• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترکی گزشتہ بیس روز سے مظاہروں کی لپیٹ میں ہے اور ان مظاہروں کے بارے میں پاکستان کے میڈیا نے بھی بڑی تفصیلی روشنی ڈالی ہے لیکن انہوں نے یہ تفصیلات زیادہ تر غیر ملکی ذرائع سے حاصل کی ہے جو کہ زیادہ تر ڈس انفارمیشن پر مبنی ہے۔ ہمارا میڈیا اس حد تک غیر ملکی میڈیا پر انحصار کررہا ہے وہ انہی کی زبانی واقعات کو پیش کرتا چلا آرہا ہے۔ مثال کے طور مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات ان مظاہروں کے محور گیزی پارک (گیزی لفظ سیر و تفریح کے معنیٰ میں استعمال کیا جاتا ہے) کو غیر ملکی میڈیا ہی کی طرح غازی پارک کے طور پر پیش کرتے رہے حالانکہ غازی نام کا اس پارک سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے پھر ہم اس وزیراعظم کا نام جن کو پاکستان سے گہری محبت ہے اور جنہوں نے اپنے پندرہ اور سولہ جون کے انقرہ اور استنبول کے عظیم الشان اجتماعات کا آغاز لاہور اور اسلام آباد کے عوام کے ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے پر انہیں سلام پیش کرتے ہوئے کیاان کا نام بھی ہم ہمیشہ ہی اردو زبان میں غلط تحریر کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ان کے نام کو انگریزی سے نقل کرنا ہے۔ یہ درست ہے کہ قدیم عثمانی زبان میں یہ نام ”ایردوغان“ کے طور پر ہی تحریر کیاجاتا تھا لیکن 1928ء کے ترکی زبان کے انقلابِ حروف کے بعد ترکی زبان سے ع اور غ کے حروف حذف کر دیئے گئے اور موجودہ دور میں ان حروف کا استعمال متروک ہو چکا ہے۔ جدید ترکی زبان میں یہ نام "Erdogan" کے طور پر تحریر کیا جاتا ہے لیکن اس کے لئے ترکی زبان میں ایک خاص علامت والا لفظ "g" استعمال کیا جاتا ہے جو کہ ترکی زبان میں ساکت ہے اور کوئی آواز نہیں دیتا بلکہ یہ حرف صرف حرفِ علت کو طول دینے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس طرح اردو میں اس کی ادائیگی ”ایردوان“ ہی کے طورپرہوتی ہے۔ اسے”ایردوگان“ یا ” ایردوغان“یا پھر ”ایردوعان“ کے طور پر پیش کرنا درست نہیں ہے۔ راقم جب وزیر اعظم ایردوان کے ساتھ ترجمان کے طور پر پاکستان آیا تھا تو اس وقت بھی راقم نے وزیراعظم کی پریس کانفرنس سے قبل وزیراعظم ایردوان کے نام کے بارے میں میڈیا کو آگاہ کردیا تھا تاکہ غلطی کی گنجائش موجود نہ رہے۔ علازہ ازیں کئی دیگر الفاظ کو بھی اسی طرح انگریزی سے نقل کرتے ہوئے میڈیا میں پیش کر دیا جاتا ہے جس میں شہروں اور کئی اہم شخصیات کے نام بھی ہوتے ہیں۔ اس لئے قارئین سے عرض ہے کہ وہ ترکی زبان کے ناموں کے لئے ترکی کے سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی اردو ویب سائٹ (trturdu.com) سے براہ راست معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ اس وضاحت کے بعداب ایک نظر ترکی میں رونما ہونے والے واقعات پر ڈال لی جائے۔ترکی میں گزشتہ بیس روزسے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور یہ مظاہرے صرف استنبول اور انقرہ تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ ترکی کے چند ایک شہروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔ ترکی کے بڑے بڑے شہروں میں ہونے والے یہ مظاہرے دراصل ان علاقوں میں ہو رہے ہیں جو کہ شہر کے پوش ایریاز کہلواتے ہیں اور جہاں پر ترک ایلیٹ آباد ہے۔ یہ ایلیٹ دراصل اپنے آپ کو سیکولر کہلوانے(ان کا یہ سیکولرازم صرف یکطرفہ ہے اور حقیقی سیکولرازم سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ نام نہاد سیکولر حلقے ہمیشہ سیکولرازم کو اپنے مقاصد کی تکمیل اور مذہبی حلقوں پر ظلم و ستم اور استبداد کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں) پر فخر محسوس کرتے ہیں۔یہ نام نہاد سیکولر حلقے اپنے آپ کو سوشلسٹ کہلوانے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان تمام افراد کا تعلق بائیں بازو کی سوشلسٹ پارٹی ری پبلیکن پیپلزپارٹی سے ہے۔ دنیا میں سوشلسٹ اور بائیں بازو کی پارٹیاں زیادہ تر غریب عوام کی فلاح و بہبود کے لئے قائم کی جاتی ہیں اور ان پارٹیوں کے زیادہ تر اراکین کا تعلق بھی غریب گھرانوں سے ہوتا ہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ ترکی کی یہ بائیں بازو کی اور سوشلسٹ نظریات رکھنے والی یہ جماعت جو کہ ترک ایلیٹ کا ایک گروپ ہے آج تک عوام میں اسے کوئی پذیرائی حاصل نہ ہوسکی اور یہ جماعت انونو دور میں فوج کے کندھوں پر سوار رہی اور طویل عرصے تک ملک پر اپنی حاکمیت جاری رکھی لیکن اسے کبھی بھی عوامی مقبولیت حاصل نہ ہوسکی بلکہ جن جماعتوں کو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی اس کے لئے اِس جماعت نے گڑھا کھودنے اور اسے اندھیرے میں دھکیلنے کی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس جماعت نے 1945ء میں کثیر الجماعتی نظام کے تحت پہلی بار ہونے والے انتخابات میں اتنے بڑے پیمانے پر دھاندلی کی کہ بہت بڑے مارجن سے انتخابات جیتنے والی ڈیموکریٹ پارٹی کو فوج کے دباؤ پر شکست تسلیم کرنا پڑی پھر پچاس کی دہائی میں عوام کے دلوں پر راج کرنے والی ڈیموکریٹ پارٹی کے رہنما عدنان میندرس اور ان کے دو دیگر ساتھیوں کو ری پبلیکن پیپلزپارٹی ہی نے فوج کے ساتھ ساز باز کرتے ہوئے تختہ دار پر چڑھا دیا۔
ایلیٹ طبقے پر مشتمل اس جماعت کو ہمیشہ ہی فوج کی مکمل حمایت حاصل رہی اور فوج بھی اس جماعت کو برسراقتدار لانے کے لئے مختلف کھیل کھیلتی رہی لیکن اس کے باوجود کبھی بھی یہ جماعت عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب نہ ہوسکی بلکہ تئیس فیصد حلقے کی حمایت حاصل کرتے ہوئے ملک کے سیاہ سفید کی طویل عرصے تک مالک بنی رہی لیکن کتنی عجیب بات ہے یہ جماعت جو ان دنوں ایک محبوب عوامی رہنما ایردوان پر ڈکٹیٹر ہونے کا الزام عائد کررہی ہے خود ہمیشہ ہی فوج کی گود میں بیٹھ کر اور اتاترک کا نام استعمال کرتے ہوئے ایک خاص طبقے ہی کو خدمات فراہم کرتی رہی ہے۔ کیا ری پبلیکن پیپلزپارٹی نے کبھی اس بات پرغور کیا کہ اس نے ملک میں اتنے طویل عرصے حکومت کی اور عوام کو کوئی قابلِ ذکر سہولت فراہم کی؟ یہ جماعت اب کس منہ سے آق پارٹی کا مقابلہ کرتی ہے؟ اس پارٹی کے دورِ اقتدار میں ترکی میں کھانے پینے کی کوئی چیز حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ لوگ راشن کارڈوں پر روٹی، چینی، تیل، پٹرول اور گوشت حاصل کیا کرتے تھے۔ اس پارٹی کے دور میں ملک سے باہر جانا ہی ممکن نہ تھا بلکہ لوگ کنویں کے مینڈک کی مانند زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔ ری پبلیکن پیپلزپارٹی کے موجود چیئرمین سے قبل کے چیئرمین دینز بائیکال کے دور میں لوگ گھروں کے اندر اور دفاتر میں سخت سردیوں میں گرم کپڑوں اور اوور کوٹ کے ساتھ بیٹھنے پر مجبور ہوتے تھے۔ سرکاری ملازمین کی آمدنی وسط ایشائی جمہوریتوں کے آمدنی سے بھی کم تھی۔ غیر ملکی اشیاء کا ملک میں کوئی تصور ہی نہ تھا اورملک خود بھی اس قابل نہ تھا کہ وہ کوئی قابل ذکر شے پیدا کرسکے۔ قارئین کرام میں تاریخ سے قبل کے کسی دور کی بات نہیں کررہا ہوں بلکہ صرف بارہ سال قبل کی بات کررہا ہوں۔
عوام نے اس جماعت سے مایوس ہو کر اپنوں ہی میں سے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا جس نے ترکی کی تقدیر بدل کر رکھ دی۔ قسمت کے اس دھنی شخص کے خلاف کیونکر مظاہرے ہو رہے ہیں ؟ وزیراعظم ایردوان نے خود اپنے خلاف ہونے والے اٹھارہ روز کے مظاہروں کے بعد خاموشی توڑتے ہوئے پہلے انقرہ اور پھر استنبول کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے عوام کے سمندر سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”اگر میں ڈکٹیٹر ہوتا تو کیا میں اس مسئلے کے حل کے لئے ریفرنڈم کرانے کی تجویز پیش کرتا؟انہوں نے اس موقع پر کہا کہ 2002ء میں جب انہوں نے اقتدار سنبھالا تو اس وقت ترکی کے سینٹرل بینک کے پاس صرف ساڑھے ستائیس بلین ڈالر کے ریزرو موجود تھے جو کہ اب بڑھ کر 135 بلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ اس وقت ترکی میں سود کی شرح 67 فیصد تھی جو اب صرف چار فیصد رہ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ جب برسراقتدار آئے تھے تو اس وقت ملک پر آئی ایم ایف کا قرضہ ساڑھے تئیس بلین ڈالر تھا جو ہم نے ماہ مئی 2013ء میں مکمل طور پر ادا کرتے ہوئے اکیاون سال کے طویل عرصے بعد آئی ایم ایف سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کرلیا ہے اور دنیا کے چار بڑے کریڈٹ ریٹنگ اداروں نے دنیا میں اقتصادی بحران ہونے کے باوجود ترکی کی کریڈٹ ریٹنگ میں چار درجے تک اضافہ کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی طویل عرصے کے بعد آخر کار دہشت گردی کے واقعات سے مکمل طور پر چھٹکارحاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ انہوں نے عوام کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ ترکی46 بلین ڈالر مالیت سے2017ء تک دنیا کا سب سے بڑا ہوائی اڈہ تعمیر کررہا ہے۔ بائیس بلین ڈالر سے تیسرا نیوکلیئر پلانٹ جاپان کے تعاون سے تعمیر کررہا ہے۔ ترکی نے ڈھائی بلین ڈالر مالیت کے آبنائے استنبول پر تیسرے پل کی سنگ بنیاد رکھ دیا ہے جو چار رویہ اور بلٹ ٹرین کے گزرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ زیر سمندر ریلوے اور پل اسی سال مکمل ہو رہا ہے۔ وزیراعظم ایردوان نے ٹھاٹھیں مارتے عوام کے سمندر سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ پچاس فیصد عوام کے دلوں کو نہیں بلکہ سو فیصد عوام کے دلوں کو جیتنے کے متمنی ہیں۔ایسے عوامی لیڈر کو بھلا ایک چھوٹا سے اقلیتی گروپ کیانقصان پہنچائے گا؟ وزیراعظم ایردوان اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ ”بیلٹ بکس سے اقتدار میں آنے والوں کو بیلٹ بکس ہی سے اقتدار سے ہٹایا جاسکتا ہے“۔
تازہ ترین