• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بجٹ 2013ء کی رونمائی اسحاق ڈار کر چکے مگر حسب معمول بجٹ کی منہ دکھائی میں عوام سے تو جی بھر کر حاصل کیا گیا لیکن اس میں عوام کیلئے کچھ نہیں۔ بجٹ الفاظ اور اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ہے۔ 2012ء کے بجٹ میں وزیر خزانہ کا روئے سخن صدر زرداری کی طرف تھا اور2013ء میں نوازشریف کی طرف۔ مجھے تو یہی فرق نظر آتا ہے کسی باریک بین کو کچھ اور نظر آتا ہو تو کچھ کہہ نہیں سکتا ۔سابقہ حکومت نے 5سال میں مرحلہ وار سیلز ٹیکس12سے 16فیصدکیا اور مہنگائی کے طوفان کا رخ عوام کی طرف موڑے رکھا۔ اب کی بارحکومت نے سیلز ٹیکس 16 سے 17فیصد کر دیا ہے لہٰذا تمام ضروریات زندگی کی قیمتیں بڑھ جائینگی ، غریبوں کی جیبوں سے مزدوری نکل کر سرکاری خزانے میں چلی جائیگی۔ وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف جب اپوزیشن میں تھے تو لوڈشیدنگ کو حکومتی جعل سازی کہتے تھے، عدالتوں میں بھی اس جعل سازی کے خلاف گئے، اب وزیر بنے ہیں تو بجلی کی قیمت میں اضافے پر ان کا کہنا یہ ہے کہ لوڈشیدنگ کے خاتمے کیلئے سالوں درکار ہیں ۔کیا ان کے بیانات اور مقدمہ بازیاں عوام کو محض بیوقوف بنانے کے لئے تھے۔ میرا سوال یہ ہے پاکستان کے پاس 21500میگاواٹ بجلی بنانے کے وسائل ہیں اور ضرورت 17ہزار میگاواٹ سے زیادہ نہیں پھر لوڈشیڈنگ کیوں۔ شاید خواجہ صاحب کا جواب یہ ہو کہ مہنگا تیل خریدنے کیلئے ہمارے پاس زرمبادلہ نہیں۔ میری رائے ہے کیوں نہ ہر قسم کی غیر ضروری امپورٹ بند کرکے صرف تیل ہی خریدا جائے تاکہ لوڈ شیدنگ ختم ہو اور معیشت کا پہیہ چل سکے۔موٹر ویز کا جال بچھانے کے دعوے کئے گئے ہیں، ایران سے سستی بجلی،گیس ،تیل لینے کیلئے پائپ لائن بچھانے کے عمل کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ قوم کے مسئلے کا فوری حل تو گیس تیل بجلی کی درآمد ہے۔ زرداری حکومت اقتدار میں آتے ہی ایران سے گیس بجلی اور تیل لینے کا مشکل فیصلہ کر لیتی تو آج عوام کو یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ ہمارے حکمرانوں کی خارجہ پالیسی کا مقصد و محور امریکی خوشنودی رہا لہٰذا سابقہ حکمرانوں نے بھی الیکشن کے قریب آ کر محض پوائنٹ اسکورنگ کی تھی اور شاید موجودہ حکمران بھی یہی کریں گے۔ امریکی استحصالی نظام کا مرکزی نقطہ نگاہ عوام نہیں خواص ہیں ۔ان کا ایجنڈا ہے ہر ملک کی قومی دولت کا رخ خواص کی طرف ہو تاکہ یورپ ،امریکہ کی مہنگی اشیاء کی امپورٹ ممکن ہو اورکھپت بڑھے۔ عام آدمی کو اتنا ہی دیا جائے جس سے جسم وجان کا رشتہ قائم رہے تاکہ وہ محنت سے پیداواری وسائل بڑھاتا رہے اوراستحصالی نظام کو چلاتا رہے۔ وینز ویلا کے مرحوم صدر شاویز سے امریکہ کا یہی اختلاف تھا ۔وینزویلا تیل پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہے ۔امریکہ چاہتا تھا تیل کی دولت وینزویلا کے عوام کے بجائے خواص تک محدود رہے اور وینزویلا امریکہ کی مہنگی کاروں اور دیگر اشیاء کا امپورٹر بنا رہے۔ شاویز نے تیل کی دولت کا رخ ہمیشہ عوام کی طرف رکھا اور امریکہ اسے برائی کا محور گردانتا رہا ۔برازیل کا صدر لولا ایک عام مزدور سے ایوان صدارت تک پہنچا ،برازیل کی جامد معیشت کو حرکت میں لا کر اس کے ثمرات عام آدمی تک منتقل کئے تو اسی لولا کے خلاف کرپشن کے جعلی اسکینڈل بنائے اور اسے اقتدار سے نکال باہر کیا۔ ماضی میں صدام ،قذافی، سوئیکارنو ،بن بیلا اور شاہ فیصل بھی امریکی پالیسیوں سے اختلاف کا نشانہ بنے۔میں پھر موٹرویز کی طرف آتا ہوں موٹرویز، بلٹ ٹرینوں اور ریپڈ بسوں جیسے نمائشی اقدامات ہماری ضرورت نہیں، پیداواری وسائل میں اضافہ ہماری ضرورت ہے۔ بھارت اس وقت 3سو ارب ڈالر کی اکانومی بن چکا ہے مگر اس نے ایک موٹر وے نہیں بنایا اور نہ ہی بجٹ میں اس نے ایسے کسی پروجیکٹ کے لئے کبھی رقم مختص کی ہے،سارا زور ہائی ویز بنانے پر ہے۔ پاکستان پر 56/ارب ڈالر غیر ملکی قرضہ ہے جبکہ اندرونی اور بیرونی کل قرضہ 16000/ارب کے قریب پہنچ چکا ہے اور ہم موٹرویز جیسے پروجیکٹ بنا نے کے دعوے کر رہے ہیں۔ بھارت 4ہزار ڈیم بنا چکا ہے اور مزید بنا رہا اور ہم موٹرویز کی باتیں کر رہے ہیں۔ بھارت قوم بن رہا ہے اور ہمار ے ہاں لیپ ٹاپ ، بے نظیرانکم سپورٹ جیسی نمائشی اسکیمیں ہیں۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ5لاکھ روپے قرض حسنہ کس کو دیا جائے گا، قرض کی واپسی کا کیا طریق کار ہو گا، قرض کیلئے رقم کہاں سے آئے گی مگرکچھ واضح نہیں۔ سولر انرجی پروجیکٹ ،سولر انرجی لیمپ کہاں گئے ۔ شاید ان کا ذکر پنجاب کے صوبائی بجٹ میں ہو۔ گھر بنانے کیلئے 15سے 50لاکھ روپے قرض پچاس ہزار نوجوانوں کو دیا جائیگا ۔اس قرض کا پروسیجر کیا ہو گا، قرض لینے والے کی اہلیت کیا ہو گی، نوجوان قرض واپس کیسے کریں گے،ان پروجیکٹوں پر عملدرآمد کب ہو گا ، ہوگا بھی یا نہیں، کچھ واضح نہیں۔ اگر عملدرآمد ہوا تو بہتر ہے۔ وزیراعظم نے کابینہ سے خطاب میں فرمایا ہے ملک مشکل معاشی صورتحال سے گزر رہا اپنا پیٹ کاٹ کر خود کو قوم کے سامنے مثال بنا کر پیش کرناہوگا مگر پورے بجٹ میں پیٹ صرف قوم کا کاٹا گیا ہے ۔ہر بجٹ بنانیوالی حکومت یہی کہتی ہے حالات بہت مشکل ہیں مگر بجٹ کے بعد سب اللے تللے شروع ہو جاتے ہیں۔ وزیر خزانہ کہتے ہیں مختصر عرصے میں بجٹ بنانا آسان نہیں ۔ یقینا ایسا بجٹ بنانا جس میں قوم کوDeliver کرنا ہو آسان نہیں مگر مکھی پہ مکھی مارنا کچھ مشکل کام نہیں ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ صرف گردشی قرضے60 دنوں میں واپس کرکے اسٹیٹ بنک سے نئے قرضے لے لینا قوم کی کون سی خدمت ہو گی، نوٹ تو چھپیں گے ،آئی ایم ایف سے Re rolling loanلینا کونسا ذہانت اور مشقت ہے۔ آئی ایم ایف والوں نے پہلے ہی شیڈول بنا رکھا ہے جان کیری کے دورے کا انتظار ہے، بجٹ ماضی کی طرح امریکی فلاسفی کے عین مطابق ہے ، بجٹ تو بیوروکریسی سارا سال بناتی رہتی ہے ،وہی پرانے ہیڈز کی شیٹوں میں کچھ الفاظ ادھر ادھر کرکے ہمارے وزیر خزانہ پیش کردیتے ہیں اگر بجٹ پر محنت کرنے کا رواج ہوتا تو قوم بجٹ کے نام سے ہر سال کانپتی کیوں ۔ایک عام آدمی سے جب بھی بجٹ پر تبصرہ کرنے کو کہا جاتا ہے تو وہ ایک ہی بات کہتا ہے کہ بجٹ آگیا مہنگائی بڑھ جائے گی ۔یہ بات پچھلے66سالوں میں کبھی غلط ثابت نہیں ہوئی اور موجودہ بجٹ پر بھی اس سے بہتر تبصرہ اور کوئی ہو نہیں سکتا اور اب میں بھی بجٹ پر اس سے زیادہ کچھ تبصر ہ نہیں کرسکتا کہ اس بجٹ کے بعد بھی مہنگائی بڑھ جائیگی اور عوام کی قوت خرید مزید سکڑ جائیگی۔
تازہ ترین