کا رونا بھی رویا جائے، ہم نے تو عام زندگی میں روزمرہ پیش آنے والے واقعات یا مقامات کے بھی گندے گندے نام رکھے ہوئے ہیں۔ اب صبح صبح ہم لوگ جو کام سب سے پہلے کرتے ہیں اس کا نام لیتے ہوئے بھی شرم آتی ہے، مگر انگریزی میں وہی الفاظ اتنے شستہ لگتے ہیں کہ ان کی ساری بو ختم ہو جاتی ہے۔ کچھ لفظ مجھے یاد آ رہے ہیں، دیسی نہیں، ولایتی الفاظ، مثلاً اسٹول، موشن، یورین وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے دیسی لوگ بھری محفل میں جو کہہ کر کچھ دیر کے لئے اٹھتے ہیں، میں وہ لفظ یہاں نہیں لکھ سکتا مگر اشرافیہ کا فرد ایسے مواقع پر کہے گا ’’میں ذرا فریش ہو کر آتا ہوں‘‘ بہرحال یہ داستان بہت طویل ہے، ہم ہر وقت گلہ بھی کرتے ہیں بلکہ رونا روتے رہتے ہیں کہ مغرب ہم سے بہت آگے نکل گیا ہے، ہم دن بدن زوال کی طرف جا رہے ہیں۔ زوال کی طرف تو جانا ہی ہے جب آپ لفظوں کے استعمال تک سے ناواقف ہیں اور ایک اعلیٰ، برتر زبان کے ہوتے ہوئے ایک گھٹیا سی زبان کو ذریعہ اظہار بناتے ہیں۔ صنعتی ترقی، زرعی ترقی، سائنسی ترقی، معاشی ترقی، یہ سب کچھ ہوتا رہے گا، پہلے اظہار کا مہذب طریقہ تو سیکھ لیں؎

نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے ہندوستاں والو

تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں

تازہ ترین