• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا 12/جون 2013ء کو پیش کردہ وفاقی بجٹ دراصل روایتی، وڈیرہ شاہی کلچر اور آئی ایم ایف کی تباہ کن شرائط پر مبنی ہے۔ بجٹ تجاویز کے نتیجے میں ٹیکسوں کی ادائیگی میں غیرمنصفانہ چھوٹ رکھنے والوں اور ٹیکس چوروں کے لئے پاکستان بدستور جنّت ہی رہے گا۔ بجٹ میں ایسی آمدنی سے اثاثے بنانے والوں پر 0.5فیصد کا نیا ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے جن پر پہلے ہی انکم ٹیکس ادا کیا جا چکا تھا جبکہ ٹیکس چوری کی آمدنی بشمول لوٹی ہوئی دولت کی آمدنی سے بنائے ہوئے اثاثوں پر یہ ٹیکس لاگو نہیں ہوگا۔ 2013-14 کے لئے ٹیکسوں کی وصولی اور معیشت کی شرح نمو کا ہدف مایوس کن حد تک کم ہے چنانچہ یہ بجٹ پائیدار معاشی بحالی کے مقصد کے حصول میں معاون ثابت نہیں ہوگا۔ ایک اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ بہت سی بجٹ تجاویز مسلم لیگ ن کے 2013 کے انتخابی منشور سے براہ راست متصادم ہیں۔ بجٹ میں شفافیت کا فقدان نظر آتا ہے۔ بجٹ میں اتحادی امدادی فنڈ کے تحت امریکہ کی جانب سے قابل وصول رقم اور مسترد کئے گئے بل کی رقوم کا ذکر نہیں کیا گیا۔ ٹیکسوں کی وصولی کے ضمن میں مسلم لیگ ن کے منشور کے مندرجہ ذیل نکات اور بجٹ میں اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ نذر قارئین ہے۔
(1) ”ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس عائد کیا جائیگا“ ہم سمجھتے ہیں کہ اس ضمن میں موثر قانون سازی کئے بغیر نہ تو پاکستان کی معیشت میں پائیدار بہتری آ سکتی ہے اور نہ ہی پاکستان اپنی خودمختاری اور سالمیت کی حفاظت کر سکتا ہے۔ اس قانون سازی میں خود مسلم لیگ ن کے ممبران پارلیمینٹ اور صوبائی اسمبلی کے ممبران رکاوٹ ہیں حالانکہ اسی منشور کے نام پر ہی انہوں نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ بجٹ میں ٹیکسوں کی وصولی کا مجموعی ہدف 2598/ارب روپے رکھا گیا ہے جبکہ ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس موثر طور سے نافذ کر کے 2013-14 میں ٹیکسوں کی وصولی کی موجودہ استعداد جوکہ 8500/ارب روپے ہے، کی طرف حوصلہ افزاء پیش قدمی کی جا سکتی تھی۔(2) ”انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے حاصل شدہ مواد (ڈیٹا بیس) کو زیادہ استعمال کیا جائیگا۔“ اگر بجٹ میں منشور کی اس شق پر مکمل عمل درآمد کیا جاتا تو 2013-14 میں ہی اضافی ٹیکسوں کی مد میں ٹیکس چوری کی مد میں 2000/ارب روپے کی اضافی وصولی (بجٹ کے ٹیکس اہداف کے علاوہ) ممکن ہوتی۔ واضح رہے کہ حکومت کے پاس 39/لاکھ افراد کے اربوں روپے کے ایسے اثاثوں کی تفصیلات بھی موجود ہیں جو ٹیکس حکام سے خفیہ رکھی ہوئی آمدنی سے بنائے گئے تھے۔ (3) ”کالے دھن کو سفید بنانے کے عمل کو روکنے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں گے“۔ بجٹ میں اس نکتہ پر بھی عمل نہیں کیا گیا واضح رہے کہ وطن عزیز میں کالے دھن کا حجم تقریباً 23000/ارب روپے ہے۔ انکم ٹیکس آرڈی نینس کی شق 111(4) کو برقرار رکھا گیا ہے چنانچہ کالے دھن کو سفید بنانے کا عمل جاری رہے گا اور ٹیکس کی چوری و کرپشن بڑھتی رہے گی۔ (4) ”براہ راست ٹیکسوں میں اضافہ کر کے ٹیکسوں کے نظام کو منصفانہ بنایا جائیگا۔“ بجٹ میں جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں 6.25فیصد اضافہ کیاگیا ہے اور یہ شرح 16فیصد سے بڑھا کر 17فیصد کر کے عوام کو نچوڑا گیا ہے۔
وزیر خزانہ نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ نومبر 2008 میں آئی ایم ایف سے منظور کرائے گئے قرضے کو ادا کرنے کے لئے آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لیا جائیگا۔ ہم نے اب سے ساڑھے چار برس قبل (اور اس کے بعد درجنوں بار) کہا تھا کہ پاکستان اس قرضے کی ادائیگی کے لئے نیا قرضہ لے گا۔ (جنگ 9/دسمبر 2008) مسلم لیگ ن کے علم میں بھی یہ صورت حال تھی لیکن ان برسوں میں ایک مرتبہ بھی ان کی طرف سے کسی بھی تشویش کا اظہار نہیں کیا گیا۔ ہم یہ بات گزشتہ برسوں سے وقتاً فوقتاً کہتے رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت اور مشیر خزانہ شوکت ترین نے متعدد بار دروغ گوئی اور غلط بیانی کر کے فرینڈز آف پاکستان کے ساتھ کئے گئے سودے اور امریکی ایجنڈے کے تحت پاکستان کو آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسوایا۔ اس وقت کی وزیر مملکت برائے خزانہ حنا ربانی کھر، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور خود شوکت ترین نے اس ”غلطی“ کو تسلیم کرنے میں ہی عافیت جانی۔ ہم اس سے قبل اسے سازش اور بعد میں گناہِ عظیم قرار دے چکے ہیں۔ اگر اس ضمن میں احتساب کرنے اور اس قرضے کی ادائیگی کے لئے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے بجائے امریکی سفارش پر آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لیا گیا تو جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں ”یہ 26ستمبر 2008 کی سازش کے اگلے مرحلے کے مقاصد کے حصول میں معاونت کے مترادف ہوگا (جنگ 6جون 2013) اس ضمن میں وزیر خزانہ کے آئی ایم ایف سے قرضے لینے کا اعلان ہوتے ہی استعماری طاقتوں کے ”گریٹ گیم“ کے تحت بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتیں اچانک تیز کرا دی گئی ہیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان وارداتوں اور دہشت گردی کی جنگ میں ”مزید اور کرو“ کے امریکی مطالبے کے تناظر میں آئی ایم ایف کے قرضے کی تین سالہ مدت میں پاکستان کی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کا حجم پاکستان کو ملنے والے قرضے کے حجم سے کہیں زیادہ ہوگا چنانچہ یہ قرضہ خسارے کا سودا ہوگا۔ اگر گزشتہ 3دہائیوں میں ٹیکسوں کا منصفانہ نظام وضع کر کے ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور پر ٹیکس نافذ اور وصول کیاگیا ہوتا، ان رقوم کا دیانتدارانہ استعمال کیاگیا ہوتا اور تعلیم، صحت، ووکیشنل ٹریننگ کی مد میں دوگنی رقوم خرچ کر کے مائیکرو فنانس کی طرف خصوصی توجہ دی گئی ہوتی تو آج پاکستان کی برآمدات 25ارب ڈالر کے بجائے 130ارب ڈالر ہوتیں اور پاکستان بجلی برآمد کرنے کی پوزیشن میں ہوتا۔ بدقسمتی سے وفاق اور صوبہ پنجاب و سندھ میں ایک مرتبہ پھر فیوڈل کلچر پر مبنی بجٹ بنایا گیا ہے جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا کا بجٹ اصلاحی ہونے کے باوجود معیار پر پورا نہیں اترتا۔ قومی تعلیمی پالیسی 2009 میں وفاق اور چاروں صوبوں کی منظوری سے یہ طے کیا گیا تھا کہ تعلیم کی مد میں 2015 تک مجموعی ملکی پیداوار کا سات فیصد خرچ کیا جائیگا لیکن خیبر پختونخوا میں بھی جسے مثالی صوبہ بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا، اس سمت میں مناسب پیش رفت نہیں کی گئی۔ وفاقی بجٹ تکنیکی طور پر بھی غلط ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ صوبے مجموعی طور پر 23/ارب روپے کا فاضل بجٹ پیش کریں گے مگر صوبوں نے مجموعی طور پر خسارے کے بجٹ پیش کئے ہیں۔ جون 2010 کو پیش کئے بجٹ میں کہا گیا تھا کہ صوبے زرعی شعبے اور جائیداد سیکٹر کو ٹیکس کے دائرے میں لا کر 170ارب روپے کے فاضل بجٹ پیش کریں گے مگر اس رقم کا حجم موجودہ بجٹ میں گھٹا کر 23ارب روپے کرنے کے باوجود صوبے اپنی ٹیکسوں کی وصولی بڑھانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مندرجہ بالا گزارشات کی روشنی میں بجٹ تجاویز میں مناسب تبدیلیاں کی جائیں۔
تازہ ترین