• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چلیں آج پھر نوحہ خوانی کرتے ہیں ، روشنی اور خوشبو کا مرثیہ لکھتے ہیں ۔عمران خان نے کہا ہے’’جیلوں میں صرف غریب لوگ نظرآتے ہیں ،ہماراانصاف کا نظام کمزورہے ‘طاقتور ڈاکوؤں کو نہیں پکڑ سکتا ‘‘ہم بھی اپنے وزیر اعظم کے ساتھ مل کراِسی بےرحم اور سفاک نظام کی گرفت میں سسکتی ہوئی انسانیت پر کوئی آنسوئوں اور آہوں سے بھری نظم کہتے ہیں۔ کوئی چیخوں بھری کہانی سناتے ہیں۔ تھوڑا سا جیل کی علامت اور وسیع کرتے ہیں۔ میں بظاہر آزاد ہوں مگر سچائی یہی ہے کہ میں جیل میں ہوں۔ البتہ ہے جیل بڑی کھلی ڈلی۔ نظم پیش ِخدمت ہے

میرے ساتھ کے قیدی روز شکایت کرتے تھے

جیل کے کمرے تنگ بہت ہیں

موت کے سائے سنگ بہت ہیں

بند ہے جیون صندوقوں میں

آگ اگلتی بندوقوں میں

چند صحافی جیل میں آئے

اخباروں کی خبریں بن کر

چھوٹی چھوٹی کوٹھڑیوں سے

زخم نکل کرجاپہنچے ایوانوں تک

نازک ذہن (ایلیٹ کلاس جو رکھتی ہے)

تجریدی آرٹ کے شہ پاروں کو سوچنے والے ذہن

مہ پاروں کوسوچنے والےذہن

نرم ملائم آوازوں سے لطف اٹھانے والےذہن

خوگرپیار جھمیلوں کے،

عادی خوابیدہ کھیلوں کے

اور مسائل جیلوں کے

ان کی سوچ سے باہر تھے

سوچتے تھے

آبادی میں روز اضافہ ہوگاروز شکایت ہوگی

کب تک ہم تعمیر کریں گے جیل کے کمرے

سو نازک ذہنوں نے ،

اس عقدے کے سلجھانے میں ساری عقل لگادی

کافی سوچ بچار کے بعد

اپنے محلوں سے باہر کی دنیا جیل بنادی)

بے شک عمران خان نے درست کہا ہے کہ ’’اشرافیہ (ایلیٹ کلاس ) نے پورے سسٹم کو گھیر لیا ہے اور اس پر قبضہ کیا ہوا ہے ‘ تیس تیس سال سے حکومتیں کرنے والے سب اکٹھےہوگئے ہیں‘ یہ حکومتوں میں آنے سے پہلے کیا تھے اور آج اربوں کھربوں پتی بن چکے ہیں ‘ یہ طبقہ حساب دینے کو تیار نہیں کہ ہم قانون سے اوپر ہیں۔ پاکستان میں طاقتور کے لئے قانون نہیں ‘عدالتوں میں زمینوں کے کیس کا پچاس ، پچاس سال فیصلہ نہیں ہوتا‘اس طرح ایک ٹرائیکا بن گیا جس میں جج،پولیس اور قبضہ گروپ مل گئے‘یہ لوگ کمزور لوگوں یا حکومت کی زمینوں پر قبضے کرتے رہے۔‘‘

