• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خان اعظم کے آدھے دور حکومت کی ادھوری کہانی یہ ہے کہ فیصل واوڈا کی جیتی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست پر حکمران جماعت تحریک انصاف کو شکست ہو گئی۔ ان کے امیدوار کونیچے سے کچھ اوپر والے نمبر پر کھڑے ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ لوگ تو ضمنی انتخاب کے انتہائی تاخیر سے آنے والے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے دوران یہ بھی کہتے سنے گئے کہ ہمارے خان اعظم کے ایک ادنیٰ سے کھلاڑی نے سب سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو آگے لگا رکھا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ حلقہ این اے 249کراچی کے ضمنی انتخابی نتائج نے خان اعظم کی حکومت کو چاروں شانے پچھاڑ دیا ہے اور یہ کامیاب کوشش کسی اور نے نہیں خود خان اعظم نے اپنے خلاف کی ۔ اگرچہ پی ڈی ایم چھوٹے بڑے مفادات کے باعث تتر بتر ہو چکی ہے ۔ خان اعظم شایداسی خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ اب تو میدان بالکل صاف ہے ،کوئی ان کے مد مقابل نہیں اور وہ یہ ضمنی انتخاب بآسانی جیت کراپنا کھویا اعتماد دوبارہ بحال کرلیں گے‘یہ غلط فہمی بھی دور ہوگئی۔ اب تو عوام ایسے متحد نظر آتے ہیںکہ اپوزیشن جماعتیں جائیں بھاڑ میں ، کوئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے نہ لائے وہ گلی محلوں میں حکومت کے خلاف ووٹ کی طاقت سے آئے روز عدم اعتماد کی قراردادیں منظور کررہے ہیں اور بلا سوچے سمجھے کہ کس جماعت کا کون سا امیدوار کتنا اہل یا نااہل ہے صرف اسی سوچ کے ساتھ ڈبے میں دھڑا دھڑ ووٹ ڈالے جارہے ہیں کہ جہاں کہیں بھی انہیں موقع ملے حکومت یا حکومتی امیدوار کو شکست سے دو چار کیا جائے۔

یہ صورت حال آپ کراچی کے ضمنی انتخاب کے نتائج سے محسوس کرسکتے ہیں کہ 2018 ءکے عام انتخابات میںاسی حلقے میں تحریک انصاف کے فیصل واوڈا اور ن لیگ کے صدر شہباز شریف کے درمیان کانٹے دار مقابلہ دیکھنے کو ملا۔ اگرچہ شہباز شریف چند سوووٹوں کی کمی سے ہار کر دوسرے نمبر پر رہے اور کالعدم ٹی ایل پی تیسرے ، ایم کیو ایم پاکستان چوتھے نمبر پر تھی پیپلز پارٹی ان نتائج میں کسی نمبر پر بھی کھڑی نظر نہیں آئی لیکن حیران کن طور پر29اپریل 2021ءکے ضمنی انتخاب میں اسی گمشدہ پیپلز پارٹی کے امیدوار قادر خان مندو خیل 16156 ووٹ لے کر میدان مار گئے۔ ن لیگ کے امیدوار مفتاح اسماعیل15573ووٹ کے ساتھ دوسرے ، کالعدم ٹی ایل پی تیسرے نمبر پر رہی اور حکمران جماعت تحریک انصاف خود اپنی ہی جیتی ہوئی نشست پر نتائج کی فہرست میں کہیں گم ہوگئی۔ یہ انتخابی صورت حال جہاں کچھ لوگوں کے لئے خوشی کا باعث ہے تو وہاں خان اعظم کے لئے لمحہ فکریہ ہے‘ دوسری طرف امپائربھی شدید دباؤ میں ہوگاکہ جب اپنی پسندیدہ ٹیم ہی کوئی کارکردگی نہ دکھا پائے تو پھر کب تک ممکن ہے کہ بائیس کروڑ عوام کو ایک انگلی کے اشارے پر ایل بی ڈبلیو قرار دے کر گھر بٹھا دیا جائے۔ یقیناً جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے اور عوام یہ انتقام اب کھلم کھلا لے رہے ہیں اور آف دی ریکارڈ یہ واضح پیغام دے رہے ہیں کہ اب انہیں یہ تیتر بٹیر نظام کسی صورت قبول نہیں، عوام کا اس نظام سے اعتماد اٹھ چکا ہے وہ ہر اس موقع پر اپنا شدید رد عمل ظاہر کرتے ہیں جہاں ان کا براہ راست حکومتی نمائندوں یا حکومتی مشینری سے آمنا سامنا ہو۔

ضمنی انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف کے امیدوارامجدآفریدی جس کسی کے دروازے پر بھی ووٹ مانگنے گئے انہیں شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا، انہیں چینی چور کے نعرے سننے پڑے، بعض مقامات پر ان کا گھیراؤ بھی کیا گیا۔ یہ صورت حال کسی بھی فریق کے لئے نیک شگون نہیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ تحریک لبیک ( جسے کالعدم لکھنا یا نہ لکھنا ابھی واضح نہیں ) کی قیادت کے کہنے پر ملک بھر میں احتجاج ، دھرنے ، توڑ پھوڑسے جس طرح نظام زندگی مفلوج ہوا ، شہریوں و پولیس اہلکاروںکی جو شہادتیں ہوئیں خدا جانتا ہے کہ راتوں کی نیند اُڑ گئی اور دماغ اس صدمے سے ہی باہر نہیں نکل پا رہا کہ ہم مسلمان کس طرح ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو رہے ہیں ۔ یہ مناظر دیکھ کر دل دہل جاتا ہے کہ ہم کس طرف جارہے ہیں۔

کراچی کے ضمنی انتخابی نتائج میں عقل والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔ اقتدار سے منسلک تمام حلقوں کے لئے جہاں پریشانی ہے ‘وہاں اپوزیشن جماعتوں کے لئے بھی کوئی اچھا پیغام نہیں کیونکہ عوام کی سوچ تیزی سے بکھر رہی ہے ۔ ان کا ووٹ تقسیم در تقسیم ہو رہا ہے۔ ووٹر کا مذہبی رحجان بھی بہت نمایاں نظر آرہا ہے۔ایک کالعدم تحریک کو الیکشن لڑنے کی اجازت دینا، اس کا ووٹ بینک مسلسل تیسرے نمبرپر برقرار رہنا بذات خود ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ مریم نواز کی زور زبردستی سے الیکشن نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کوئی اچھی روایت نہیں، اگر یہ روایت جڑ پکڑ گئی تو کل کوئی بھی اٹھ کر اس نظام کو چیلنج کر سکتا ہے۔ بہتر ہے کہ اس بارے میں قانونی راستہ اختیار کیا جائے۔ 249 کے انتخابی معرکے کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ جہانگیر ترین کا۱40ناٹی گروپ ان حالات میں کسی محفوظ مقام پر منتقل ہونے کو ہی ترجیح دے گا؟ سوال یہ ہے کہ خان اعظم کی کمزور ہوتی حکومت کو اب سہارا دینے کون آئے گا؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین