• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ کی نیشنل سیکورٹی ایجنسی کی جانب سے امریکی شہریوں اور امریکہ میں مقیم غیر ملکیوں کے انٹرنیٹ اور ٹیلیفون کالز ریکارڈ کئے جانے کی خبروں نے پوری دنیا میں ہلچل مچادی ہے جس نے امریکہ کی ساکھ کو دنیا بھر میں شدید متاثر کیا ہے۔ Prism نامی اس پروگرام کا انکشاف اس وقت ہوا جب سی آئی اے کے سابق ملازم 29 سالہ ایڈورڈ سنوڈن نے امریکہ کی نیشنل سیکورٹی ایجنسی کی جانب سے بڑے پیمانے پر انٹرنیٹ اور ٹیلیفون کالز کی نگرانی کے بارے میں واشنگٹن پوسٹ اور گارڈین کو آگاہ کیا جس کے بعد وہ امریکہ چھوڑ کر فرار ہوگیا۔ آخری اطلاعات آنے تک سنوڈن ہانگ کانگ میں روپوش ہے اور اس نے کہا ہے کہ اگر امریکہ نے ہانگ کانگ سے اس کی حوالگی کا مطالبہ کیا تو وہ اس کی مزاحمت کرے گا۔ ایڈورڈ سنوڈن کے انکشاف کے مطابق امریکہ کی نیشنل سیکورٹی ایجنسی ایک خفیہ پروگرام جسے Prism کا نام دیا گیا ہے کے تحت کروڑوں امریکی اور غیر ملکی شہریوں کے انٹرنیٹ اور ٹیلیفون کالز کا ریکارڈ حاصل کررہی ہے اور اسے9 بڑی انٹرنیٹ کمپنیوں کے سرورز (Servers) تک رسائی حاصل ہے۔ سنوڈن کے بقول امریکی سیکورٹی ایجنسی سراغ رسانی کی غرض سے اپنے پروگرام کے ذریعے خفیہ عدالتی حکم کے تحت گوگل، مائیکرو سافٹ، فیس بک، یاہو، اسکائپ، ایپل اور یوٹیوب سمیت دیگر کمپنیوں سے روزانہ لاکھوں صارفین کی ای میلز، تصاویر، آڈیو، وڈیوز اور دیگر ریکارڈز حاصل کرتی ہے۔ سنوڈن کا کہنا ہے کہ اس نے مذکورہ پروگرام کے بارے میں معلومات عام کرنے کا فیصلہ دنیا بھر کے لوگوں کی آزادیوں کو بچانے کیلئے کیا۔ اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر جان بوبینرلے نے انٹرنیٹ اور ٹیلیفون کالز کی نگرانی کے پروگرام کی معلومات منظر عام پر لانے والے سی آئی اے کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن کو غدار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سنوڈن کے اس عمل سے لوگوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوئے ہیں اور اس جرم میں سنوڈن کے خلاف مجرمانہ تفتیش کی جانی چاہئے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ امریکی دباؤ میں آکر برطانوی حکومت نے تمام ایئر لائنز کو خبردار کیا ہے کہ خفیہ راز افشا کرنے والے سی آئی اے کے سابق ملازم کو برطانیہ نہ آنے دیا جائے۔
حالیہ اسکینڈل کو وکی لیکس کے بعد امریکہ کی تاریخ کا دوسرا بڑا اسکینڈل قرار دیا جارہا ہے جس کے منظر عام پر آنے کے بعد امریکہ کی نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے ڈائریکٹر جیمز کلیئر نے تسلیم کیا ہے کہ حکومت انٹرنیٹ کمپنیوں سے صارفین کی بات چیت کا ریکارڈ حاصل کرتی رہی ہے تاہم معلومات حاصل کرنے کی پالیسی کا ہدف صرف غیر امریکی افراد ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بات چیت کی ریکارڈنگ حاصل کرنے کے پروگرام کو موثر بنانے کا مقصد بیرون ملک سے انٹیلی جنس معلومات حاصل کرنا ہے اور اس کا تعلق امریکہ سے باہر مقیم افراد سے ہے۔ دوسری جانب امریکی انتظامیہ نے پروگرام کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر اوباما کی اولین ترجیح امریکہ کو محفوظ بنانا ہے، فون کالز ریکارڈ کیا جانا اور انٹرنیٹ سے معلومات حاصل کرنا دہشت گردی کے خلاف ہتھیار ہے۔ انتظامیہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر اس پروگرام پر پہلے عملدرآمد کیا جاتا تو 9/11 کا واقعہ رونما نہ ہوتا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ٹیلیفون کالز ریکارڈ کئے جانے اور انٹرنیٹ کمپنیوں سے صارفین کی نجی معلومات کے حصول کو شہری حقوق کے خلاف قرار دیا ہے۔ امریکہ میں اس معاملے پر زور شور سے بحث شروع ہوچکی ہے اور لوگوں نے امریکی حکومت کے اس فیصلے اور خفیہ عدالتی حکم کو حیرت انگیز قرار دیا ہے جبکہ مذکورہ انٹرنیٹ کمپنیاں شدید دباؤ کا شکار ہیں جن کا اصرار ہے کہ وہ اپنے تمام ڈیٹا تک رسائی دینے کے بجائے صرف ان افراد کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں جن کے بارے میں ان سے معلومات مانگی جاتی ہیں۔ انٹرنیٹ کی بڑی کمپنیوں فیس بک اور مائیکرو سافٹ نے یہ اقرار کیا ہے کہ ان سے انٹیلی جنس ایجنسیوں نے گزشتہ کچھ ماہ کے دوران ہزاروں افراد کے بارے میں ڈیٹا کے حصول کیلئے رابطہ کیا جن کے بارے میں یہ کہا گیا کہ ان افراد کا تعلق دہشت گرد گروپوں سے ہے۔ انٹرنیٹ کمپنیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ کسی سرکاری ادارے کو معلومات تک رسائی نہیں دیتیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے معلومات کیلئے بھیجی جانے والی درخواست کو قانون کے مطابق انفرادی کیس کی بنیاد پر دیکھتی ہیں۔ واضح ہو کہ صدر بش کے دور میں منظور کئے جانے والے قانون پیٹریاٹ ایکٹ کے تحت کمپنیوں پر لازم ہے کہ وہ نیشنل سیکورٹی ایجنسی کو ان تمام ڈیٹا کی تفصیلات فراہم کریں گی جس میں کسی صارف نے کس وقت، کہاں اور کس نمبر پر فون کیا ہو اور کمپنیوں پر لازم ہے کہ وہ ٹیلیفون نمبر، کالنگ کارڈ نمبر، انٹرنیشنل سبسکرائبر شناخت نمبر، انٹرنیشنل موبائل اسٹیشن آلات نمبر، فون کال کی تاریخ اور وقت کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کریں۔
ایسی اطلاعات ہیں کہ امریکی سیکورٹی ایجنسی کےPrism نامی پروگرام کی زد میں آنے والے لوگوں میں ایک بڑی تعداد پاکستانیوں کی ہے۔ برطانوی اخبار گارڈین کے انکشاف کے مطابق پاکستان ایران کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جو امریکی سیکورٹی ایجنسیوں کی نگرانی کا مرکز بنا ہوا ہے اور کمپیوٹر کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک کروڑوں پاکستانیوں کی کمیونی کیشن ریکارڈ کی نگرانی کی جاچکی ہے جس میں زیادہ تر معلومات کمپیوٹر اور ٹیلیفون نیٹ ورک سے حاصل کی گئیں۔ ان انکشافات نے ہماری سیکورٹی ایجنسیوں کو بھی تشویش میں مبتلا کردیا کہ کس طرح امریکہ کی سیکورٹی ایجنسی کو پاکستان میں اتنے بڑے پیمانے پر انفارمیشن تک رسائی حاصل ہوئی تاہم حکومت پاکستان نے دباؤ میں آکر کچھ دن قبل امریکی سفارتخانے کے ڈپٹی چیف آف مشن رچرڈ ہوگلینڈ کو دفتر خارجہ طلب کرکے مذکورہ رپورٹ کی تصدیق چاہی اور پاکستانی شہریوں کے انٹرنیٹ اور ٹیلیفون کالز ریکارڈ کئے جانے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تاہم معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے زیادہ اچھا ہوتا کہ امریکی ڈپٹی چیف آف مشن کے بجائے امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا جاتا۔حالیہ اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد فریڈم آف پرائیویسی اور ہیومن رائٹس کے علمبردار ملک امریکہ کا اصل چہرہ کھل کر سامنے آگیا ہے۔ امریکی نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے پروگرام Prism نے دنیا بھر کے لوگوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا امریکی پروگرام Prism انسانی حقوق اور انٹرنیٹ صارفین کی پرائیویسی کے حقوق کے برخلا ف نہیں؟ ایسے وقت میں جب پاکستان میں نومنتخب حکومت کوشش کررہی ہے کہ امریکہ کے ساتھ نئی ورکنگ ریلیشن شپ قائم کی جائے، اس طرح کے انکشافات منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ نومنتخب حکومت کو چاہئے کہ وہ اس معاملے پر امریکہ کو اپنی تشویش سے آگاہ کرے اور امریکہ پر واضح کیا جائے کہ پاکستانی شہریوں کی ای میلز، کمپیوٹر معلومات، ٹیلیفون کالز کی ریکارڈنگ اور متواتر ڈرون حملوں سے امریکہ کا پاکستان سے خوشگوار تعلقات استوار کرنے کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔
تازہ ترین