ابھی ایک بات سندھ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ نے کہی اور درد کے خنجر نے میرا سینہ چیر دیا ’’کیا اب صرف بڑے لوگوں کے بچے ہی پڑھتے ہیں، کسی ہاری مزدور کا بیٹا افسر کیوں نہیں بنتا‘‘۔ جس طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہوں سلگتے ہوئے سوال تیروں کی طرح لپکتے ہیں۔ انہی سوالوں کا جواب ڈھونڈنے پاکستان کے غریبوں نے تحریک انصاف کوووٹ دئیے تھے، عمران خان کو وزیر اعظم بنایا تھا مگر اشرافیہ نے نظام پر اپنی گرفت اتنی مضبوط رکھی ہوئی ہے کہ اڑھائی سال گزر چکے ہیں اور عمران خان ابھی تک تلملا رہے ہیں ۔یہ نظام انہیں اشرافیہ کے خلاف کچھ کرنے نہیں دے رہا۔ اس اشرافیہ کے خلاف میں نے ’’ مافیا ‘‘ کا نام سےایک سیریل لکھ کر پی ٹی وی کو دیامگر پی ٹی وی اسے کرنے کی جرات نہیں کررہا۔ مختلف حربوں سے روک رکھا ہے۔ ایم ڈی پی ٹی وی کو ڈرایا گیا ہے کہ اگر یہ ڈرامہ پروڈیوس ہوگیا تو پتہ نہیں آپ کے ساتھ کیا ہوگا۔ میں اس سلسلے میں وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری سے ایک بار ایم ڈی کو کہلا چکا ہوں کہ یہ ڈرامہ پروڈیوس کیا جائےمگر اطلاع یہی ہے کہ فائل منگوا کر اپنے پاس رکھ لی گئی ہے۔میں فواد چوہدری سے التماس کرتا ہوں کہ فوری طور پر پی ٹی وی کے معاملات دیکھیں ۔اب بھی پرائیویٹ پروڈکشن انہی لوگوں سے خریدی جارہی ہے جو کمیشن دیتے چلے آرہے ہیں۔ اب بھی پی ٹی وی میں لوٹ مار جاری ہے۔ اب بھی پی ٹی وی کے تمام اسٹیشنوں کے جنرل منیجر وہی لوگ ہیں جو کلرک یا درجہ ِ چہارم کے ملازم بھرتی ہوئے تھے۔ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ کنول مسعود کو جس دن ڈائریکٹر کے طور پروموٹ کیا گیا اس سے اگلے دن ریٹائرڈ کردیا گیاکہ آپ کی سروس پوری ہوچکی ہے۔پی ٹی وی بجلی کے بلوں کے ساتھ عوام سے اربوں روپے وصول کرنے کے باوجود ابھی تک خسارے میں ہے کیونکہ وہ چیز جس سے پی ٹی وی پیسے کماتا تھا وہ پروگرامنگ تھی، ڈرامہ تھا جو ختم ہوچکا ہے۔ مالی معاملات کا یہ حال ہےکہ پی ٹی وی کا ایک ہیڈ آف کرنٹ افیئرز رشید خان جسے ریٹائرڈ ہوئے ایک سال ہونے کو ہے مگر اسے اپنے واجبات میں سے ایک روپیہ بھی نہیں مل سکا۔ اس کی کہانی بھی سنا دوں۔ وہ عمران خان کے حلقے سے تعلق رکھتے ہیں، عطاﷲ عیسٰی خیلوی کے قریبی دوست ہیں۔ جب ریٹائرڈ ہونے لگے تو اس سے پہلے وہ عطاﷲ عیسٰی خیلوی کے ساتھ عمران خان سےملے ، عیسٰی خیلوی نے وزیر اعظم کو بتایا کہ یہ پی ٹی وی کے کتنے قابل افسر ہیں ،انہیں ریٹائرڈ ہونے سے پہلے پی ٹی وی کنٹریکٹ پر کوئی اچھی جاب دی جائے، وزیر اعظم نے اسی وقت شہباز گل سے کہا کہ فوراً ایم ڈی پی ٹی وی کو اس سلسلے میں میرا پیغام دو۔ پیغام پہنچا دیا گیا کوئی عمل درآمد نہ ہوا۔ رشید خان ریٹائر ہو گئے۔ دو تین ماہ کے بعد پھر عیسٰی خیلوی اسی سلسلے میں وزیر اعظم سے ملے اور یہی ریکویسٹ کی۔ اس مرتبہ وزیر اعظم نے اس وقت اپنے مشیر اطلاعات جنرل عاصم باجوہ کو رشید خان کیلئے کہا، جنرل صاحب نے رشید خان کو بلوایا اور کہا کہ بہت جلد آپ کا کام ہوجائے گا مگر کام نہ ہوا۔ میں نے بھی اس سلسلے میں دو مرتبہ شہباز گل سے بات کی۔ انہوں نے دونوں مرتبہ ایم ڈی کو کہا مگر کام نہ ہوا۔ سو یہ کالم اسی لئے فواد چوہدری کے نام کررہا ہوں کہ جناب ِ والا آپ پی ٹی وی کے بھی وزیر ہیں۔

تازہ ترین