• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج صبح قرآن پاک کی تفسیر پڑھتے ہوئے ایک حدیث مبارک نظر سے گزری جو آج کے مسلمانوں اور پاکستانیوں کے حالات کی کیا خوب عکاسی کرتی ہے۔ اس حدیث کے مفہوم کے مطابق مستقبل کے فتنہ کی بات کرتے ہوئے نبیﷺ فرماتے ہیں کہ اس فتنہ سے بچاؤ کی صورت اللہ کی کتاب ہے جس میں پہلے لوگوں کے بھی حالات ہیں اور بعد والوں کے بھی اور لوگوں کے باہمی معاملات کے متعلق حکم بھی ہے۔ اس حدیث کے مطابق قرآن پاک دو ٹوک بات کرتا ہے ، ہنسی مذاق کی بات نہیں کہتا۔جس نے اسے حقیر سمجھ کر چھوڑ دیا، اللہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے گا۔ اور جس نے قرآن کے علاوہ دوسری چیزوں کے لیے راہ ڈھونڈی، اللہ اسے گمراہ کر دے گا۔ نبیﷺ کے مطابق قرآن اللہ کی مضبوط رسی اور حکمتوں سے لبریز نصیحت ہے اور وہی صراط مستقیم ہے۔
جو اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا اس کے تناظر میں ذرا آج دنیا بھر میں پھیلے مسلمانوں کی حالت دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ قرآن کے پیغام کو پس پشت ڈالنے والے ڈیڑھ ارب مسلمان ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے ہیں۔ اللہ اور رسولﷺ کے حکم کو چھوڑ کر امریکا و مغرب کے بتائے ہوئے رستے پر چلنے والوں کو گمراہی، تباہی اور ذلت کا سامناہے۔ ہم مسلمانوں کی ایسی حالت کیوں نہ ہو جب اللہ کی کتاب جان کے بدلے جان لینے کی بات کرتی ہے اور قصاص کو معاشرہ کی زندگی گردانتی ہے مگر ہم نے سزائے موت کومغرب کی خوشنودی کے لیے معطل کیا ہوا ہے اور اب تو باقاعدہ ہمارے لوگ یہ مطالبہ بھی کررہے ہیں کہ اللہ کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے ہمیں سزائے موت کے قانون کو ہی پاکستان میں ختم کر دینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں اہلِ ایمان کو فرقہ بندیوں سے دور رہنے کاحکم دیتا ہے اور اُن کو صرف اور صرف ایک مسلمان کی پہچان دیتا ہے۔ مگر پاکستان میں آپ لوگوں سے بات کریں تو آپ کوسنّی ملے گا، شیعہ ملے گا، دیوبندی ملے گا، بریلوی ملے گا ، اہل حدیث ملے گا، وہابی ملے گا مگرایسے لوگ ڈھونڈے سے شاید ہی ملیں جو اپنی پہچان صرف اور صرف ایک مسلمان کے طور پر کراتے ہوں۔ ہم نے اللہ کے حکم کو چھوڑا تو اللہ نے ہمیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ اور ہمارے ٹکڑے بھی ایسے ہوئے کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ ہم نے ایک دوسرے کا جینے کا حق ہی چھین لیا۔ ایک دوسرے کو مار کر ہم جنّت کمانے کا خواب دیکھتے ہیں۔اسلام مسلمانوں کے درمیان رنگ و نسل اور زبان کی بنیاد پر کسی تفریق کو نہیں مانتا مگر ہم لسانیت، عصبیت اور نسل کی بنیاد پر نہ صرف منقسم ہیں بلکہ اس تقسیم کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو چکے ہیں۔ کراچی ہو یا بلوچستان نسل اور زبان کی بنیاد پر ٹکڑے ٹکڑے ہوئے پاکستانی ایک دوسرے کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں۔اللہ اور رسولﷺ مختلف جرائم کے لیے مختلف سزاؤں کا حکم دیتے ہیں مگر ہم اسلامی سزاؤں کا مذا اڑاتے ہیں۔ تو پھر ایسے میں دہشت گردی، فرقہ واریت اور دوسرے بڑھتے ہوے سنگین جرائم سے ہم کیسے جان چھڑا سکتے ہیں۔ روز روز ہمارے معصوم لوگ مارے جارہے ہیں مگر حکومت کچھ نہیں پا رہی ۔ دھماکے ہوتے جا رہیہیں مگر اُن کو روکنا ممکن نہیں، چاہے ہر چوک، ہر گلی میں بکتر بند گاڑیاں کھڑی کر دیں۔ اسلام قاتلوں، فساد فی الارض پھیلانے والے دہشتگردوں کا ایک ہی علاج تجویز کرتا ہے کہ سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کو نشانِ عبرت بنا دو۔ انہیں اہم چوراہوں پر لٹکا دو، اُن کا سر عام سر قلم کر دو۔ ایسا ہی ہمارے پیارے نبی ﷺ نے کیا مگر ہم ایسا کرنے کا سوچنے سے بھی ڈرتے ہیں۔ جو کالج کی بچیوں کو بم سے اڑاتے ہیں، جو پاکستان کے ایک اہم ورثہ زیارت ریزیڈنسی کو دھماکوں سے تباہ کرتے ہیں، جو ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں، فساد پھیلاتے ہیں، جو انسانوں کی جانوں سے کھیلتے ہیں وہ کسی رحم کے قابل نہیں۔ مگر ہم اور ہمارے حکمران ایسے قاتلوں کو چوراہوں پر لٹکانے کا حکم دینے سے گھبراتے ہیں کہ کہیں امریکا و مغرب ناراض نہ ہو جائیں۔ اللہ کی ناراضی کی ہمیں کوئی فکر نہیں۔اللہ تعالیٰ قرآن میں سود کے خلاف سخت ترین الفاظ میں لوگوں کو اس سے دور رہنے کا حکم دیتے ہیں اور یہاں تک فرماتے ہیں کہ سود لینے اور دینے والوں کے خلاف اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی جنگ ہے۔ سود کی رسولﷺ نے بھی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے اور مسلمانوں کو اس معاملہ سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔ مگر دنیا بھر کے مسلمانوں کو دیکھ لیں یا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مثال لے لیں، سود ہمارامعمول اور ہماری معیشت کا اہم ترین جز ہے کیوں کہ یہی ہمیں مغرب نے سکھایا ہے۔ حکمران ہیں کہ اس کے خاتمہ کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتے بلکہ اگر عدالت اس کے خاتمہ کا حکم دے تو اُسے بڑی عدالت میں چیلنج کر دیتے ہیں۔جب کہ لوگ ہیں کہ مختلف صورتوں میں بینکوں اور بچت اسکیموں سے بغیر کسی جھجک اور اللہ کے خوف سے سود پر سود کھائے جا رہے ہیں۔ میں نے حال ہی میں سود، فحاشی و عریانیت اور اسلامی نظام کے سلسلے میں وزیر اعظم نواز شریف سے بات کی اور اُن کو باور کروانے کو کوشش کی کہ بحیثیت حکمران اُن کو کتنی بڑی آزمائش کا سامنا ہے۔ میاں صاحب نے مجھے صبر سے سنا اور یہ تاثر دیا کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری پوری کریں گے۔ مگر کچھ روز بعد پیش کئے گئے بجٹ میں میاں صاحب کے وزیر خزانہ نے سود کے خاتمہ کی بات کرنے کی بجائے نوجوانوں کو کم شرح سود پر قرضے فراہم کرنے کی ”نوید“ سنائی۔ گویا خود بھی اللہ اور اللہ کے رسولﷺ سے جنگ کرو اور اپنی قوم اور نوجوانوں کو بھی گمراہی کے اسی رستے پر چلاؤ۔ حکومت کے اس بجٹ کو پاس کر کے ہماری پارلیمنٹ بھی اس گناہ میں برابر کی شریک ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو اس گمراہی سے بچائے۔ آمین۔
تازہ ترین