• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آخر کار قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کا دفتر کھل گیا۔ اب امریکی حکومت اورطالبان میں براہ راست مذاکرات ہوں گے۔ دوحہ میں طالبان کا دفتر کھلنے کے بعد مجھے کچھ پرانی باتیں یاد آرہی ہیں۔ 8 اکتوبر 1996ء کو میں نے ایک کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا ۔ ”امریکا طالبان کی مدد کیوں کررہا ہے؟“ یہ کالم میں نے نیویارک سے لکھ کر بھیجا تھا جہاں مجھے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر کی راہداریوں میں ایک پاکستانی سفارت کار نے بتایا تھا کہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو امریکی دباؤ پرطالبان کی حمایت کررہی تھیں۔ میں ایک صحافی کی حیثیت سے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے وفد میں شامل تھا اور حیران تھا کہ عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم افغانستان میں طالبان کی حمایت کررہی تھیں؟ میں نے اپنے اس کالم میں لکھا کہ امریکا طالبان کے ذریعہ افغانستان میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنا چاہتا ہے، پوست کی کاشت پر قابو پانا چاہتا ہے اور ترکمانستان سے افغانستان کے راستے گوادر تک ایک پائپ لائن بچھانا چاہتا ہے۔ میں نے اس کالم میں حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ اسامہ بن لادن طالبان کی مشاورت کرتا ہے لیکن امریکا کواس سے کوئی غرض نہیں وہ طالبان کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اس کالم کی اشاعت کے بعد مجھے وزیراعظم صاحبہ نے بلایا اور طالبان کے حق میں ایک لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ ہم انہیں ریفارم کریں گے اور عورتوں کے متعلق ان کی پالیسی تبدیل کرائینگے۔ کچھ دنوں بعد وزیر داخلہ نصیراللہ بابر نے میرے دورہٴ قندھار کا بندوبست کیا۔ اس دوران نومبر 1996ء میں بے نظیر حکومت ختم ہوگئی۔ حکومت ختم ہونے کے بعد بے نظیر بھٹو صاحبہ نے مجھے بتایا کہ وہ گیس پائپ لائن کا منصوبہ امریکی کمپنی یونوکول کی بجائے ارجنٹائن کی کمپنی بریڈاس کو دینا چاہتی تھیں جس پر امریکی سفیر سے گرما گرمی ہوگئی اور میری چھٹی کرا دی گئی۔ 1997 ء میں نوازشریف قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت سے وزیراعظم بن گئے۔ نوازشریف افغان دھڑوں میں مفاہمت کے حامی تھے۔ اس دوران طالبان نے کابل پر قبضہ کرلیا تو پاکستان کے وزیر خارجہ گوہر ایوب نے وزیراعظم سے پوچھے بغیر ہی طالبان کی حکومت کو تسلیم کرلیا۔ اسی زمانے میں مجھے جلال آباد کے قریب تورا بورا کے پہاڑوں میں اسامہ بن لادن اور مولوی یونس خالص کیساتھ ملاقات کا موقع ملا۔ صاف نظر آرہا تھا کہ طالبان اور ان کی قیادت پاکستان کیلئے نرم گوشہ ضرور رکھتے ہیں لیکن پاکستان کے ہاتھوں استعمال نہیں ہونگے۔ اسامہ بن لادن نے 1997ء میں میرے ساتھ اپنے پہلے انٹرویو میں پاکستان، افغانستان، ایران اور چین کے اتحاد کی تجویز پیش کی لیکن طالبان قیادت نے ان کی اس تجویز پر ناگواری کا اظہار کیا کیونکہ ایران کی طرف سے شمالی اتحاد کو اسلحہ فراہم کیا جارہا تھا۔
1998ء میں نوازشریف حکومت نے طالبان پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ اسامہ بن لادن کو افغانستان سے نکالا جائے لیکن 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے نوازشریف کو حکومت سے نکال دیا۔ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں آتے ہی ایک بھارتی مسافر بردار طیارہ اغوا ہوا۔ اس طیارے کو قندھار لیجایا گیا اور بھارتی جیلوں سے کچھ قیدیوں کی رہائی کے عوض بھارتی مسافر چھوڑ دیئے گئے۔ اس واقعے کے بعد عالمی برادری میں پاکستان کی سیاسی تنہائی کا آغاز ہوا۔ اپریل 2001ء میں مجھے جناب قاضی حسین احمد کے ہمراہ تہران میں افغان رہنما گلبدین حکمت یار سے ملاقات کا موقع ملا تو پتہ چلا کہ افغان طالبان ایران کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں۔ میں طالبان کی خفیہ سفارت کاری کی داد دینے پر مجبور ہوگیا کیونکہ پاکستانی حکام کا خیال تھا کہ طالبان ان کی جیب میں ہیں اور وہ انہیں اپنی جیب سے نکال کر کبھی بھی کسی کے ہاتھ پر رکھ سکتے ہیں۔ گیارہ ستمبر 2001ء کے واقعات کے بعد جنرل پرویز مشرف نے امریکی دباؤ پر ایک یو ٹرن لیا۔ بے نظیر بھٹو سے لیکر شیخ رشید احمد تک اکثر سیاسی رہنماؤں نے اس یو ٹرن کی حمایت کی لیکن عمران خان اور دینی جماعتوں کی قیادت کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے ہمیشہ اس یو ٹرن کی مخالفت کی۔ اس یو ٹرن کے باعث سابقہ مجاہدین کو دہشت گرد قرار دیدیا گیا۔ جس نے ریاستی اداروں کی ہاں میں ہاں ملائی اسے بخش دیا گیا جس نے سوال اٹھایا غدار قرار پایا۔ نائن الیون کے بعد ملک میں جس تشدد اور باغیانہ رجحانات نے جنم لیا ان پر قابو پانے کیلئے سکیورٹی اداروں اور خفیہ اداروں کو لامحدود اختیارات دیئے گئے جس کے باعث ریاست کے اندر کئی ریاستیں بن گئیں۔ جنرل پرویز مشرف کی پالیسی کا مرکز و محور ایک ناقابل فہم ڈبل گیم تھی۔ انہوں نے آئی ایس آئی اور سی آئی اے کی ملی بھگت سے پاکستان میں ڈرون حملے شروع کرائے اور انہی ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج بھی کرایا جاتا تھا۔ موصوف نے الزامات کی بناء پر بلوچوں کیخلاف کارروائیاں کیں جبکہ کئی مقدمات میں مطلوب الطاف حسین کو اپنا اتحادی بنایا۔ الطاف حسین نے 2006ء میں نئی دہلی جا کر قیام پاکستان کو ایک المیہ قرار دیدیا لیکن جب بلوچ لیڈر اکبر بگٹی نے اپنے صوبے کے حقوق کیلئے آواز اٹھائی تو انہیں غدار قرار دیکر شہید کردیا گیا۔ اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد بلوچستان میں بھی آگ لگ گئی اور غیر ملکی طاقتوں کو افغانستان کے راستے یہاں مداخلت کا موقع ملا۔ پاکستان کے طاقتور اداروں نے جو نرم دلی الطاف حسین کیلئے دکھائی وہ بلوچ قیادت کیلئے نہ دکھائی گئی اور حالات بگڑتے چلے گئے۔ جس کسی نے ناراض بلوچوں سے مذاکرات کا مشورہ دیا خفیہ اداروں کے سیکرٹ فنڈز پر پلنے والے صحافیوں نے انہیں غیر ملکی ایجنٹ قرار دینا شروع کردیا۔ جس کسی نے کہا کہ قبائلی علاقوں کے ناراض عسکریت پسندوں سے مذاکرات کرو اسے طالبان خان کہا گیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے لاپتہ افراد کے مقدمات سننے شروع کئے تو انہیں گھر میں بند کردیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت 2008ء میں ختم ہوگئی لیکن جنرل مشرف کی پالیسی اور ان کی باقیات آج بھی پاکستان کے وجود کو اندر سے کھوکھلا کرنے میں مصروف ہیں۔ مشرف کی باقیات اپنے سابقہ باس کی طرح ڈبل گیم میں مہارت رکھتی ہیں۔ دوپہر کو کھانے کی میز پر آپ کے ساتھ اظہار عقیدت کریگی رات کے اندھیرے میں کسی دشمن کے ساتھ مل کر آپ کے خلاف سازش کا حصہ بن جائینگی۔ جب تک پرویز مشرف کے خلاف مقدمات کو منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جاتا مشرف کی باقیات اپنی ڈبل گیم میں مصروف رہیں گی۔ نئی حکومت اب سوچ رہی ہے کہ مشرف پر آئین سے غداری کا الزام ایک ناقابل تردید حقیقت ہے آئین کی دفعہ چھ کے تحت مشرف کے ٹرائل کیلئے سپریم کورٹ کے حکم کا انتظار نہ کیا جائے بلکہ یہ کام خود ہی کردیا جائے تو جمہوریت کی نیک نامی میں اضافہ ہوگا۔
مشرف کے ٹرائل کا قطعاً یہ مطلب نہ ہوگا کہ نوازشریف حکومت فوج کی تذلیل کر رہی ہے۔ اس ٹرائل کا مطلب یہ ہوگا کہ آئین توڑنا واقعی ایک جرم ہے۔ اگر سیاستدانوں کو جھوٹے الزام میں پھانسی مل سکتی ہے تو ریٹائرڈ جرنیل کے سچے الزام میں جیل بھی ہو سکتی ہے۔ مشرف کو سزا ملنے کے بعد کسی خفیہ ادارے کا کوئی خفیہ سیل اپنے سوشل میڈیا کمانڈوز کے ذریعہ سیاستدانوں اور صحافیوں پر غداری کے الزام نہیں لگائے گا۔ امید ہے کہ مشرف کے ٹرائل پر امریکا اعتراض نہیں کرے گا۔ امریکا کیلئے بہتر یہی ہے کہ وہ دوحہ میں طالبان سے مذاکرات کرے اور پاکستان کی حکومت کو اس کے حال پر چھوڑ دے۔ امریکا نے 1994ء میں بے نظیر حکومت کے ذریعہ طالبان کی مدد شروع کی اور اس خطے میں ایک ڈبل گیم کا آغاز کیا۔ پھر پاکستان کے طاقتور اداروں نے بھی امریکا کے ساتھ ساتھ اپنے ہی عوام کے ساتھ ایک ڈبل گیم شروع کردی۔ پاکستان اور امریکا کو یہ ڈبل گیم بند کرنی ہے۔ آپ دوحہ میں افغان طالبان سے مذاکرات کریں ہمیں پاکستان میں پاکستانی طالبان سے مذاکرات کرنے دیں۔ اگر آپ نے ڈبل گیم بند نہ کی تو نقصان صرف پاکستان کا نہیں بلکہ آپ کا بھی ہوگا۔ آپ 2014ء میں افغانستان سے واپس نہ جا پائیں گے۔
تازہ ترین